Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 256
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ : نہیں زبردستی فِي : میں الدِّيْنِ : دین قَدْ تَّبَيَّنَ : بیشک جدا ہوگئی الرُّشْدُ : ہدایت مِنَ : سے الْغَيِّ : گمراہی فَمَنْ : پس جو يَّكْفُرْ : نہ مانے بِالطَّاغُوْتِ : گمراہ کرنے والے کو وَيُؤْمِنْ : اور ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَقَدِ : پس تحقیق اسْتَمْسَكَ : اس نے تھام لیا بِالْعُرْوَةِ : حلقہ کو الْوُثْقٰى : مضبوطی لَا انْفِصَامَ : لوٹنا نہیں لَهَا : اس کو وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں تحقیق ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے پس جو شخص طاغوت کے ساتھ کفر کریگا اور اللہ پر ایمان لائے گا ، پس اس نے مضبوط کڑا پکڑ لیا ہے جس کے لیے ٹوٹنا نہیں اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا ہے اور جانتا ہے
ربط آیات گزشتہ درس میں آیت الکرسی کا ذکر تھا اور اس کی فضلیت بیان ہوئی تھی ، یہ آیت فضلیت کے اعتبار سے قرآن حکیم میں سب سے بڑی آیت ہے ، کیونکہ اس کا تعلق توحید باری تعالیٰ سے ہے۔ حضور ﷺ کا وعدہ ہے کہ جو شخص خلوص نیت کے ساتھ آیت الکرسی کی تلاوت کریگا ، اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں مقام عطا فرمائیں گے۔ آج کے درس میں اسی موضوع کو آگے چلایا گیا ہے کہ دین اسلام کی قبولیت اور پھر اس میں خلوص نیت انسان کا اپنا فعل ہے ۔ جس قسم کا عقیدہ اور عمل ہوگا اس کے مطابق جزا و سزا ہوگی ، دین میں زبردستی نہیں ہے ، بلکہ یہ انسان کا اپنا انتخاب ہے۔ دین میں جبر نہیں فرمایا لا اکرہ فی الدین دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہے کسی کو زبردستی دین میں داخل کر نیکی قطعا ً اجازت نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قد تبین الرشد من الغنی ہدایت گمراہی سے بالکل واضح ہوچکی ہے۔ اب کوئی اشتباہ باقی نہیں رہا ، نیکی اور بدی کا امتیاز کھل کر سامنے آ گیا ہے لہٰذا جو شخص اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہونا چاہئے ، بلا جھجھک اسلام قبول کرلے اور جس کا دل نہیں مانتا وہ ایمان نہیں لاتا تو بیشک نہ لائے ، اسے زبردستی دین میں داخل نہیں کیا جائیگا۔ اس آیت کی تفسیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں ” جبر نیست برائے دین “ یعنی دین اسلام میں داخلے کے لیے کسی شخص پر جبر روا نہیں ہے ، تا ہم اسلام میں فی الجملہ جبر موجود ہے اور اس سے مراد وہ تمام احکام ہیں جن کے ذریعے کسی پر سختی کی جاتی ہے۔ مثلاً جہاد کا تعلق جبر سے ہے ، جبر کے بغیر جہاد نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح حدود کا قیام ہے کوئی مجرم خوشی سے سزا قبول نہیں کرتا ۔ اسے اس کے کردہ گناہ کی سزا جبراً دینا پڑتی ہے زانی کو سگ سار کیا جاتا ہے ، چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ شرابی کو کوڑے مارنے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ جبر کی اقسام سے ہیں اور یہ جبر بالکل جائز اور ضروری ہے ۔ البتہ کسی غیر مسلم کو طاقت کے ذریعے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے ، یہ اسلامی تعلیم کے منافی ہے ۔ اسی لیے فرمایا لا اکراہ فی الدین ۔ امیر المومنین حضرت عمرفاروق ؓ کے زمانے کا ایک واقعہ ہے۔ ایک عیسائی بڑھیا تھی ۔ امیر المومنین نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس عورت کو کہو کہ اسلام قبول کرلے جب اس کو یہ پیغام ملا تو کہنے لگی ، میری عمر کا بیشتر حصہ عیسائی مذہب پر گزرا ہے عمر کے اس آخری حصہ میں میرا دل نہیں چاہتا کہ اس مذہب کو چھوڑ دوں جس پر زندگی گزاری ہے ، مجھے یہ بڑا دشوار نظر آتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس بڑھیا کو اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ دین میں جبر نہیں ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) نے ” احکام القرآن “ اور حضرت شاہ ولی اللہ (رح) نے ازالۃ الخفاء میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ کا وثیق نامی رومی غلام تھا۔ مدت تک آپ کی خدمت کرتا رہا ، اس نے آخر عمر تک اسلام قبول نہ کیا ۔ حضرت عمر ؓ نے غلام کو بلا کر کہا کہ تو بڑا قابل آدمی ہے۔ خاص طور پر حساب کتاب میں بڑا ماہر تھا۔ فرمایا اگر اسلام میں جبر روا ہوتا تو میں تمہیں زبردستی مسلمان بنا لیتا ، مگر میں ایسا نہیں کرسکتا ۔ اگر تم مسلمان ہوجائے تو تمہاری قابلیت کی بناء پر کوئی اچھا عہدہ دیتا۔ اب میں یہی کرتا ہوں کہ تجھے آزاد کردیتا ہوں ، تم جہاں چاہو جاسکتے ہو۔ تاریخ آل عثمان کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ ترکی کے سلطان سلیم خان کے زمانہ میں یہودی اور عیسائی بڑی سازشیں کرتے تھے ۔ خلیفۃ السلمین ان سے بڑے تنگ آئے اور آخر حکم جاری کردیا کہ جو بھی عیسائی اور یہودی ملے اسے زبردستی اسلام میں داخل کرلیا جائے ۔ جب یہ خبر اس زمانے کے شیخ الاسلام کو پہنچی ، تو وہ فوراً سلطان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے تم نے کوئی ایسا حکم جاری کیا ہے۔ سلطان نے اقرار کیا کہ ہاں میں نے ایسا سرکلر جاری کیا ہے کہ تمام عیسائی اور یہودیوں کو زبردستی مسلمان بنا لیا جائے۔ ان کے عبادت خانے موقوف کردیئے جائیں ، کیونکہ انہوں نے اپنی سازشوں کی وجہ سے سلطنت میں فتنہ برپا کر رکھا ہے ، شیخ الاسلام نے فرمایا اے خلیفہ ! آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کا حکم ہے لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں ہے۔ آپ ایسا حکم جاری کرنے کے مجاز نہیں ہیں ، چناچہ خلیفہ نے فوری طور پر یہ حکم واپس لے لیا ۔ اور نگ زیب عالمگیر (رح) کے متعلق انگریزوں نے بڑا پراپیگنڈا کیا کہ ہندوئوں کو زبردستی مسلمان بناتا تھا ، مگر یہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اور نگ زیب (رح) نے پچاس 50 سال تک ہندوستان پر حکومت کی ، اگر وہ واقعی زبردستی اسلام میں داخل کرتا ، تو کم از کم دہلی کے گردو نواح میں کوئی غیر مسلم باقی نہ رہتا ۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، کہیں بھی غیر مسلموں کے ساتھ جبر کا ثبوت نہیں ملتا ۔ اسلام ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کا فروغ تبلیغ کے ذریعے ہوا ہے ، تلوار کے ذریعے نہیں ہوا ۔ برصغیر میں مسلمان آٹھ سو سال تک حکمران رہے ہیں ۔ مگر کسی کو جبراً مسلمان نہیں بنایا اسلام کے پاکیزہ اصولوں کی ترجمانی ضرور کی ہے۔ مسلمان بادشاہوں کے درباروں میں کتنے غیر مسلم روسا تھے مگر کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی ، کسی کو زبردستی دین میں داخل کیا جائے یہ تو اسلام کی تعلیم کے منافی ہے ، کیونکہ لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں ہے۔ شاون نزول حضور ﷺ کے درد و مدینہ سے پہلے مدینہ طیبہ میں دو قسم کے لوگ تھے ایک تو یہودی تھے۔ جو پڑھے لکھے اور مالدار لوگ تھے ، دوسرے عرب تھے ، جو عام طور پر ان پڑھ اور غریب لوگ تھے۔ اسلام لانے کے بعدیہی لوگ انصار مدینہ کہلائے ، چونکہ یہ لوگ پسماندہ تھے ، اس لیے یہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے انہیں یہودیوں کے پاس چھوڑ دیتے تھے ، چناچہ اسلام آنے کے بعد جب یہودی قبائل بنو نضیر اور بنو قنیقاع کو مدینہ سے نکالا گیا تو اس وقت ایک انصاری ابو حصین کے دو بیٹے یہودیوں کی تحویل میں تھے اور انہوں نے یہودی مذہب اختیار کرلیا تھا۔ جب وہ مدینہ سے جانے لگے تو انصاری نے چاہا کہ اپنے بیٹوں کو زبردستی اسلام میں داخل کرکے انہیں اپنے پاس رکھ لے ۔ اس 1 ؎ موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں ہے۔ لڑکے جو ان میں ہیں ، انہوں نے یہودیت اختیار کر رکھی ہے ، اب اگر وہ اپنی مرضی سے جا رہے ہیں تو مسلمانوں کو ان کے روکنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ابو دائود اور دیگر کتب احادیث میں عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے جسے امام ابن کثیر (رح) نے بھی نقل کیا ہے اور جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبل از اسلام انصار مدینہ کی عورتیں اولاد کی تمنا کرتیں تو یہ منت مانتیں کہ اگر اللہ انہیں لڑکا عطا کیا ۔ تو وہ اسے یہودی کردیں گی چناچہ وہ ایسا ہی کرتیں جس کی وجہ سے کئی بچے یہودیوں کی تحویل میں چلے گئے ۔ جب اسلام آیا تو اس وقت کچھ بچے بنو نضیر کی تحویل میں تھے جب انہیں مدینہ بدر کیا گیا تو وہ لڑکے بھی ان کے ساتھ جا رہے تھے۔ اس وقت انصار مدینہ کی خواہش ہوئی کہ اپنے بچے کو اسلام میں داخل کر کے یہودیوں کے ساتھ 1 ؎۔ قرطبی ص 280 ج 3 ( فیاض) جانے سے روک لیں ، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جاسکتا ، کیونکہ حق اور باطل واضح ہوچکے اب جس کا جی چاہے حق کو قبول کرلے ، اور جو چاہے باطل پر اڑا رہے۔ مضبوط کڑا حق اور باطل کو واضح کرنے کے بعد فرمایا فمن یکفر بالط اغوت جس نے طاغوت کا انکار کیا ۔ ویومن باللہ اور اللہ پر ایمان لایا فقد استمسک بالعروۃ الوثقیٰ اس نے مضبوط کڑا پکڑ لیا ۔ لا انفصام لھا جو ٹوٹ نہیں سکتا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اسلام کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لیا ۔ اس کا ہاتھ گویا ایسا مضبوط جگہ پر پہنچ گیا ۔ جہاں پر وہ محفوظ ہوگیا ، اب اس کو کسی قسم کا خطرہ باقی ہیں رہا ، اور یہ ایسا مضبوط مقام ہے جو کمزور ہو کر ٹوٹ بھی نہیں سکتا بلکہ یہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا ۔ قرآن پاک میں طاغوت کا لفظ ( آٹھ مرتبہ) استعمال ہوا یہ لفظ طغیان اور طغوا کے مادہ سے ہے جسے سر کشی پر محمول کرتے ہیں ۔ عام طور پر اس کا ترجمہ شیطان کیا جاتا ہے ، مگر شاہ عبد القادر (رح) نے اس کا ترجمہ ” ہڑدنگا “ کیا ہے۔ اعبدو اللہ واجتنبوا الطاغوت یعنی اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی پرستش چھوڑ دو ، ہڑدنگا کا لفظ اس پر بولا جاتا ہے ، جو بزور سردار بن جائے اور لوگوں سے زبردستی اطاعت کرائے۔ چونکہ شیطا کا بھی یہی کام ہے ، لہٰذا اس پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ امام جعفر صادق (رح) نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔ کل ما یشغلک عن الحق فھو طاغوتک جو کوئی چیز تمہیں حق سے مشغول کرنے والی ہے۔ وہ تمہارے لیے طاغوت ہے ، گویا حق سے ہٹانے والا شیطان ہو یا انسان ، مال ہو یا اولاد سب طاغوت کی تعریف میں آئیں گے۔ باطل راستے پر چلانے والے ماں باپ اور غلط طرف لے جانے والے پیر بھی زمرہ میں آتے ہیں ، غرضیکہ جو بھی کسی کو حق سے باز رکھنے کی کوشش کریگا ، وہ اس کے لیے طاغوت ہے۔ عروہ کا معنی کڑا اور وثقیٰ کا معی مضبوط ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک اونچے ستون پر چڑھ گئے ۔ اس کے آخری سرے پر کڑا لگا ہوا تھا ، جسے آپ نے مضبوطی سے پکڑ لیا ، صبح اٹھنے اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر خواب بیان کیا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا ، اس خواب کی تعبیر یہ ہے۔ انت تموت علی الاسلام تمہاری موت اسلام پر آئیگی۔ یعنی مرتے دم تک تم اسلام کا دامن پکڑے رکھو گے۔ لا انصام لھا کا یہی مطلب ہے کہ وہ مضبوط کڑا ہے ، جو ٹوٹ نہیں سکتا ۔ یہ کڑا ہاتھ سے چھوٹ تو سکتا ہے ، مثلاً آدمی گمراہ ہوجائے اور اسلام کا دامن چھوڑ دے ، مگر یہ حلقہ ٹوٹ نہیں سکتا اور اس کو تھامنے والا آدمی محفوظ ہوجاتا ہے۔ فرمایا واللہ سمیع علیم اللہ تعالیٰ ہر شے کو سنتا اور جانتا ہے ، وہ انسان کے ارادے تک سے واقف ہے کہ وہ کوئی کام نیک نیتی سے کر رہا ہے یا بد نیتی سے وہ ہر ایک کی پکار کو سنتا ہے۔ نور اور ظلمت آگے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ملنے والے انعام کا تذکرہ فرمایا ہے جو شخص دین اسلام کے ساتھ وابستہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوگیا ۔ اللہ ولی الذین امنوا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا دوست ، رفیق ، کار ساز ، مدد گار یا ولی ہے۔ جو ایمان لائے ۔ لفظ ولی میں یہ سب معنی پائے جاتے ہیں جیسے فرمایا انت ولینا فی الدنیا والآخرۃ دنیا اور آخرت میں تو ہی ہمارا کار ساز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھیں گے ، کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ ہماری پرستش کرو۔ تو وہ جواب دیں گے اے مولیٰ کریم انت ولینا تو ہی ہمارا کار ساز ہے۔ ہم لوگوں کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری پرستش کرو انہوں نے تو خواہ مخواہ شیطان کی بات مانی ہے ، بہر حال فرمایا ، اللہ تعالیٰ ہی مومنوں کا مدد گار ہے اور وہ ان کی مدد اس طریقہ سے کرتا ہے یخرجھم من الظلمت الی النور ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ یہاں پر نور کو مفرد استعمال کیا ہے اور ظلمات جمع ہے ، مقصد یہ ہے کہ توحید اور ایمان تو ایک ہی چیز ہے ۔ جب کہ کفر اور شرک بہت سے ہیں ۔ کوئی ستاروں کو پوج رہا ہے ، کوئی انسانوں کی پرستش کرتا ہے ۔ کوئی جنات کو حاجت روا سمجھتا ہے اور کوئی بتوں کے آگے سجدہ ریز ہے۔ یہ سب ظلمت کی قسمیں ہیں ۔ الغرض کفر شرک کی ظلمت ہے کہیں گناہ اور نفاق کی ظلمت ہے اور کوئی شک کی ظلمت میں مبتلا ہے مگر ان سب کے مقابلے ایمان اور توحید واحد نظریہ ہے ، لہٰذا یہاں پر نور صیغہ واحد کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو کس طرح اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ تو اس نے اپنے نبی بھیجے ہیں ۔ کتابیں بھیجی ہیں جن کے ذریعے اہل ایمان کے دلوں کو منور کرتا ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا ۔ افمن شرح اللہ صدرہ للسلام اللہ تعالیٰ جس کے سینے کو اسلام کے لیے کھولدیتا ہے فھو علی نور من ربہ وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہے۔ اور اس کے بر خلاف دوسرے لوگ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ۔ ان کے پاس کوئی واضح راستہ نہیں ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا ۔ ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا اگر اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ہر تاریکی میں راستہ پیدا کر دیگا ۔ تمہارے راستے کو روشن کر دیگا ، مشکلات کو حل کر دیگا اور تمہارے تمام امور میں آسانی پیدا کریگا ۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ اہل ایمان دوسرے لوگوں کے درمیان روشنی میں چلے گا۔ جس نے ایمان کا راستہ نہیں پکڑا وہ اندھیروں میں بھٹک گیا ۔ اس کے لیے تمام معاملات میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ، مگر اہل ایمان ایسی روشنی سے منور ہے ۔ جو اسے برزخ میں بھی کام آئیگی اور اس کی قبر بھی روشن ہو جائیگی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا نماز مومن کے لیے قبر میں روشنی پیدا کریگی ۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ طاغوت کی دوستی فرمایا والذین کفروا جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا اولیھم الطاغوت ان کے ساتھ طاغوت ہیں اور ان کا کام کیا ہے یخرجونھم من النورالی الظلمت وہ انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب شیاطین کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔ تو کوئی انہیں کفر کی طرف لے جاتا ہے کوئی شرک کی طرف اور کوئی بدعت کی طرف اور کوئی ترغیب دلا کر معصیت کی طرف لے جاتا ہے ، ایسے لوگ بہر حال دین و ایمان کی روشنی سے نکل کر اندھیروں کی طرف ہی جاتے ہیں ۔ یہ تو پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ دین میں جبر نہیں اب ایمان اور کفر کا تقابلی جائزہ بھی پیش کردیا گیا ہے۔ فرمایا جو لوگ روشنی سے نکل کر اندھیرے کی طرف جائیں گے۔ ان کا انجام یہ ہے کہ اولایک اصحب النار یہی لوگ اہل دوزخ ہیں ۔ ھم فیھا خلدون یہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کی آگ میں ہی جلتے رہیں گے۔ وہاں سے نکلنے کی کوئی امید نہ ہوگی کلما ارادوا ان یخرجوا منھا اعیدوافیھا جب کبھی وہاں سے نکلنا چاہیں گے واپس دھکیل دیے جائیں گے۔ ان کے مقابلے میں جو اہل ایمان ہیں ، وہ کامیاب ہوجائیں گے ، ان کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے جنت ہوگا ، وہ دائمی عیش و راحت میں ہوں گے کیونکہ انہوں نے دین اسلام کے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا اور پھر اس گرفت کو کمزور نہیں ہونے دیا ۔
Top