Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 267
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والو) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاکیزہ مَا : جو كَسَبْتُمْ : تم کماؤ وَمِمَّآ : اور سے۔ جو اَخْرَجْنَا : ہم نے نکالا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین وَلَا : اور نہ تَيَمَّمُوا : ارادہ کرو الْخَبِيْثَ : گندی چیز مِنْهُ : سے۔ جو تُنْفِقُوْنَ : تم خرچ کرتے ہو وَلَسْتُمْ : جبکہ تم نہیں ہو بِاٰخِذِيْهِ : اس کو لینے والے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ تُغْمِضُوْا : تم چشم پوشی کرو فِيْهِ : اس میں وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَمِيْدٌ : خوبیوں والا
اے ایمان والو ! اپنی کمائی سے عمدہ چیزیں خرچ کیا کرو اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کیا ہے۔ اور ناکارہ (خبیث) چیز کا قصد نہ کرو کہ تم (نیکی میں تو) خرچ کرو اور خود اس کو لینا نہ چاہو سوائے اس کے کہ اس کے بارے میں چشم پوشی کر جاؤ اور خوب جان لو کہ اللہ کسی چیز کے محتاج نہیں ، تعریف کے لائق ہیں
آیات 267- 273 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا انفقوا ھن طیبت……………واعلموا ان اللہ غنی حمید۔ اے ایمان والو ! اپنی کمائی سے صاف ستھری چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی کمائی سے خرچ کرو ، ظاہر ہے کہ کمائی تو حلال ہی ہوگی ورنہ ناجائز ذرائع سے دولت پیدا کرنے کو کسب نہیں کہا جاتا۔ بلکہ ایسے لوگ خود اپنے ناجائز ذرائع کو لوگوں کی نظروں سے بچا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، پھر اس میں سے جو راہ خدا میں دے وہ کھری اور اچھی چیز ہونی چاہیے اگر غلہ یا پھل یا کوئی اور جنس اللہ کی راہ میں دے ، اور اگر حرام مال سے دے گا توہ عنداللہ مقبول ہی نہیں ہوگا۔ کہ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ برے کو بھلے سے مٹا سکتا ہے ناپاک سے ناپاکی دور نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کسی کے پاس مال ہی ایسا ہو سب ناقص قسم کا ہے تو اسی میں سے دے گا یا کچھ اچھا اور کسی قدر ناقص ہے تو دونوں میں سے بھی دے سکتا ہے اس میں صدقات مراد لئے جاسکتے ہیں ، نافلہ ہو یا واجبہ۔ ومما اخرجنا لکم من الارض سے مراد زمین کی زکوٰۃ جسے اصطلاح شریعت میں عشر کہا گیا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک زمین کی ہر قلیل وکثیر مقدار پر عشرواجب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم اس طرح ہے کہ بارش سے سیراب ہونے والی فضل پر دسواں حصہ اور جس کی سنچائی آبپاشی سے کی گئی ہو اس کا بیسواں حصہ لازم ہے ایسے ہی سورة انعام کی آیت واتوحقہ یوم حصادہ ۔ وجوب عشر میں بالکل صریح ہے حکومت اسلامی جو ٹیکس زمین پر بناتی ہے اس کے لئے دو اصطلاحی لفظ ہیں۔ عشر اور خراج۔ ان میں فرق یہ ہے کہ عشر محض ٹیکس نہیں اس کی اصلی حیثیت عبادت مالی ہے اور مسلمان چونکہ عبادت کا اہل ہے اور پابند ہے اس لئے زمین کی آمدن سے عشر ادا کرتا ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں ہے لیکن ریاست میں رہتے ہوئے ریاست کو جو ٹیکس زمین کی آمدن پر ادا کرتا ہے اس کا نام خراج ہے اور یہ محض ٹیکس ہوتا ہے عشر بھی زکوٰۃ کی مانند ہے ۔ فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ خواہ مال پر کوئی نفع نہ ہو تو بھی ساقط نہیں ہوتی یہ مسلمانوں سے ہی وصول کی جاتی ہے اور ان کا خرچ بھی غیر مسلم پر جائز نہیں۔ تفصیل کے لئے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع (رح) کی کتاب ” نظام الاراضی “ کی طرف رجوع کریں۔ فرمایا کہ خراب مال کو اللہ کی راہ میں دینے کا ارادہ نہ کرو۔ ایسا کہ اگر تمہیں اس طرح کا مال دیا جائے تو لینا پسند نہ کرو ، سوائے اس کے تمہیں مال وصول کرنا ہو تو سارا جاتا دیکھ کر چشم پوشی کر جائو کہ چلو کچھ تو وصول ہورہا ہے مگر اللہ تو محتاج نہیں کہ ایسی ویسی اشیاء قبول فرمائے۔ اچھی طرح جان لو ! کہ اللہ غنی اور بہت خوبیوں والا ہے یعنی اس کے تمام افعال مستوجب حمد ہیں۔ الشیطان یعدکم الفقر…………واللہ واسع علیم۔ ایسا نہ سوچو کہ صدقات ادا کرنے میں مفلس ہوجائوں گا۔ یہ وسواس شیطانی ہیں۔ ان میں پڑ کر خیرات سے ہاتھ نہ کھینچنا چاہیے بلکہ یہ تو بےحیائی کا مشورہ دیتا ہے اگر تم اس کے کہنے میں آگئے تو پھر صرف خیرات سے روکنے پر اکتفا کرے گا بلکہ عیاشی میں مبتلا کردے گا۔ اور یوں سمجھ آتی ہے کہ آجکل کے نوجوانوں کے بگڑنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جو مال ان تک پہنچتا ہے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی ہوتی نتیجتاً وہ بےحیائی اور فحاشی پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو حلال کماتے ہیں مگر اس پر نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں نہ خیرات۔ جو جمع ہی حرام اور ناجائز ذرائع سے کرتے ہیں ، ان کا پھر کیا پوچھنا۔ اللہ کریم تو تمہیں خیرات پر مغفرت اور بخشش کی نوید سناتے ہیں کہ تمہارا خیرات کرنا تمہارے گناہوں کی بخشش کا سبب بن جائے گا اور وہ اپنے فضل کا وعدہ فرماتا ہے جس سے اجر آخرت میں زیادتی بھی مراد ہوسکتی ہے اور خیرات کے بدلے میں رزق کی زیادتی بھی۔ اس طرح اللہ کی راہ میں خرچ کرکے تم کئی گنا منافع دونوں عالم میں کماتے ہو اور اللہ کی خوشنودی اس کے سوا ہے اور اللہ تو اپنی کرم فرمائیوں کو وسیع کرنے والا ہے اور ہر بات کو جانتا ہے کہ کس نے کس لئے دیا ؟ اور کب دیا ؟ سب باتوں سے آگاہ ہے۔ یوتی الحکمۃ ھن یسائ……………اولوالباب۔ حکمت کے معنی کسی قول یا عمل کو اس کے تمام اوصاف کے ساتھ مکمل کرنا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا استعمال بار بار ہوا ہے اور مختلف تفسیریں کی گئی ہیں مگر سب کا مفہوم یہی ہے۔ صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ حکمت سے مراد مفید ، صحیح علم اور اس کے مطابق عمل جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہو ظاہراً یہ علم انبیاء (علیہم السلام) کا ہے تو سارا عالم حصول حکمت میں انبیاء سے رجوع کرے گا اور اس سے مراد دین کی سمجھ لیا جائے۔ ارشاد ہے کہ احکام دین کو سمجھنا اور ان کے فضائل وفوائد سے آگاہ ہونا ہی اصل عبادت ہے جو دونوں جہانوں کی بھلائی کا سبب ہے اور اللہ جسے چاہے عطا کردے اور جسے اللہ نے حکمت عطا فرمائی اسے بہت بڑی بھلائی خیر کثیر عطا فرمائی۔ اس سے سمجھ آتی ہے کہ اللہ جس پر انعام فرمائے اسے علوم انبیاء (علیہ السلام) کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور تب ہی اس کے دل میں دین کی عظمت جاگزیں ہوتی ہے۔ ایک حدیث پاک کا مضمون ہے کہ دنیا کا مال تو اللہ اپنے دشمن کو بھی دیتا ہے اور دوست کو بھی ۔ مگر دین صرف اپنے مقبول بندوں کو عطا فرماتا ہے اور نصیحت پذیر تو وہی ہوتے ہیں جو دانشمند ہوں یعنی خدا داد علوم پر وہی لوگ غور کرتے ہیں جن کا فہم شیطانی خیالات سے پاک ہو اور ایسا تفکر تب ہی ممکن ہے جس نفس امارہ مغلوب ہوجائے۔ نفس امارہ کو مغلوب کرنے کا نام تصوف ہے : اور اسی کا نام تصوف ہے اور ساری محنت اس شے کے حصول کے لئے کی جاتی ہے اس لئے اہل اللہ سے اخذ فیض کرنا ضروری ہے اور ایسے مجاہدات جن سے نفس مغلوب رہے۔ وما انفقتم ھن نفقۃ اونذرتم ھن ندر………………وما لظلمین من انصار۔ اور جس طرح کا خرچ بھی تم کرتے ہو ، اطاعت میں یا معصیت میں ، جائز ہو یا ناروا ، مخلصانہ ہو یا ریاکارانہ ، اچھا اور عمدہ ہو یا ناقص ، یا کوئی نذر جو تم مانتے ہو۔ عبادت بدنی ہو مالی میں سے ہو درست اور صحیح ہو یا ناجائز کہ نذر کے لئے ضروری ہے کہ از قسم فرض ہو اور فرض نہ ہو اور صرف اللہ کے لئے مانی جائے۔ جیسے نماز فرض ہے مگر یہ نذر نہ ہوگی کہ کوئی فجر یا کسی اور وقت کے فرائض کی نذر مانے بلکہ کئی رکعت نفل مانے گا۔ ایسے نفلی صدقات یا نفلی روزے اور حج۔ پھر اگر غلط نذرمانی اور پھر ایفا کیا یا نہ کیا۔ سب باتیں اللہ پر عیاں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے سب کا اجر عطا فرمائے گا اور جو حدود و شرائط کی پرواہ نہیں کرتے غرض جو بھی بےقاعدگی اور نافرمانی کرتے ہیں ان کا کوئی مددگار نہیں کہ انہیں اللہ کی گرفت سے بچا سکے۔ ان تبدو الصدقات فنعما ھی……………وانتم لا تظلمون۔ اگر تم علی الاعلان خیرات کرو تو بہت اچھی بات ہے بڑی اچھی مثال ہے مگر مشکل کام ہے اور کچھ نہ ہو تو کوئی نہ کوئی شمہ ریاء کا اس میں داخل ہو ہی جاتا ہے۔ بعض اوقات تکبر پیدا ہوجاتا ہے۔ اس میں اس طرح کی بہت سی مشکلات ہیں۔ آسان راستہ یہی ہے کہ صدقہ چپکے سے اور پوشیدہ طور پر کرو کہ لینے والے کا بھرم بھی رہ جائے اور تمہاری ذات بھی مشکلات میں نہ پھنسے پھر دنیوی فائدہ بھی ہے کہ مال کی مقدار عام آدمی پر ظاہر نہ ہو اس میں اگر کوئی ظاہری فائدہ نظر نہ آئے تو کیا حرج ہے۔ ہم اسے تمہارے گناہوں کی بخشش کا سبب بنادیں گے۔ تمہارے گناہ معاف ہوں گے درجات بڑھیں گے۔ یہ کفارہ سیات پوشیدہ صدقہ کے ساتھ مختص نہیں ہے ظاہراً صدقہ دیا جائے تو بھی حاصل ہوتا ہے مگر یہاں ارشاد ہے کہ مقصد اصلی تو یہی ہے کہ گناہ معاف ہوں ، اللہ کا قرب حاصل ہو ، سو ہوگا۔ کیونکہ اللہ تمہارے ہر عمل سے باخبر ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ چھپا کر خیرات کرنا رب کے غضب کو بجھا دیتا ہے اور عزیزوں سے اچھا سلوک کرنا عمر بڑھا دیتا ہے اوکما قال۔ مفسرین کرام نے اس ضمن میں بہت احادیث جمع فرمائی ہیں۔ صدقہ نافلہ مومن وکافر سب کو دیا جاسکتا ہے اب اگر کوئی عزیز کافر ہے تو اس خیال میں نہ ہو کہ مسلمان ہوگا تو صدقہ دیں گے ورنہ نہیں کہ ہدایت اللہ کی عطا ہے جو شخص اپنا رخ اللہ کی طرف پھیرے گا ، ہدایت پالے گا۔ آپ ﷺ کا ذمہ نہیں ہے لیکن مربوب تو سب اسی کے ہیں روزی تو سب کو وہی دیتا ہے۔ سو صدقات نافلہ کو کافروں سے بھی نہ روکو کہ تم تو اپنی بھلائی کی خاطر خرچ کرتے ہو یعنی اس کا اجر تو تم ہی لو گے ، اب فقیر مومن ہے یا کافر ، کھاتا اللہ کے نام کا ہے اور سجدہ کسی اور کا کرتا ہے اس سے تمہیں کوئی سروکار نہیں ، یہ اللہ کا اور اس کا معاملہ ہے نہ یہ تمہارا فقیر پہ کوئی احسان ہے کہ تم اس کی خاطر تو صدقہ نہیں کر رہے اپنی بہتری اور دونوں عالم کی بھلائی کے خواہاں ہو اور اللہ کی رضا کے طالب ہو تم اللہ کے جمال کے متلاشی ہو ، ، تمہاری تمنا بہت بلند ہے اور تمہاری آرزو لائق صدآفرین۔ پھر اتنی بلندی کے لئے جو سیڑھی بنائے جائے اس میں کیا ناقص مال لگانا چاہیے یا اسے کمزور سہاروں پر قائم کرنا چاہیے ؟ ہرگز نہیں ! مال بھی اچھا دو اور صرف اللہ پر اعتماد رکھو ، کہ جو شے بھی تم نیکی پہ خرچ کرو گے اس کا بدلہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا بلکہ کئی گناہ بڑھا کردیا جائے گا اور قطعاً تمہاری حق تلفی نہ کی جائے گی۔ یاد رہے صدقہ نافلہ غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے۔ فرض صدقات مثلاً زکوٰۃ عشروغیرہ جو وصول صرف مسلمانوں سے کئے جائیں گے وہ صرف مسلمانوں کو دیئے جائیں گے غیر مسلم کو دینا جائز بھی نہیں اور فرض بھی ادا نہ ہوگا۔ یہ فرض صدقات وہ ہیں جو اللہ نے مسلمانوں پر فرض کئے عہد نبوی ﷺ میں بھی وصول کئے گئے اور حضور ﷺ کے سفر آخرت کی خبر پاکر جن لوگوں نے زکوٰۃ کا انکار کیا ان کے ساتھ جہاد کیا گیا بالکل اسی طرح جیسے کفار کے ساتھ یا جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ اور ان منکرین کے ساتھ تین شبانہ روز کی جنگ کے سالار خود خلیفہ رسول ﷺ سیدناابوبکر صدیق ؓ تھے۔ اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، الکریم بنفس نفیس مجاہدین میں۔ پھر عہد فاروقی ، عثمانی اور علوی ؓ میں بدستور اسی پر حمل رہا۔ معاذ اللہ ! جو زکوٰۃ وعشر حضرت علی ؓ خود ادا کرتے رہے بحیثیت امیر سب مسلمانوں سے وصول کرکے صحیح مصرف پہ خرچ کرتے رہے ، اسے ساڑھے تین سو سال بعد سے شروع ہو کر بننے والے فقہ جعفریہ نے کیسے باطل کردیا ؟ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے ! للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ…………فان اللہ بہ علیم۔ خیرات ان فقیروں کے لئے ہے جو دینی امور کی وجہ سے یعنی حصول علم یا جہاد کی مصروفیت کی وجہ سے کہیں آجا نہیں سکتے کہ اپنی روزی کا اہتمام کریں اور ایسے باہمت لوگ ہیں کہ قناعت کی وجہ سے سوال تک نہیں کرتے جس کے باعث ناسمجھ لوگ انہیں مالدار سمجھتے ہیں مگر آپ ﷺ تو انہیں ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہیں۔ ان کے لباسوں کو بوسیدگی اور ان کے چہروں کی زردی ان کے حال کی غماض ہے ، اگرچہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔ یعنی جو لوگ گداگری کو خلاف شان سمجھتے ہیں اور دینی امور میں منہمک ہیں کہ دنیاوی کاموں کے لئے وقت نہیں نکال سکتے۔ فاقہ زدہ چہرے اور بوسیدہ کپڑے ان کے پائے اثبات کو نہیں ہلا سکتے۔ ان پر صدقات کو صرف کرنا سب سے افضل ترین ہے اور جو بھی مناسب چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس سے آگاہ ہے خوب علم رکھتا ہے۔
Top