Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 267
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والو) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاکیزہ مَا : جو كَسَبْتُمْ : تم کماؤ وَمِمَّآ : اور سے۔ جو اَخْرَجْنَا : ہم نے نکالا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین وَلَا : اور نہ تَيَمَّمُوا : ارادہ کرو الْخَبِيْثَ : گندی چیز مِنْهُ : سے۔ جو تُنْفِقُوْنَ : تم خرچ کرتے ہو وَلَسْتُمْ : جبکہ تم نہیں ہو بِاٰخِذِيْهِ : اس کو لینے والے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ تُغْمِضُوْا : تم چشم پوشی کرو فِيْهِ : اس میں وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَمِيْدٌ : خوبیوں والا
اے ایمان والو ! وہ پاک چیزیں خرچ کرو ، جو تم نے کمائی ہیں ، اور اس میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں اور ردی چیز کا قصد نہ کرو کہ تم اس سے خرچ کرتے ہو ، اور خود اس سے لینے والے نہیں ، سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کرو ، اور جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ بےپروا ہے اور تعریفوں والا ہے
ربط آیات صدقات کی قبولیت کے متعلق تین شرائط کا پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ کسی کو خیرات دے کر نہ تو اس پر احسان جتلایا جائے ، نہ اسے تکلیف پہنچائی جائے اور نہ خرچ کرنے میں ریا کاری کا عنصر شامل ہو ، یعنی خالص نیک نیتی کے ساتھ رضائے الٰہی مقصود ہو ، اگر یہ چیزیں موجود ہوں گی ، تو صدقہ باطل ہوجائے گا ۔ اور دینے والا گناہ گار ہو کر الٹا وبال میں پڑجائے گا ۔ آج کے درس میں قبولیت کی چوتھی شرط مال کی پاکیزگی کا بیان ہے۔ قبولیت کی چوتھی شرط پاکیزگی مال ارشاد ہوتا ہے ۔ یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم اے ایمان والو ! خرچ کرو پاک اور ستھری چیزیں جو تم نے کمائی ہیں ۔ گویا قبولیت صدقہ کے لیے یہ بھی ایک شرط ہے کہ صاف ستھری اور بہتر چیز اللہ کے راستہ میں دی جائے۔ مفسرین کرام نے طیبات کی تفصیل میں دو چیزیں بیان کی ہیں ۔ پہلی چیز یہ ہے کہ جو مال فی سبیل اللہ خرچ کیا جا رہا ہے ، وہ حلال ہو ، جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو ۔ حرام مال سے ادا کردہ صدقہ قابل قبول نہیں ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص چوری ، ڈاکہ یا رشوت کا مال صدقہ کرتا ہے تو وہ بارگاہ ایزدی میں کیسے قبول ہوگا ، بلکہ ایسا کرنے سے انسان الٹا گناہ گار ہوگا ۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ جو شخص حرام کمائی کی خوراک کھائے گا یا لباس پہنے گا ، نہ اس کی عبادت قبول ہوگی اور نہ اس کا صدقہ خیرات قبول ہوگا ، اور اگر ایساشخص مر گیا اور اپنے پیچھے مال چھوڑ گیا تو وہی مال اس کے لیے جہنم کا زاد راہ ہوگا ۔ بعض چیزیں تو شرعا ًقطعی حرام ہیں اور بعض مشتبہ ہوتی ہیں ۔ مشتبہ مال کی خیرات بھی درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی ، کیونکہ واضح حکم موجود ہے۔ کلوا مما فی الارض حلا لاطیبا یعنی حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائو ، حرام سے پرہیز کرو۔ طیب کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز بھی صدقہ میں دی جا رہی ہے۔ وہ اعلیٰ اور بہتر ہو نہ کہ نکمی اور ردی چیز ، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اچھی چیز اپنے لیے رکھ لی جائے اور کم تر چیز زکوٰۃ و صدقات میں دی جائے ، یہ بھی مناسب ہیں ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کھجور کے اچھے گچھے اپنے واسطے محفوظ کرلیتے ہیں اور کمتر گچھے اصحاب صفہ ؓ کے لیے لٹکا دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی تقسیم نے منع فرمایا ہے ۔ جب تم خود ردی چیز کو پسند نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ اسے کیسے پسند کریگا ، لہٰذا زکوٰۃ و صدقات میں بہتر چیزدینی چاہئے۔ ذاتی کمائی میں سے خرچ فرمایا ، اے اہل ایمان ! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو ما کسبتم جو تم نے کمائی ہیں ۔ اب کمائی کی بھی مختلف صورتیں ہیں ۔ منجملہ ان کے کمائی کا اولین ذریعہ انسان کی ذاتی محنت و مشقت ہے ۔ کوئی تجارت کرتا ہے ، دکاندار ہے ، ملازم ہے ۔ کارخانہ دار ہے یا مزدور ہے۔ یہ سب ذاتی آمدن کے ذرائع ہیں آمدن کے بعض دوسرے ذرائع اضطراری ہوتے ہیں ۔ جن میں انسان کی ذاتی مشقت کا دخل نہیں ہوتا ، مثلاً کہیں سے ہدیہ مل گیا ، وصیت کے ذریعے کوئی چیز حاصل ہوگی یا اسے وراثت سے حصہ مل گیا ۔ ان ذرائع سے حاصل شدہ مال بھی انسان کی ملکیت ہوتا ہے تو پاکیزہ چیزیں خرچ کرنے کا قانون ان تمام ذرائع سے حاصل شدہ آمدنی پر ہوگا ، لہٰذا حکم ہوا ہے کہ تم جس حلال مال سے بھی خرچ کرنا چاہو ، اچھی اور بہتر چیز دو ۔ اللہ کے راستے میں کم تر چیز دینے کی کوشش نہ کرو ۔ پہلے گزر چکا ہے ۔ انفقوا مما رزقنکم اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا ہے۔ جب سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ تو پھر اسی کے نام پر اچھی سے اچھی چیز دینی چاہئے نہ کہ گھٹیا چیز کیونکہ دینے والا تو وہ خود ہی ہے۔ زرعی پیداوار میں سے خرچ براہ راست خود محنت کر کے کمانے کے علاوہ ایک ذریعہ آمدنی زرعی پیداوار بھی ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس میں سے بھی خرچ کرو ومما اخرجنا لکم من الارض جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا زرعی پیداوار میں ہر قسم کا غلہ مثلا ً گندم ، جو ، چاول ، مکئی ، باجرہ اور دالیں وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ہر قسم کا پھل اور سبزیاں بھی زرعی پیداوار ہیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ کتنا خرچ کیا جائے۔ تو سب سے پہلے جو کچھ قرض ہے ، وہ ادا ہونا چاہئے ، جس طرح تجارت وغیرہ کے مال میں کل مال کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے۔ اس طرح زرعی پیدوار سے عشر یعنی دسواں حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا فرض ہے۔ البتہ اس مد کے دو حصے ہیں ۔ بارانی زمین یعنی جو زمین مالک کی مشقت کے بغیر سیراب ہوتی ہے ۔ اس میں سے دسواں حصہ اور جو نہری یا چاہی زمین ہے۔ جسے مالک خود محنت کر کے پانی بہم پہنچاتا ہے ، اس میں سے بیسواں حصہ نکالنا فرض ہے البتہ بعض خود رو چیزوں جیسے گھاس ، لکڑیاں اور کا نے ، ان تین چیزوں پر عشر نہیں ہے۔ یہ معاف ہیں اگر یہ چیزیں خود کاشت کی جائیں ۔ چارے کے لیے گھاس وغیرہ خو د بوئی جائے ، لکڑی کے لیے درخت لگائیں یا کا نے کی کاشت کی جائے ، تو پھر ان پر عشر ادا کرنا ہوگا ، امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی فتویٰ ہے ۔ عشر کی ادائیگی تو فرض ہے ۔ یہ تو لازمی ہے اس کے علاوہ اگر کوئی مزید خرچ کرے گا تو وہ نوافل میں شمار ہوگا اور موجب اجر وثواب ہوگا ۔ یہاں پر ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے۔ حضور ﷺ کی حدیث ہے۔ لیس فی الخضروات صدقۃ یعنی سبزیوں میں صدقہ نہیں ہے ، حالانکہ یہ بھی زرعی پیدوار ہے اور زمین ہی سے نکلتی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سبزیوں پر عشر بالکل معاف ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سبزیوں کا عشر کاری خزانے میں جمع کرانے کی ضرورت نہیں مالک خود اپنی صوابدید کے مطابق مستحقین میں تقسیم کر دے ۔ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سبزیاں جلد خراب ہوجانے والی چیز ہے سرکاری انتظام میں پہنچتے پہنچتے اور پھر تقسیم ہونے تک اس کے ضائع ہوجانے کا خدشہ ہے ۔ اس لیے سبزی عشر یعنی دسواں یا بیسواں حصہ مالک کو خود تقسیم کردینا چاہئے ۔ مثال کے طور پر اگر سبزی کے دس گٹھے حاصل ہوئے ہیں ۔ تو ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دے ، یا اگر زمین چاہی یا نہری ہے۔ تو بیس گٹھوں میں سے ایک اد ا کرے ۔ علی ہذا القیاس یہی مسلک قرآن و سنت سے موافقت رکھتا ہے۔ زرعی پیداوار کے نصاب کے متعلق فقہائے کرام میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فرماتے کہ دو سو درہم سے کم مالیت کی زرعی پیداوار پر عشر ہیں ہے کیونکہ یہ حدیث سے ثابت ہے کہ پانچ وسق سے کم اناج پر عشر نہیں اور پانچ وسق دو سو درہم کا بنتا ہے مگر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تجارتی مال سے متعلق ہے ۔ جس شخص کے پاس تجارت کی غرض سے پانچ وسق سے کم اناج ہے وہ زکوٰۃ نہ دے کیونکہ یہ نصاب کو نہیں پہنچتا ۔ البتہ زرعی پیدوار کے متعلق فرماتے ہیں کہ زرعی پیدوار قلیل ہو یا کثیر اس پر عشر ضروری ہے کیونکہ اس کے متعلق حدیث میں واضح الفاظ آئے ہیں ۔ زمین کے مالک کو زرعی پیداوار کی کم سے کم مقدار پر بھی عشر ادا کرنا ہوگا ۔ البتہ یہ سوال باقی رہتا ہے کہ عشر کون ادا کرے ، مالک اراضی یا کاشتکار یا دونوں ۔ بعض فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عشر کی ادائیگی کا شتکار پر لازم آتی ہے ۔ مالک اراضی پر نہیں ، تا ہم راحج قول یہ ہے کہ عشر کی ادائیگی کے حصہ رسدی دونوں ذمہ دار ہیں ۔ انہیں چاہیے کہ کل پیداوار سے پہلے عشر نکالیں اور باقی اناج وغیرہ آپس میں تقسیم کریں۔ مع دنیات سے خرچ زمین کی پیداوارکا ایک اور ذریعہ مع دنیات ہیں ۔ عام زمین میں اور پہاڑوں میں کانیں پائی جاتی ہیں جن سے تانبہ ، نمک ، کوئلہ ، لوہا ، سونا ، چاندی ، تیل وغیرہ نکلتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کی زکوٰۃ خمس یعنی کل آمدنی کا پانچواں حصہ ہے۔ چونکہ ان اشیاء کی پیداوار کے لئے عموماً محنت کی ضروت نہیں ہوتی ، نہ بیج نہ پانی نہ نہلائی وغیرہ اس لیے اس کی کل آمدنی کا پانچواں یعنی بیس فیصد ادا کرنا ضروری ہے۔ البتہ ایک مسئلہ فقہائے کرام کے درمیان مختلف فیہ ہے کہ ان کانوں کا مالک کون ہے ۔ اما م ابوحنیفہ (رح) ، امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ کانوں کا مالک وہ شخص ہے جس کی اراضی سے مع دنیات برآمد ہو ۔ لہٰذا خمس بھی وہی ادا کرے گا ۔ اگر یہ مع دنیات کسی عام جنگل ، صحرا یا سمندر سے نکلیں تو ان کی مالک حکومت ہوگی البتہ امام مالک (رح) کا مسلک یہ ہے کہ کان خواہ کہیں بھی نکلے ، اس کی مالک حکومت ہے ۔ امام مالک صاحب (رح) انفرادی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ خبیث مال قابل قبو ل نہیں بہر حال فرمایا کہ اگر کمائی تمہاری ذاتی محنت و مشقت کی ہے تو پھر اس میں سے حلال اور طیب چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور جو زمین کی پیداوار ہے اس میں سے بھی اچھی چیز خرچ کرو ، ولا تیموا الخبیث منہ تنفقون اور ردی یا کم تر چیز کو خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو ۔ خبیث سے مراد ردی یا گھٹیا چیز ہے اور اس کا اطلاق نا پاک چیز پر بھی ہوتا ہے۔ اللہ کی راہ میں صاف ستھری چیز دینی چاہئے کیونکہ ولستم با خذیہ گھٹیا چیز جب تم خود لینے کے لیے تیار نہیں ہو تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایسی چیز کیوں دیتے ہو ۔ گھٹیا چیز قبول کرنے کی ایک صورت ہے کہ الا ان تغمضوا فیہ تم خود چشم پوشی کرلو ، مگر یہ تم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو ، لہٰذا اللہ کی راہ میں بھی اچھی سے اچھی خرچ کرو ۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لن تنالو البر حتی تنفقوا مما تحبون تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز خرچ نہ کرو۔ ظاہر ہے کہ ہر شخص کے لیے اچھی ، صاف ستھری اور بہتر چیز ہی پسندید ہوتی ہے ، لہٰذا بہتر چیز ہی فی سبیل اللہ بھی ادا کرو۔ پاکیزہ چیز کے سلسلہ میں ترمذی شریف کی حدیث ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا لا تقبل صلوۃ بغیر طھور ولا صدقۃ من غلول یعنی طہارت کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں کرتا اور خیانت کے مال سے صدقہ قبول نہیں کرتا لہٰذا جس مال کی زکوٰۃ ، صدقات ، خیرات وغیرہ دی جا رہی ہے۔ اس کا حلال اور طیب ہونا بھی ضروری ہے واعلموا اچھے سے جان لو ان اللہ غنی حمید کہ اللہ تعالیٰ ۔۔۔ بےپروا ۔۔۔۔ اور بےنیاز ہے ، اس کو تمہارے صدقات و خیرات کی کوئی ضرورت نہیں یہ تو تمہارے اپنے ہی فائدے کے لیے ہے تا کہ تم اس سے آخرت میں مستفید ہو سکو ، یہ دنیا میں قوم کے غرباء و مساکین کی اعانت کا ایک ذریعہ ہے نیز تمہارے اپنے اخلاق بھی اس کی وجہ سے عالی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ تم پر راضی ہوں گے ، اللہ تعالیٰ حمید یعنی تمام خوبیوں کا مالک خود ہے تم اچھا کام کرو یا برا کرو ، وہ بےنیاز ہے۔ تمہارے اچھے اعمال نہ اس کی خدائی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ تمہارے برے اعمال اسکی خدائی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے تو اس کی راہ میں خرچ کرو ، اور اس کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے تمہیں انعام سے نوازا ہے۔ شیطان کا بہکاوا فرمایا ، دیکھنا اس معاملے میں شیطان کے بہکاوے میں نہ آجانا ۔ شیطان کی یہ ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ طرح طرح کے وسوسے ڈال کر انسان کو نیک عمل سے روکنے کی کوشش کرتا ہے ، چناچہ انفاق فی سبیل اللہ کے سلسلے میں الشیطن یعد کم الفقر شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ شیطان انسان پر اس طرح حملہ آورہوتا ہے کہ اگر مال تھوڑا ہے تو وہ بہکاتا ہے کہ اگر یہ مال صدقات میں دے دیا تو پھر تمہارے پاس کچھ نہیں بچے گا ۔ تم مفلس ہو کر دوسروں کے محتاج ہو جائو گے۔ جب اس قسم کا خیال آئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے ۔ اگر مال قلیل بھی ہے تو اس میں سے کچھ نہ کچھ دے دو ، اللہ تعالیٰ بقیہ مال میں برکت دیگا۔ فرمایا وما انفقتم من شی فھو یخلفہ اگر خرچ کروگے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے ذریعے مال دے دیگا ، لہٰذا بخل نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو وافر مال دیا ہے ۔ تو پھر شیطان دوسرے طریقے سے حملہ کرتا ہے ویامر کم بالفحشاوہ تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مالدار آدمی کو فحاشی کے کاموں کی طرف لگا دیتا ہے کہ فکر نہ کرو تمہارے پاس بہت مال ہے ۔ خوب عیش و عشرت کی زندگی بس کرو۔ دنیا میں بار بار نہیں آنا لہٰذا کھائو پیو ، عیش کرو یا پھر اس کا مال کھیل تماشے اور فضول رسم و رواج میں خرچ کراتا ہے۔ کہیں دھوم دھام سے شادی ہو رہی ہے۔ سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ باجے بجائے جا رہے ہیں ، چراغاں کیا جا رہا ہے کہیں عرس منائے جا رہے ہیں اور لاکھوں روپیہ ان فضول رسم و رواج پر ضائع کیا جا رہا ہے یہ سب شیطان کے بہکاوے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ فرمایا اس کے بر خلاف اللہ تعالیٰ تمہیں ابدی نعمتوں سے نوازنا چاہتا ہے۔ واللہ یعدکم مغفرۃ منہ وفضلا ً اللہ تعالیٰ تم سے مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے ، اگر اس کے حکم کے مطابق اس کے راستے میں خرچ کرو گے ۔ تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرمادے گا ۔ دنیا میں بھی برکت عطا کرے گا اور آخرت میں اپنے فضل سے جنت میں داخل کر دے گا یہ اس کا وعدہ ہے ، لہٰذا شیطان کے بہکاوے میں نہ آنا اللہ تعالیٰ کے وعدے پر یقین کرے کے اس کے احکام کی بجا آوری کرو اور دائمی فلاح پا جائو ۔ واللہ واسع علیم اللہ تعالیٰ بڑا ہی وسعت والا ہے۔ اس کے خزانے بہت وسیع ہیں وہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں لوٹاتا بلکہ انہیں دگنا چوگنا عطا کرتا ہے۔ وہ ہر چیز کو جاننے والا بھی ہے۔ وہ علیم بذات الصدور بھی ہے۔ تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے۔ جس قدر اخلاص تمہارے دلوں میں موجود ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے مطابق بڑھا چڑھا کر تمہیں عطا کریں گے۔
Top