Al-Qurtubi - Al-Baqara : 267
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والو) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاکیزہ مَا : جو كَسَبْتُمْ : تم کماؤ وَمِمَّآ : اور سے۔ جو اَخْرَجْنَا : ہم نے نکالا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین وَلَا : اور نہ تَيَمَّمُوا : ارادہ کرو الْخَبِيْثَ : گندی چیز مِنْهُ : سے۔ جو تُنْفِقُوْنَ : تم خرچ کرتے ہو وَلَسْتُمْ : جبکہ تم نہیں ہو بِاٰخِذِيْهِ : اس کو لینے والے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ تُغْمِضُوْا : تم چشم پوشی کرو فِيْهِ : اس میں وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَمِيْدٌ : خوبیوں والا
مومنو ! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور وہ چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو اور جان رکھو کہ خدا بےپرواہ (اور) قابل ستائش ہے
آیت نمبر : 267۔ اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ (آیت) ” یایھا الذین امنوا انفقوا “۔ یہ خطاب حضور نبی رحمت ﷺ کی تمام امت کو ہے اور یہاں انفاق سے جو معنی مراد ہے اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب، عبیدہ سلیمانی اور ابن سیرین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا ہے : اس سے مراد وہ زکوۃ ہے جو فرض کی گئی ہے۔ اس میں عمدہ شے کی بجائے ردی اور گھٹیا چیز خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : حضرت براء بن عازب، حسن اور قتادہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے قول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت نفلی صدقہ کے بارے میں ہے اور لوگوں پر مستحب قرار دیا گیا ہے کہ وہ نفلی صدقہ و خیرات نہ کریں مگر عمدہ اور جید چیز کے ساتھ۔ اور آیت دونوں وجہوں کو شامل ہے لیکن صاحب زکوۃ کا تعلق اس اعتبار سے ہے کہ اس آیت کے ساتھ زکوۃ کا حکم دیا گیا ہے اور امر وجوب پر دلالت کرتا ہے اور یہ کہ اسے ردی شے دینے سے منع کیا گیا ہے اور یہ فرض زکوۃ کے ساتھ مخصوص ہے اور رہا نفلی وجوب پر دلالت کرتا ہے اور یہ کہ اسے ردی شے دینے سے منع کیا گیا ہے اور یہ فرض زکوۃ کے ساتھ مخصوص ہے اور رہا نفلی صدقہ تو جس طرح آدمی کے لئے نفلی صدقہ میں قلیل شے دینا جائز ہوتا ہے تو اسی طرح اس کے لئے کم درجے کی شے نفلی صدقہ میں دینا جائز ہوگا اور درہم کھجور سے بہتر اور اچھا ہے۔ اور ندب والوں نے اس طرح استدلال کیا ہے کہ افعل کا لفظ (مراد صیغہ امر ہے) ندب و استحباب کی صلاحیت رکھتا ہے جس طرح وہ فرض کی صلاحیت رکھتا ہے اور ردی اور گھٹیا شے دینے سے نفلی صدقہ میں بھی اسی طرح منع کیا گیا ہے جس طرح فرض میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کسی کی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے لئے عمدہ اور اچھی شے دیجائے۔ اور حضرت براء ؓ نے روایت کیا ہے کہ کسی آدمی نے ردی کھجوروں کا ایک خوشہ لٹکایا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا : بئسما علق کتنی ردی شے ہے جو اس نے لٹکائی ہے، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے (1) (ابن ماجہ، باب النھی ان یخرج فی الصدقۃ شرمالہ، حدیث نمبر 1811، ضیاء القرآن پبلیکشنز) عنقریب یہ مکمل روایت آئے گی، اس قول کی بنا پر امر ندب و استحباب پر دلالت کرتا ہے، لہذا انہوں نے مستحب قرار دیا کہ وہ نفلی صدقہ میں اچھی اور عمدہ شے کے سوا کوئی نہ دیں۔ اور جمہور متاولین نے کہا ہے : (آیت) ” من الطیبت “۔ کا معنی ہے : عمدہ اور پسندیدہ شے میں سے جو تم نے کمائی ہیں۔ اور ابن زید نے کہا ہے : حلال چیزوں میں سے جو تم نے کمائی ہیں۔ مسئلہ نمبر : (2) کسب (کمائی) وہ ہوتا ہے جو بدن کی مشقت اور محنت سے حاصل ہو، اور یہ اجارہ ہے اس کا حکم آئے گا یا تجارت میں باہم گفتگو ہوتی ہے اور وہ بیع ہے اس کا بیان آگے آئے گا اور میراث اس میں داخل ہے کیونکہ غیر وارث نے اسے کمایا ہے (حاصل کیا ہے) حضرت سہل بن عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ ابن مبارک سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو کچھ کمانے کا ارادہ رکھتا ہو اور اپنی کمائی سے ارادہ اور نیت یہ کرتا ہو کہ وہ اس سے صلہ رحمی کرے گا، جہاد کرے گا اور وہ نیکی اور خیر کا کام کرنے لگتا ہے اور اس غرض سے کسب کی آفات اور مشقتوں میں داخل ہوجاتا ہے تو انہوں نے کہا : اگر اس کے پاس زندگی گزارنے کے لئے اتنی مقدار میں سامان اور قوت موجود ہو جس کے ساتھ وہ اپنے آپ کو لوگوں سے روک سکتا ہو (یعنی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت اسے نہ پڑے) تو پھر اس کسب کو ترک کرنا افضل ہے، کیونکہ جب اس نے حلال طلب کیا اور حلال میں ہی خرچ کیا تو اس سے اس کی کمائی کے بارے اور اس کے خرچ کے بارے سوال کیا جائے گا اور اسے چھوڑنا زہد ہے کیونکہ زہد حلال چھوڑنے میں ہی ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) ابن خویز منداد نے کہا ہے : اس آیت کے مطابق والد کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی اولاد کی کمائی سے کھا سکتا ہے اور اس لئے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تمہاری اولاد تمہاری عمدہ اور اچھی کمائی میں سے ہے، پس تم اپنی اولاد کے اموال میں سے خوشی خوشی کھاؤ۔ (1) (ابوداؤد باب فی الرجل یا کل من مال ولدہ، حدیث نمبر 3061، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ومما اخرجنا لکم من الارض “۔ یعنی نباتات، معاون اور رکاز (زمین میں قدرتی طور پر گڑی ہوئی دھاتیں) یہ تین ابواب ہیں۔ یہ آیت ان تینوں کو متضمن ہیں۔ پس رہی نباتات، دارقطنی نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا : رسول اللہ ﷺ سے سنت جاریہ یہ ہے ” کہ پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔ “ اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہے اور وہ گندم، جو، کھجور اور کشمش میں سے تین سو صاع ہیں، اور زمین جو سبزہ وغیرہ اگاتی ہے اس میں زکوۃ نہیں ہے اور ایک قوم نے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے لئے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے (آیت) ” ومما اخرجنا لکم من الارض “۔ بیشک یہ آیت عام ہے اور زمین سے قلیل یا کثیر مقدار میں پیدا ہونے والی تمام اقسام کی چیزوں کو شامل ہے اور انہوں نے امر کے ظاہر کو دیکھا کہ وہ وجوب کے لئے ہے، اس کا مکمل بیان سورة انعام میں آئے گا۔ اور جہاں تک معدن کا تعلق ہے تو ائمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جانوروں کا زخم رائیگاں ہے، کنواں ہدر ہے، معدن بھی ہدر ہے اور رکاز میں خمس ہے (2) (صحیح بخاری باب : فی الرکاز الخمس حدیث نمبر : 1403 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تو یہ اس پر دلیل ہے کہ معاون کا حکم رکاز کے حکم کے سوا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے معاون اور رکاز کے مابین واؤ فاصلہ کے ساتھ فرق بیان کیا ہے، اگر دونوں میں حک ایک جیسا ہوتا تو آپ فرماتے : معدن ہدر ہے اور اس میں خمس ہے۔ اور جب آپ نے یہ فرمایا : وفی الرکاز الخمس تو اس سے معلوم ہوا کہ رکاز کا حکم معدن کے حکم کے سوا ہے اس بارے میں جو اسے لیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ رکاز دراصل لغت میں اس سے مراد وہ سونا، چاندی اور جواہرات ہیں، جو زمین میں گڑے ہوئے ہوں، تمام فقہاء کے نزدیک اسی طرح ہے، کیونکہ وہ سونے چاندی کے ان ٹکڑوں کے بارے میں کہتے ہیں جو معدن میں پائے جاتے ہیں وہ زمین میں گڑے ہوئے ہیں وہ عمل، محنت اور مشقت سے نہیں پائے جاتے، ان میں خمس ہے : کیونکہ وہ رکاز ہے اور امام مالک سے روایت ہے کہ معدن میں سونے اور چاندی کے ٹکڑوں کا حکم اس شے کا حکم ہے جس میں عمل اور محنت کی مشقت کی جاتی ہے جو کچھ معدن سے نکالا جاتا ہے وہ رکاز میں داخل ہے۔ پہلا قول ہی آپ کے مذہب کا حاصل ہے اور اسی پر جمہور فقہاء کا فتوی ہے۔ اور عبداللہ بن سعید ابن ابی سعید مقبری نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا : رسول اللہ ﷺ سے رکاز کے بارے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ سونا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں اس دن پیدا فرمایا جس دن آسمانوں اور زمین کو تخلیق فرمایا :“ یہ عبداللہ بن سعید متروک الحدیث ہیں، اسے ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے اور حضرت ابورہریرہ ؓ سے ایک دوسری سند سے بھی یہ مروی ہے اور وہ صحیح نہیں ہے، اسے دارقطنی نے ذکر کیا ہے، علماء کی جماعت کے نزدیک دور جاہلیت میں لوگوں کے دفن کئے ہوئے اموال بھی رکاز ہیں وہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کرتے بشرطیکہ اس کا دفن اسلام سے پہلے اموال عادیہ (پرانے اموال) میں سے ہو۔ اور وہ جو زمانہ اسلام کے اموال میں سے ہو تو ان کے نزدیک اس کا حکم لقطہ کے حکم کی مثل ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) رکاز جب پایا جائے تو اس کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک نے بیان کیا ہے : زمانہ جاہلیت کے دفینوں میں سے جو سرزمین عرب میں یا اس ہموار اور جنگلی زمین میں پایا جائے جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کی ملکیت میں آئی ہو تو وہ دفینہ اسی کے لئے ہوگا جس نے اسے پایا اور اس میں خمس ہوگا اور جو مسلمانوں کی زمین میں پایا جائے تو وہ لقطہ کی مثل ہوگا، مزید فرمایا : اور جو دفینہ جنگ کے علاقے میں پایا جائے تو وہ اس پوری جماعت (لشکر) کے لئے ہوگا جس نے اسے فتح کیا نہ کہ صرف پانے والے کے لئے اور جو کچھ صلح والے علاقے سے پایا جائے تو وہ اس شہروالوں کے لئے ہوگا نہ کہ عام لوگوں کے لئے اور اس میں پانے والے کے لئے کوئی شے نہ ہوگی مگر یہ کہ وہ اہل دار میں سے ہو تو پھر وہ ان کے سوا اس کے لئے ہوگا اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلکہ وہ تمام صلح کرنے والوں کے لئے ہوگا۔ اسماعیل نے کہا ہے : بلاشبہ رکاز کا حکم مال غنیمت کے حکم کے ساتھ ہے کیونکہ وہ کافر کا مال ہے جسے مسلمان نے پالیا ہے، پس اسے اس کے قائم مقام رکھا گیا ہے جو کافر کو قتل کرے اور اس کا مال لے لے، پس اس کے لئے کل مال کے چار خمس ہوں گے، ابن القاسم نے کہا ہے : امام مالک سازوسامان، جواہرات، لوہا، تانبہ اور اسی طرح کی دیگر چیزوں میں جو بطور رکاز پائی جاتی ہیں ان کے بارے کہتے تھے کہ ان میں خمس ہے، پھر آپ نے اس سے رجوع کرلیا اور فرمایا : میں اس میں کوئی شے نہیں دیکھتا، پھر آخری بار جب ہم آپ سے جدا ہوئے تو آپ نے کہا : اس میں خمس ہے اور عموم حدیث کی بنا پر یہی صحیح ہے اور اسی پر جمہور فقہاء ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمد ﷺ نے ایسے رکاز کے بارے میں جو گھر میں