Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 246
اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى١ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ هَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا١ؕ قَالُوْا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآئِنَا١ؕ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الْمَلَاِ : جماعت مِنْ : سے بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل مِنْ : سے بَعْدِ : بعد مُوْسٰى : موسیٰ اِذْ : جب قَالُوْا : انہوں نے لِنَبِىٍّ لَّهُمُ : اپنے نبی سے ابْعَثْ : مقرر کردیں لَنَا : ہمارے لیے مَلِكًا : ایک بادشاہ نُّقَاتِلْ : ہم لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ قَالَ : اس نے کہا ھَلْ : کیا عَسَيْتُمْ : ہوسکتا ہے تم اِنْ : اگر كُتِبَ عَلَيْكُمُ : تم پر فرض کی جائے الْقِتَالُ : جنگ اَلَّا تُقَاتِلُوْا : کہ تم نہ لڑو قَالُوْا : وہ کہنے لگے وَمَا لَنَآ : اور ہمیں کیا اَلَّا : کہ نہ نُقَاتِلَ : ہم لڑیں گے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَقَدْ : اور البتہ اُخْرِجْنَا : ہم نکالے گئے مِنْ : سے دِيَارِنَا : اپنے گھر وَاَبْنَآئِنَا : اور اپنی آل اولاد فَلَمَّا : پھر جب كُتِبَ عَلَيْهِمُ : ان پر فرض کی گئی الْقِتَالُ : جنگ تَوَلَّوْا : وہ پھرگئے اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند مِّنْهُمْ : ان میں سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
کیا آپ نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کی طرف نہیں دیکھا ، موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ، جب انہوں نے اپنی نبی سے کہا کہ آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم اللہ کی راہ میں لڑیں۔ اس پیغمبر نے کہا کہ اگر تم پر لڑائی فرض کردی جائے تو شاید تم نہ لڑو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کیا ہے کہ ہم نہ لڑیں حالانکہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں اور اپنی اولادوں سے علیحدہ کیے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر لڑائی فرض کردی گئی تو ان لوگوں نے روگردانی کی مگر بہت تھوڑے لوگوں نے ان میں سے ۔ اور اللہ خوب جانتا ہے ظلم کرنے والوں کو
ربطہ آیات گذشتہ درس کی آیت کریمہ جہاد کے مسئلہ میں بمنزلہ تمہید تھی۔ اس میں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی ترغیب دی گئی تھی۔ اور اس سلسلہ میں ایک واقعہ کا ذکر بھی ہوا۔ جب کہ کچھ لوگ جہاد کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا۔ اور نبی زمانہ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر زندہ کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا تھا کہ لڑائی سے راہ فرار اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ موت وحیات تو قبضہ قدرت میں ہے موت اپنے وقت معینہ پر ہی آتی ہے۔ اس میں تقدیم و تاخیر کا کوئی امکان نہیں۔ پھر اسی آیت کے اگلے حصے میں لڑائی کا واضح حکم بھی دیا۔ کیونکہ جو قوم جہاد سے جی چراتی ہے۔ وہ مغلوب ہو کر قعر مذلت میں جاگرتی ہے۔ آج کے درس میں جہاد ہی کے متعلق تنظیم کا تذکرہ ہے جہاد ایک اجتماعی مسئلہ ہے اور اس کے لیے تنظیم کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ گویا یہاں سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سیاسی نظام کے اصول و قواعد بیان فرمائے ہیں اور اس کے طریق کار کی وضاحت فرمائی ہے۔ اسلام کا سیاسی نظام دنیا بھر کا سیاسی نظام اجتماعیت سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن پاک نے اسلام کے سیاسی نظام کے خدوخال سورة بقرہ کے علاوہ بعض دوسری سورتوں مثلاً سورة صف ، سورة حج ، سورة انفال اور سورة توبہ وغیرہ میں بیان کیے ہیں بلکہ ان سورتوں کے بعض مقامات تو اس نظام کے متعلق مستقل ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے اس لیے اس نظام کو چلانے کے لیے حاکم یا امیر کا تقرر لازمی ہے۔ خصوصاً جہاد جیسے اجتماعی کام کے لیے امیر لشکر کا ہونا ضروری ہے۔ جس کی سرکردگی میں قوم جہاد میں حصہ لے سکے۔ بخاری ، مسلم اور حدیث کی دیگر کتابوں میں امارات یا خلافت پر باب موجود ہیں اور اس میں مسلمانوں کی راہنمائی کیلئے مکمل تعلیم ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی ایک مثال کے ذریعے اس مسئلہ کو سمجھایا ہے۔ بنی اسرائیل کا زوال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے کافی عرصہ بعد تک بنی اسرائیل کے حالات درست رہے۔ اگرچہ اس عرصہ میں کہیں کہیں کوئی قباحت بھی پائی گئی مگر مجموعی طور پر ان کے حالات اچھے رہے۔ وہب ابن منبہ (رح) کی روایت کے مطابق بنی اسرائیل کے حالات بڑی دیر بعد بگڑنے شروع ہوئے۔ ان میں بھی شرک کی بیماری پیدا ہوگئی۔ انبیاء کی نافرمانی اور ان کا قتل قرآن پاک میں مذکور ہے۔ فسق و فجور بہت بڑھ گیا۔ جس طرح اس زمانہ میں مسلمانوں میں ہر قسم کی برائیاں پائی جاتی ہیں اس زمانہ میں بنی اسرائیل طرح طرح کی خرابیوں میں ملوث تھے۔ جب وہ نیکی کو چھوڑ کر بدی کی طرف راغب ہوگئے تو ان کا زوال شروع ہوگیا۔ اس زمانے میں عمالقہ بڑی طاقتور قوم تھی۔ انہوں نے بنی اسرائیل کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ یہ قوم بنی اسرائیل کی قریبی ہمسایہ تھی ، لہٰذا وہ آسانی سے ان پر غالب آگئے ان کے مردوں کو قتل کیا ، عورتوں کو لونڈیاں بنایا۔ اسرائیلی روایات میں آتا ہے کہ عمالقہ نے تیس ہزار نوجوان لڑکیوں کو لونڈیاں بنالیا۔ حضرت سموئیل (علیہ السلام) (SAMUEL) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نبوت کا سلسلہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں جاری رہا۔ حتیٰ کہ لاوی خاندان میں کوئی نیک آدمی باقی نہ رہا۔ تمام کے تمام مرد نالائق اور نابکار تھے۔ ایک نیک آدمی دشمنوں کے مقابلہ میں مارا گیا ، اس کی بیوی اس وقت حاملہ تھی۔ قحط الرجال کے اس زمانہ میں اس عورت نے دعا کی کہ مولا کریم ! مجھے نیک اور صالح بیٹا عطا کر۔ اتفاق کی بات کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹا عطا کردیا جسکا نام اس نے سمائل یا سموئیل رکھا یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعا کو سن لیا اور بیٹا عطا کیا گویا یہ لفظ اسماعیل کا ہم معنی ہے جب یہ لڑکا بڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسی نبی بنایا اس پر یہ وحی نازل فرمائی یہ واقعہ جو بیان ہورہا ہے یہ اسی نبی سموئیل (علیہ السلام) کے زمانے کا واقعہ ہے اس کے بعد حضرت دائود (علیہ السلام) ، مسیح (علیہ السلام) سے گیارہ بارہ یا تیرہ سو سال پہلے مبعوث ہوئے اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بیت المقدس میں جمع ہوئے۔ اور ان سے درخواست کی کہ ہمارے لیے تنظیم بنائیں ہمارا امیر مقرر کریں جس کی سرکردگی میں ہم دشمن کا مقابلہ کرکے اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لے سکیں۔ آغاز واقعہ ارشاد ہوتا ہے الم ترالی الملامن بنی اسرائیل من بعد موسیٰ کیا آپ نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کی طرف نہیں دیکھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ، اذ قالو النبی لھم ابعث لنا ملکاً جب انہوں نے اپنے بنی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک امیر بادشاہ مقرر کردیں جس کی سرکردگی میں نقاتل فی سبیل اللہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ لفظ ملک کی تشریح لفظ ملک وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں ملک ، سردار امیر ، حاکم یا خوشحال آدمی کے لیے بولاجاتا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس کچھ لوگ آئے ، اپنی مالی حالت کا تذکرہ کیا اور مدد کی درخواست کی۔ فرمایا اگر تم چاہتے ہو تو تمہارے ملک ( حاکم) کے پاس سفارش کیے دیتا ہوں ، اور اگر چاہوتو ہمارے پاس ٹھہرو حسب توفیق ہم تمہاری خدمت کریں گے یا اگر چاہوتو صبر کرو کیونکہ صبر کا نتیجہ آخرت میں بہترین ہوگا۔ چناچہ ان لوگوں نے سوال کرنے کی بجائے صبر کو پسند کیا۔ یہاں پر ملک بمعنی حاکم استعمال ہوا ہے۔ ایک اور شخص آیا کہنے لگا میرے حالات بہت خراب ہیں۔ میری کچھ مدد کریں آپ نے فرمایا۔ کیا تمہارے پاس مکان ہے۔ کہا ہے۔ پھر پوچھا تمہاری بیوی ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں بیوی بھی ہے۔ پھر آپ نے دریافت کیا۔ تیرے پاس کوئی خادم بھی ہے تو اس نے اس بار بھی اثبات میں جواب دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ تیرے پاس مکان ہے۔ تیری بیوی موجود ہے۔ خدمت کے لیے نوکر بھی ہے۔ تو پھر تو کیسا فقیر ہے۔ انت من الملوک تُو تو بادشاہوں میں سے ہے۔ مطلب یہ کہ تو خوشحال آدمی ہے جس کے پاس ضروریات کی یہ چیزیں موجود ہیں۔ وہ ملک کہلانے کا مستحق ہے۔ ملوکیت کا تصور بہرحال عربی زبان میں ملک کے مختلف معانی ہیں جن میں بادشاہ یا امیر بھی شامل ہے صاحب امر یعنی حاکم وقت بھی مراد ہے۔ مگر ملوکیت کا جو تصور اس وقت دنیا میں موجود ہے۔ اسلام ہرگز اس کی تائید نہیں کرتا۔ آج ہم سمجھتے ہیں کہ بادشاہ وہ ہے جو کسی ملک کے ہر سیاہ وسفید کا مالک ہے جو چاہے کرے ا س کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ مگر ملوکیت کا یہ تصور غیر فطری اور اسلامی تعلیم کے سراسرمنافی ہے اور ڈکٹیٹر شپ بھی اسی حاکمیت کا نام ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو شورائی نظام سیاست عطا کیا ہے۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات نازل فرمائی ہے۔ جن کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام (POLITICAL SYSTEM) کیا ہے۔ ان کا امیر کیسا ہو ، اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ اور وہ کن امور کا پابند ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی جماعت کن اوصاف کی حامل ہونی چاہئے۔ اس کے حقوق و فرائض کیا ہونگے وغیرہ ویرہ مگر افسوس کہ اموری دور کے بعد مسلمانوں میں بھی غیر اسلامی تصور ملوکیت سرایت کرگیا۔ اور یہ آج بھی مسلمانوں میں موجود ہے۔ ہمارے قریبی زمانہ میں چوہدری افضل حق (رح) بڑے فاضل آدمی ہوئے ہیں۔ زمین و مکانات کی صورت میں لاکھوں کی جائیداد کے مالک تھے۔ انگریزی دور میں اسمبلی کے ممبر تھے۔ سرکاری ملازمت میں انسپکٹر بھی رہے۔ مگر انگریزوں کی غلامی کا طوق اتار کر ان کے خلاف جہاد میں شامل ہوگئے۔ مجلس احرار سے منسلک ہوئے۔ زمین و مکان ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کردی ، حتیٰ کہ ان کا جنازہ مجلس احرار کے دفتر سے اٹھایا گیا۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن میں حضور ﷺ کی سیرت طیبہ پر بھی ایک نہایت عمدہ کتاب ہے۔ فرقہ واریت کے خلاف کتاب لکھی ، سورة فاتحہ کی تشریح قلمبند کی۔ آپ نے ملوکیت کے متعلق ایک نہایت عمدہ بات کی ہے۔ فرماتے ہیں ” افسوس کہ بنو امیہ کے بعد مسلمانوں نے اسلام کا اجتماعی اور سورائی نظام چھوڑ کر اسکی جگہ شنہشاہیت کا ٹاٹ بچھا دیا ہے۔ وہ ملوکیت اور شہنشاہیت جو قیصر و کسریٰ کا طرہ امتیاز تھا اور جس کو مٹانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کو معبوث فرمایا۔ یہی نظام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ مسلمانوں میں پھر رائج ہے “۔ کابل کے امیر امان اللہ خان مرحوم کا باپ امیر حبیب اللہ خاں مرحوم بھی اپنے وقت کا بادشاہ تھا۔ اس کے متعلق حضرت مولانا عبیداللہ سندھی (رح) لکھتے ہیں کہ آخری دور میں انکی حالت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ متعدد بیویاں ( تین صد بیویاں) رکھنے کے باوجود شریف لوگوں کی بہو بیٹیوں پر ہاتھ مارتا تھا۔ ایسا عیاش آدمی تھا۔ بڑی حیثیت کا مالک تھا مگر اس قسم کی حرکتیں شہنشاہیت کا خاصہ ہوتا ہے۔ آخر وہ قتل ہوا مگر قاتل کا پتہ بھی نہ چل سکا۔ باقی نوابوں اور بادشاہوں کا بھی یہی حال ہے۔ نواب حیدر آباد جب مرا تو اس وقت اس نے بھی تقریباً پونے دو سو عورتیں ( داشتہ) اکٹھی کر رکھی تھیں۔ جماعت کی اہمیت بہر حال بنی اسرائیل نے حضرت سموئیل سے کہا۔ کہ آپ ہمارے لیے کوئی امیر سردار یا مالک مقرر کردیں ، جس کی کمان میں ہم دشمن سے جنگ کرسکیں۔ اگرچہ اس وقت اللہ کے نبی موجود تھے۔ مگر وہ کافی بوڑھے اور کمزور ہوچکے تھے۔ اور جنگ میں بنفسِ نفیس شرکت سے معذور تھے۔ البتہ ہدایات دینے کے لیے وہ کافی تھے۔ لہٰذا انکی قوم نے عرض کیا کہ ہمارے لیے کوئی قابل امیر مقرر کردیں جو جنگ میں ہماری قیادت کرسکے۔ ظاہر ہے کہ جنگ کرنے کے لیے جماعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اسلام میں جماعت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جماعت کے بغیر سیاسی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ جیسے فرمایا اسلام الا بالجماعۃ یعنی جماعت کے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں اور لا جماعۃ الا بالامیر اور امیر کے بغیر جماعت کسی کام کی نہیں اسی لیے فرمایا کہ سفر میں اکیلا آدمی نہ جائے۔ اس کے ساتھ جماعت ہونی چاہئے ایک اور دو… شیطان ہیں۔ مگر تین کی تعداد جماعت ہے۔ اور اگر چار آدمی جمع ہوجائیں تو فرمایا خیر الجماعۃ اربعۃ بہتر جماعت چار آدمیوں کی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ جب سفر پر روانہ ہونے لگو تو اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کرلو ، اور اسکی سرکردگی میں ، اس کی ہدایت کے مطابق عمل کرو انفرادی حالت میں شیطان کے غلبے کا خدشہ ہے۔ اس لیے سفر بھی بحیثیت جماعت اختیار کرو۔ شیطان کے شر سے محفوظ رہوگے۔ نبی اور قوم میں مکالمہ الغرض ! جب قوم نے خود نبی سے درخواست کی کہ ان کے لیے ا یک امیر مقرر کردیاجائے جسکی سرکردگی میں وہ جہاد کریں۔ قال ھل عسیتم ان کتب علیکم القتال الا تقاتلوا تو نبی نے کہا۔ کہ اگر تم پر لڑائی فرض کردی جائے تو شاید تم نہ لڑ سکو ، نبی نے اس خدشہ کا اظہار کیا۔ کہ جنگ فرض ہونے کے بعد اگر تم نے اس میں لیت و لعل کیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ جائو گے۔ لہٰذا فرضیتِ جہاد سے پہلے خوب اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔ قالوا وما لنا الا نقاتل فی سبیل اللہ قوم کہنے لگی۔ کہ ہمیں کیا ہے کہ ہم لڑائی نہ کریں اللہ کے راستے میں وقد اجرجنا من دیارنا حالانکہ ہم اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے ہیں۔ دشمن نے ہماری زمین اور ہمارے مکانات پر قبضہ کرلیا ہے وابناء نا اور انہوں نے ہمیں ہماری اولادوں سے جدا کردیا ہے۔ ہماری عورتوں کو لونڈیاں اور بچوں کو غلام بنالیا ہے۔ اب نہ لڑنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ باقی نہیں رہی ۔ لہٰذا ہم ضرور اپنے دشمن سے جنگ کریں گے۔ آپ ہمارے لیے امیر لشکر مقرر کردیں۔ بنی اسرائیل کی روگردانی بنی اسرائیل کے اس قدر اصرار کے بعد فلما کتب علیھم القتال جب ان پر لڑائی فرض کردی گئی تولوا الا قلیلاً من ھم تو ان میں سے ایک قلیل تعداد کے سوا سب اپنے وعدے سے پھرگئے۔ انہوں نے جہاد سے منہ موڑ لیا۔ اس کی تفصیلات اگلے رکوع میں آرہی ہیں۔ تاہم آگے یہ بیان بھی آرہا ہے جس میں تھوڑے لوگوں نے ہمت اور جوانمردی سے دشمن کا مقابلہ کیا اور پھر وہ غالب آئے۔ آج مسلمانوں کی حالت بھی اس زمانے کے بنی اسرائیل سے کم خراب نہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حالات اس قدر بگڑے ہوئے ہیں کہ اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ وجہ ایک ہی ہے کہ جہاد سے روگردانی کر رہے ہیں۔ دوسروں کے دست نگر ہیں۔ مگر آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ذرا غور کریں فلسطینیوں کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے۔ ان کی ہزاروں لڑکیاں غیر مسلموں کے قبضہ میں چلی گئی ہیں۔ انہیں رہنے کے لیے زمین پر کوئی ٹھکانہ میسر نہیں آرہا۔ فلپائن کی عیسائی اکثریت نے مسلمان اقلیت کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ وہ مسلمانوں کو مارو یعنی ڈاکو کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ بیچارے قلیل تعداد میں ہیں۔ مگر انہیں بھی جینے کا حق نہیں دیا جارہا ہے۔ قبرص میں بھی مسلمانوں کا یہی حال ہورہا ہے۔ صرف چند سال پہلے چالیس ہزار قبرصی ترکوں کو ختم کردیا گیا۔ اب انہوں نے ایک جزیرہ میں پناہ لے رکھی ہے مگر عیسائی قوتیں انہیں وہاں بھی اکٹھا نہیں دیکھ سکتیں۔ ان کی سکیم یہ ہے کہ کسی طرح ان کو علیحدہ علیحدہ کرکے ان کی جمعیت کو ختم کردیاجائے۔ ظالم اور عادل فرمایا واللہ علیم بالظلمین اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ ظالم بزدل ہوتا ہے اور جہاد سے جی چراتا ہے۔ وہ خود بھی کوئی اچھا کام نہیں کرسکتا بلکہ برائی کی طرف رغبت رکھتا ہے۔ اس سے اچھے نظام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے لیڈر ظالم ہیں۔ اس قسم کے مولویوں ، مشائخ ، امیروں تاجروں سے اچھائی کی کیا امید ہوسکتی ہے البتہ اچھائی کی امید عادل شخص سے ہوسکتی ہے۔ وہی نظام اسلام قائم کرسکتا ہے ۔ وہی جہاد کرسکتا ہے۔ اور قوم کو ذلت سے نکال کر عزت و آبرو کی زندگی دے سکتا ہے۔ اس ایک جملہ واللہ علیم بالظلمین میں ان سب چیزوں کی طرف اشارہ ہے۔ امام بیضاوی (رح) منافقین کے متعلق لکھتے ہیں جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا راز فاش کرتے ہوئے فرمایا الا انھم ھم المفسدون اصل فسادی یہی لوگ ہیں ان کا اصلاح کا دعویٰ محض فریب ہے۔ کفر ، شرک ، معصیت ، حدود اللہ کو توڑنا ، بدعت کا اجرائ ، چوری ، ڈاکہ ، قتل ، دوسروں کے حق کا ضیائع وغیرہ سب ظلم کی مختلف شاخیں ہیں۔ ظالم سے اسی قسم کے افعال سرزد ہوں گے۔ البتہ جب عادل حاکم آئے گا۔ تو تمام برائیاں ختم ہوجائیں گی۔ حق و عدل کا دور دور ہ ہوگا کہ عدل نظام اسلام میں سب سے بڑا ستون ہے۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ ایمان چار ستونوں میں قائم ہے یعنی صبر ، عدل ، جہاد اور یقین ، لہٰذا عادل شخص کے ایمان کی گواہی دی جاتی ہے۔ اور ظالم آدمی بےایمان اور کافر ہوتا ہے۔ اسی لیے فرمایا واللہ علیم بالظلمین اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔
Top