پایا جاتا ہے کہا ہے : بلاشبہ یہ گھر کے مالک کے لئے ہے کہ کہ پانے والے کے لئے اور اس میں خمس بھی ہے اور امام ابو یوسف (رح) نے اس کے برعکس کہا ہے کہ وہ پانے والے کے لئے ہے نہ کہ صاحب خانہ کے لئے اور یہی ثوری کا قول ہے اور اگر وہ جنگل میں پایا جائے تو پھر تمام کے قول کے مطابق وہ پانے والے کے لئے ہوگا اور اس میں خمس ہوگا اور ان کے نزدیک صلح اور جنگ کی زمین کے مابین کوئی فرق نہیں ہے اور اسی طرح ان کے نزدیک عرب کی زمین اور دوسری زمین سب برابر ہے اور انکے نزدیک پانے والے کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کا خمس اپنے لئے روک لے جبکہ وہ خود محتاج ہو اور اس کے لئے وہ مساکین کو دینا بھی جائز ہے۔ اہل مدین اور اصحاب مالک میں سے کچھ ہیں جو ان میں سے کسی شے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور انہوں نے کہا ہے : برابر ہے رکاز جنگ والی زمین یا صلح کی زمانی میں پایا جائے یا سرزمین عرب میں ہو یا علاقہ حرب میں جب وہ کسی ایک کی ملکیت نہ ہو اور نہ کسی ایک نے اس کا دعوی کیا ہو تو وہ اپنے پانے والے کے لئے ہوگا اور اس میں ظاہر حدیث کے عموم کی بنا پر خمس ہوگا اور یہی لیث، عبداللہ بن نافع، شافعی اور اکثر اہل علم کا قول ہے : مسئلہ نمبر : (6) اور جہاں تک ان چیزوں کا تعلق ہے جو معاون سے حاصل کی جاتی ہیں اور کانوں سے نکلتی ہیں ان میں اختلاف کیا گیا ہے، پس امام مالک اور ان کے اصحاب نے کہا ہے : سونا یا چاندی میں سے جو کچھ کانوں سے نکلتا ہے اس میں کوئی شے واجب نہیں ہوتی یہاں تک کہ سونا بیس مثقال یا چاندی پانچ اوقیہ ہوجائے، پس جب یہ دونوں چیزیں اس مقدار کو پہنچ جائیں تو ان میں زکوۃ واجب ہوجائے گی، اور جو مقدار اس سے زائد ہو اس کے حساب سے اس کی زکوۃ بھی ہوگی جب تک وہ معدن میں پائی جائے اور ایک بار وہ ختم ہوجائے اور پھر دوبارہ اس کے بعد پائی جائے تو پھر اس میں زکوۃ شروع کردی جائے گی اور ان کے نزدیک رکاز کھیتی کی طرح ہے کہ جب کوئی شے نکلے گی تو اس وقت اس سے زکوۃ لے لی جائے گی اور اس پر سال گزرنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ سحنون نے ایسے آدمی کے بارے میں کہا ہے جس کی کئی کانیں ہوں کہ وہ ان میں سے ایک میں جو کچھ ہے اسے دوسری سے حاصل ہونے والی شے کے ساتھ نہیں ملائے گا اور نہ ہی زکوۃ ادا کرے گا مگر تبھی جب ان میں سے ہر ایک میں سے دو سو درہم یا بیس درینا حاصل ہوں، اور محمد بن مسلمہ نے کہا ہے : وہ بعض کو بعض کے ساتھ ملا دے گا اور تمام کی اکٹھی زکوۃ ادا کرے گا جیسا کہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار میں کیا جاتا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحابرحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : معدن رکاز کی مثل ہے، پس سونے یا چاندی میں سے جو کچھ معدن میں پایا گیا خمس نکالنے کے بعد دونوں میں سے ہر ایک کا اعتبار کیا جائے گا، پس جس نے اپنے ہاتھ سے محنت کے ساتھ وہ شے حاصل کی جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے تو سال مکمل ہونے پر وہ اس کی زکوۃ ادا کرے، اگر اس پر سال گزر جائے وہ نصاب اس کے پاس ہو۔ یہ تب ہے جب اس کے پاس اتنا سونا یا چاندی نہ ہو جس میں زکوۃ واجب ہو۔ اور اگر اس کے پاس اس میں سے اتنا ہو جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے تو وہ اسے اس کے ساتھ ملا لے اور اس کی زکوۃ ادا کرے، اسی طرح ان کے نزدیک سال کے دوران جو نفع حاصل ہوگا اسے اپنی جنس کے نصاب کے ساتھ ملایا جائے گا اور اصل نصاب پر سال گزرنے پر زکوۃ ادا کی جائے گی، یہی ثوری کا قول ہے۔ اور مزنی نے امام شافعی سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا : وہ شے جس میں شک کرتا ہوں وہ وہی ہے جو معادن سے نکلتی ہے مزنی نے کہا ہے : ان کی اصل کی بنا پر اولی یہ ہے کہ جو کچھ معدن سے نکلتا ہے وہ فائدہ اور نفع ہو وہ اسے نکالنے کے بعد سال گزرنے پر اس کی زکوۃ ادا کرے گا۔ اور لیث بن سعد نے کہا ہے : سونا اور چاندی میں سے جو کچھ بھی معاون سے نکلتا ہے وہ بمنزلہ نفع اور فائدہ کے ہے وہ نئے سرے سے اس پر سال پورا کرے گا۔ اور یہی امام شافعی کا اس بارے میں قول ہے جسے مزنی نے ان کے مذہب سے حاصل کیا ہے۔ اور اس کے بارے میں داؤد اور ان کے اصحاب نے کہا ہے : جب اس پر ایسے مالک کے پاس پورا سال گزرجائے جس کی ملکیت صحیح ہو (تو اس پر زکوۃ لازم ہوگی) کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے “ جس نے مال حاصل کیا اس پر زکوۃ نہیں ہے یہاں تک کہ اس پر سال گزر جائے “ اسے ترمذی اور دارقطنی نے بیان کیا ہے۔ (1) (سنن ترمذی، کتاب الزکوۃ، حدیث نمبر 572، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور انہوں نے اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جسے عبدالرحمن بن انعم نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے مؤلفۃ قلوب میں سے ایک قوم کو کچھ سونا عطا فرمایا جو ابھی اپنی مٹی میں ملا ہوا تھا اور حضرت علی ؓ نے وہ یمن سے بھیجا تھا۔ (2) (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء، حدیث نمبر 3095، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حضرت امام شافعی (رح) نے کہا ہے : مؤلفہ قلوب کا حق زکوۃ میں ہے، تو اس سے یہ واضح ہوگیا کہ معاون کا طریقہ وہی ہے جو زکوۃ کا طریقہ ہے۔ (یعنی انکے احکام ایک جیسے ہیں) امام مالک کی دلیل حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کی حدیث ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت بلال بن حارث ؓ کو معادن قبیلہ (٭) (القبللیہ (بالتحریک) یہ منسوب ہے قبل کی طرف جو ساحل سمندر پر ایک جگہ کا نام ہے اور مدینہ طیبہ سے پانچ دنوں کے فاصلے پر ہے) عطا فرمائیں اور یہ الفرع (٭٭) (اور الفرع : یہ السقیا سے بائیں جانب ربذہ کے نواح میں ایک گاؤں ہے اس کے اور مدینہ طیبہ کے درمیان مکہ کی راہ پر آٹھ برید کا فاصلہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چار راتوں کی مسافت ہے) کی طرف میں واقع ہیں اور ان معاون سے آج تک صرف زکوۃ وصول کی جاتی ہے۔ یہ حدیث منقطع الاسناد ہے۔ محدثین اس قسم کی حدیث سے استدلال نہیں کرتے لیکن آپ نے عمل کیا ہے اور ان کے نزدیک مدینہ منورہ میں اس کے مطابق عمل کیا جاتا ہے اور اسے دراودی نے ربیعہ سے، انہوں نے حارث بن بلال المزنی سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے۔ اسے بزار نے ذکر کیا ہے اور اسے کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف نے اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت بلال بن حارث ؓ کو قبیلہ کی ساری کانیں عطا فرمائیں جو وہاں کی بلند زمین میں تھیں اور پس زمین میں تھیں اور قدس (مشہور پہاڑ) سے وہ زمین عطا فرمائی جو کاشت کی صلاحیت رکھتی تھی اور آپ نے انہیں کسی مسلمان کا حق نہیں دیا۔ اسے بزار بھی ذکر کیا ہے اور بہت سے لوگوں نے اس کے ضعف پر اجماع کیا ہے، یہ حکم ان چیزوں کا ہے جنہیں زمین نکالے اور عنقریب سورة النحل میں ان چیزوں کا حکم آئے گا جو سمندر سے نکلیں کیونکہ وہ بھی زمین کا قسیم ہے اور سورة الانبیائ : (1) (ابو داؤد، فی اقطاء الارضین، حدیث نمبر 2661، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں حضور نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کا معنی بیان ہوگا : العجماء جرحھا جبار “۔ ہر ایک کا بیان اپنے محل میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ : مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “۔ تیمموا کا معنی تقصدوا ہے، یعنی تم قصد و ارادہ نہ کرو عنقریب سورة النساء میں عرب اشعار سے اس پر شواہد ذکر ہوں گے کہ التیمم بمعنی القصد ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ آیت اس پر دلیل ہے کہ کمائی ہوئی شے طیب اور عمدہ بھی ہوتی ہے اور گھٹیا اور ردی بھی، امام نسائی نے حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے اس آیت کے بارے روایت کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “۔ فرمایا : وہ جعرور اور لون حبیق (یہ دونوں کھجور کی انتہائی ردی اور گھٹیا اقسام میں سے ہیں) پس رسول اللہ ﷺ نے ان دنوں کو صدقہ میں لینے سے منع فرمایا ہے اور دارقطنی نے حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کے بارے حکم ارشاد فرمایا، تو ایک آدمی ایسی کچی کھجوروں کا خوشہ لے کر آیا (جن کے پکنے اور مکمل ہونے کی صلاحیت ابھی ظاہر نہ ہوئی تھی) سفیان نے کہا : یعنی بالکل ناکارہ اور ردی کھجوریں۔۔۔۔ تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا : یہ کون لے کر آیا ہے ؟ “ اور کوئی کوئی شے بھی نہیں لاتا ہے مگر وہ اس کی طرف منسوب ہوتی ہے جو اسے لے کر آتا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “۔ راوی نے بیان کیا اور حضور نبی مکرم ﷺ نے جعرور اور لون الجیق سے منع فرمایا کہ ان دونوں (قسموں) کو صدقہ میں لیا جائے زہری نے کہا ہے : یہ دونوں قسمیں مدینہ کی کھجوروں میں سے ہیں (2) (ابو داؤد باب مالایجوز من الثمرۃ فی الصدقۃ، حدیث نمبر 1369، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اسے ترمذی نے حضرت براء ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے (3) (سنن ترمذی، باب ومن سورة البقرہ، حدیث نمبر 2913 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اسے صحیح قرار دیا ہے، عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔ علامہ طبری اور نحاس نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ کی قرات میں ” ولا تامموا “ ہے اور یہ دونوں لغتیں ہیں اور حضرت مسلم بن جندب نے ولا تیمموا “ تاء کے ضمہ اور میم کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور ابن کثیر نے تیمموا “ یاء کو مشدد پڑھا ہے اور اس لفظ میں کئی لغات ہیں ان میں سے اممت الشیء پہلی میم مخفف اور اممتہ پہلی میم مشدد، اور یممتہ اور تیممتہ ہیں اور ابو عمرو نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے ولا تؤمموا، تاء مضمومہ کے بعد ہمزہ سے پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ (آیت) ” منہ تنفقون “۔ علامہ جرجانی نے کتاب ” نظم القرآن “ میں کہا ہے کہ لوگوں میں سے ایک فریق نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد ” الخبیث “ پر کلام مکمل ہے، پھر خبیث کے وصف میں دوسری خبر کی ابتدا کی اور فرمایا : (آیت) ” منہ تنفقون “۔ اور تم ردی چیز نہ لو بجز اس کے کہ تم نرمی کا برتاؤ کرو، گویا یہ معنی لوگوں کے لئے عتاب اور ڈانٹ ہے۔ اور منہ کی ضمیر الخبیث کی طرف راجع ہے۔ اور ” الخبیث “ سے مراد انتہائی گھٹیا اور ردی ہے، علامہ جرجانی نے کہا ہے : دوسرے فریق نے کہا ہے کہ کلام قول باری تعالیٰ ” منہ “ تک متصل ہے اور ” منہ “ میں ضمیر ” ما کسبتم “ کی طرف راجع ہے۔ اور ” تنفقون “ گو حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں واقع ہے اور یہ تیرے اس قول کی طرح ہے : انا اخرج اجاھد فی سبیل للہ “۔ مسئلہ نمبر : (9) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “۔ یعنی تم اپنے قرضوں اور اپنے حقوق میں سے لوگوں سے نہیں لیتے مگر یہ کہ تم اس بارے میں نرمی کا برتاؤ کرو اور اپنے حقوق میں سے کچھ چھوڑ دو ، حالانکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو اور اس پر راضی نہیں ہوتے، یعنی تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ برتاؤ نہ کرو جو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو، اس کا یہ معنی حضرت براء بن عازب، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ضحاک ؓ نے بیان کیا ہے۔ اور حضرت حسن (رح) نے کہا ہے : آیت کا معنی ہے اور تم اسے (ردی کو) نہ لو اگرچہ تم اسے بازار میں پاؤ کہ اسے بیچا رہا ہے مگر یہ کہ وہ تمہارے لئے اس کے ثمن کرم کر دے، اور اسی طرح حضرت علی ؓ سے بھی مروی ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ دونوں قول آیت کے زکوۃ فرضیہ کے بارے میں ہونے کا شبہ دلاتے ہیں۔ ابن عربی نے کہا ہے : اگر یہ آیت فرض زکوۃ کے بارے میں ہوتی تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا (آیت) ” ولستم باخذیہ “ کیونکہ ردی اور عیب ناک چیز فرض میں کسی بھی حال میں لینا جائز نہیں ہوتا نہ چشم پوشی کے طریقہ پر اور نہ اس کے سوا کسی طریقہ پر، البتہ چشم پوشی کے بغیر بھی نفل میں لی جاسکتی ہے۔ حضرت براء بن عازب ؓ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس کا معنی ہے : (آیت) ” ولستم باخذیہ “ اگر تمہیں ہدیہ دیا جائے (تو تم ردی شے نہ لو) (آیت) ” الا ان تغمضوا فیہ “ مگر یہ کہ تم ہدیہ دینے والے سے حیاء کرو اور اس سے وہ شے قبول کرلو جس کی نہ تمہیں حاجت ہے اور نہ وہ شے فی نفسہ کوئی قدرومنزلت رکھتی ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ آیت کے نفلی صدقہ کے بارے میں ہونے کا شبہ دلاتا ہے اور ابن زید نے کہا ہے : اور تم حرام چیز نہ لو مگر یہ کہ تم اس کے مکروہ ہونے کے بارے میں اغماض برتو۔ مسئلہ نمبر : (10) قولہ تعالیٰ (آیت) ” الا ان تغمضوا فیہ “ جمہور کی قرات اسی طرح ہے۔ یہ اغمض الرجل فی امر کذا سے ہے، جب آدمی کسی کام میں تساہل اور نرمی برتے اور اپنے بعض حق کے ساتھ راضی ہوجائے اور بعض سے درگزر کرلے اور اسی معنی میں طرماح کا قول ہے : لم یفتنا بالوتر قوم وللذل اناس یرضون بالاغماض : کسی قوم نے وتر کے بارے میں ہمیں فتوی نہیں دیا اور سہولت کے لئے لوگ بعض حق کے ساتھ راضی ہوجاتے ہیں۔ اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تغمیض العین سے لیا گیا ہو کیونکہ جو مکروہ اور ناپسندیدہ شے پر صبر کا ارادہ رکھتا ہے وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا : الی کم وکم اشیاء منک تریینی اغمض عنھا لست عنھا بذی عمی کتنے تک اور تیری طرف سے کتنی اشیاء مجھے شک میں ڈالتی ہیں میں ان سے آنکھیں بند کرلیتا ہوں میں ان سے اندھا نہیں ہوں۔ اور یہ مکروہ کے وقت اغضاء (آنکھ بند کرنا) کی طرح ہے، اور نقاش نے یہی معنی اس آیت میں ذکر کیا ہے اور اس کی طرف مکی نے اشارہ کیا ہے۔ اور یا یہ عربوں کے اس قول سے ہے : اغمض الرجل اذا اتی غامضا من الامر۔ (یعنی جب کوئی کسی کام میں نرمی برتے تو کہا جاتا ہے۔ اغمض الرجل۔ (آدمی نے نرمی کا سلوک کیا) جیسا کہ تو کہتا ہے : اعمن یعنی وہ عمان آیا، اور اغرق یعنی وہ عراق آیا اور اتجدو اغور، یعنی وہ نجد اور غور آیا اور غور سے مراد تہامہ ہے یعنی وہ اسے لینے کے لئے کوئی تاویل تلاش کرتا ہے۔ زہری نے اسے تاء کے فتحہ اور میم کے کسرہ کے ساتھ مخفف پڑھا ہے اور ان ہی سے تغمضوا بھی مروی ہے۔ یعنی تاء کے ضمہ، غین کے فتحہ اور میم کے کسرہ اور اس کی شد کے ساتھ، پس پہلی قرات اس معنی کی بناء پر ہے تم اپنے بائع سے اس کا سودا ختم کر دو کہ وہ تمہارا بھاؤ کم کر دے۔ اور دوسری قرات اور یہی حضرت قتادہ کی قرات ہے جو کہ نحاس نے ذکر کی ہے۔ یہ معنی ہے کہ تم نقصان اور کمی کے ساتھ لے لو، ابو عمر والدانی نے کہا ہے کہ زہری کی دونوں قراتوں کا معنی ہے : ” یہاں تک کہ تم نقصان اور کمی کے ساتھ لے لو “ اور مکی نے حسن سے بیان کیا ہے : الا ان تغمضوا “ یعنی میم مشدد اور مفتوح ہے اور قتادہ نے ” تغمضوا “ بھی قرات کی ہے یعنی تا کے ضمہ، غین کے سکون اور میم مخفف مفتوح کے ساتھ، ابو عمر والدانی نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تمہارے لئے اس کی قیمت کم کردی جائے۔ اسے نحاس نے حضرت قتادہ سے بیان کیا ہے اور ابن جنی نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تم اس حال میں پائے جاؤ کہ تم نے تاویل کے سبب یا نرمی کے سبب معاملے میں چشم پوشی کرلی ہے اور تم نے ادنی چیز اپنے لئے لینے کا ارادہ کرلیا ہے، اور یہ تیرے اس قول کی طرح ہے : احمدت الرجل وجدتہ محمودا “۔ (میں نے آدمی کی تعریف کی اور میں نے اسے محمود پایا) اسی طرح کی کئی مثالیں ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : جمہور کی قراءت تجاوز (درگزر کرنے) اور آنکھیں بند کرنے کے معنی دیتی ہے۔ کیونکہ اغمض غمض کے قائم مقام ہے، اور اسی بنا پر معنی یہ ہے یہاں تک کہ تم اسے لینے میں غور وفکر اور تاویل سے آنکھیں بند کرتے ہوئے آؤ یا تو اس کے حرام ہونے کی وجہ سے ابن زید کے قول کے مطابق اور یا پھر اس لئے کہ ایک ہد یہ ہے یا اسے قرض میں لیا گیا ہے۔ دوسروں کے قول کے مطابق۔ اور مہدوی نے کہا ہے جنہوں نے تغمضوا “ پڑھا ہے تو معنی یہ ہے تم اسے لینے سے اپنی بصیرت کی نگائیں بند رکھتے ہو۔ جوہری نے کہا ہے : غمضت عن فلان “ کا معنی ہے جب بیع یا شرا کے معاملہ میں تو اس پر نرمی کرے، اور چشم پوشی کرے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “ کہا جاتا ہے : اضمض لی فیما بعتنی (اور چشم پوشی اور، نرمی کی گئی اس میں جو تو نے مجھے بچی) گویا تو اس سے زیادتی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے ردی ہونے کے سبب اور اس کے ثمن میں سے کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور ان محل نصب میں ہے اور تقدیر کلام ہے ” الا بان “۔ مسئلہ نمبر : (11) قولی تعالیٰ (آیت) ” واعلموا ان اللہ غنی حمید “۔ اللہ تعالیٰ نے صف غنی پر متنبہ فرمایا کہ تمہارے صدقات کی اسے کوئی حاجت نہیں۔ پس جو قرب حاصل کرنا چاہے اور ثواب کا طالب ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صدقہ ادا کرے ایسی شے کے ساتھ جو قدر ومنزلت والی ہو اور مہتم بالشان ہو کیونکہ وہ اسے اپنے لئے آگے بھیجتا ہے۔ اور (آیت) ” حمید ‘ کا معنی ہے : محمود فی کل حال ہر حال میں تعریف کیا ہوا، ہم نے ان دونوں اسموں کے معنی الکتاب الاسنی میں ذکر کردیئے ہیں۔ والحمد للہ اور زجاج نے قول باری تعالیٰ (آیت) ” واعلموا ان اللہ غنی حمید “۔ کے تحت کہا ہے : اس نے تمہیں حکم نہیں دیا ہے کہ تم حاجت اور تنگی کے باوجود صدقہ کرو البتہ اس نے تمہارے اخیار اور نیک لوگوں کا امتحان لیا ہے اور وہ ان تمام نعمتوں پر تعریف کیا گیا ہے۔
Top