Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 246
اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى١ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ هَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا١ؕ قَالُوْا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآئِنَا١ؕ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الْمَلَاِ : جماعت مِنْ : سے بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل مِنْ : سے بَعْدِ : بعد مُوْسٰى : موسیٰ اِذْ : جب قَالُوْا : انہوں نے لِنَبِىٍّ لَّهُمُ : اپنے نبی سے ابْعَثْ : مقرر کردیں لَنَا : ہمارے لیے مَلِكًا : ایک بادشاہ نُّقَاتِلْ : ہم لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ قَالَ : اس نے کہا ھَلْ : کیا عَسَيْتُمْ : ہوسکتا ہے تم اِنْ : اگر كُتِبَ عَلَيْكُمُ : تم پر فرض کی جائے الْقِتَالُ : جنگ اَلَّا تُقَاتِلُوْا : کہ تم نہ لڑو قَالُوْا : وہ کہنے لگے وَمَا لَنَآ : اور ہمیں کیا اَلَّا : کہ نہ نُقَاتِلَ : ہم لڑیں گے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَقَدْ : اور البتہ اُخْرِجْنَا : ہم نکالے گئے مِنْ : سے دِيَارِنَا : اپنے گھر وَاَبْنَآئِنَا : اور اپنی آل اولاد فَلَمَّا : پھر جب كُتِبَ عَلَيْهِمُ : ان پر فرض کی گئی الْقِتَالُ : جنگ تَوَلَّوْا : وہ پھرگئے اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند مِّنْهُمْ : ان میں سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
بھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا جس نے موسیٰ کے بعد اپنے پیغمبر سے کہا کہ آپ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں ؟ پیغمبر نے کہا کہ اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ لڑنے سے پہلو تہی کرو وہ کہنے لگے کہ ہم راہ خدا میں کیوں نہ لڑیں گے جب کہ ہم وطن سے (خارج) اور بال بچوں سے جدا کردیئے گئے لیکن جب ان کو جہاد کا حکم دیا گیا تو چند اشخاص کے سوا سب پھرگئے اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے
قصہ طالوت وجالوت۔ برائے ترغیب جہاد و قتال ورعایت آداب جہاد۔ قال تعالی، الم ترالی الملاء من بنی اسرائیل من بعد موسی۔۔۔۔ الی۔۔۔۔ المرسلین۔ ربط) ۔ حق جل شانہ ان آیات میں بنی اسرائیل کا دوسرا قصہ بیان فرماتے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تخمینا اور اندازا گیارہ سو سال پہلے گذرا ہے اس قصہ سے جہاد و قتال کی ترغیب اور آداب جہاد کی تعلیم اور صبر و تحمل کی تلقین مقصود ہے نیز گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کا قابض اور باسط ہونا مذکور ہوا، واللہ یقبض ویبصط والیہ ترجعون۔ آیت۔ اب ان آیات اور اس قصہ میں جو یہاں مذکور ہو اس کے قبض اور بسط کی دلیل ہے کہ وہ مالک الملک ایساقابض اور باسط ہے کہ جب چاہتا ہے کہ فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر بنا دیتا ہے بادشاہت کا دینا اور چھیننا سب اس کے ہاتھ میں ہے چناچہ فرماتے ہیں کیا اے مخاطب تو نے بنی اسرائیل کے سربرآوردہ اور اشراف لوگوں کی جماعت کو نہیں دیکھا جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک زمانہ بعد اپنے زمانہ کے ایک نبی جن کا نام شمویل تھا یہ کہا آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے جس کے ساتھ ہو کر ہم راہ خداوندی میں جہاد و قتال کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ایک مدت تک بنی اسرائیل کا حال درست رہا اور ان کا کام بنارہا رفتہ رفتہ جب وہ احکام تورات سے دور ہوگئے تب اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کیا اور عمالقہ ان پر غالب آگئے اور جالوت جو کافر بادشاہ تھا اس نے بنی اسرائیل کے بہت سے شہروں پر قبضہ کرلیا اور سینکڑوں بچوں کو پکڑ کے لے گیا اور ان کو غلام اور لونڈی بنالیا اور بنی اسرائیل سے توریت بھی چھین کرلے گئے جب ذلت اور رسوائی یہاں تک پہنچ گئی تو بنی اسرائیل کے اشراف اور سرداروں کو خیال پیدا ہوا کہ اس ذلت کا کوئی مداوی ہو اس لیے اس اپنے نبی سے جن کا نام شمویل تھا بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی حضرت شمویل نے ان کو یہ جواب دیا کہ کیا تم سے اس کی توقع ہے کہ اگر تم کو جہاد و قتال کا حکم ہوجائے تو نہ لڑو یعنی تمہاری حالت سے مجھے توقع نہیں کہ اگر تم پر جہاد و قتال فرض ہوجائے تو تم بادشاہ کے ساتھ ہو کر جہاد و قتال کرو بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں جہاد و قتال نہ کریں اور حالانکہ جہاد کے لیے اس وقت ایک خاص داعیہ اور سبب بھی موجود ہے وہ یہ کہ ہم اپنے گھروں سے نکالئے گئے اور اپنے بچوں سے جدا کردیے گئے غرض یہ کہ اس طرح لوگوں نے جہاد پر اپنی پختگی اور آمادگی کو ظاہر کیا پس جب انکے اصرار اور اظہار پختگی کے بعد ان پر جہاد و قتال فرض کیا گیا تو سوائے چند آدمیوں کے سب پھرگئے اور وہ چند آدمی وہ تھے کہ جو نہر سے پار اترے جس کا بیان عنقریب آئے گا اور اللہ تعالیٰ ظالموں اور ستم گاروں کو خوب جانتا ہے ظلم اور معصیت آدمی کو بزدل بنادیتی ہے اور ظلم وستم کی اصل جڑ نبی پر اعتراض کرنا ہے جس نے نبی کی بات کو بےچون وچرا قبول کیا اس نے اپنی جان پر رحم کیا اور جس نے نبی کی بات پر اعتراض کیا اس نے اپنی جان پر ظلم کیا چناچہ جس وقت ان کے نبی نے ان کے جواب میں کہا اول تو یہ ہے کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یعنی تمہاری عزت اور سرداری کے حصول کے لیے طالوت بادشاہ مقرر کیا ہے سنتے ہی نبی پر اعتراضات شروع کردیے اور یہ کہا کہ طالوت کو ہم پر حکومت اور سلطنت کا کیا حق حاصل ہے طالوت ایک فقیر آدمی ہے قوم کا سقاء یارنگریز ہے شاہی خاندان سے نہیں اور ہم سلطنت کے اس سے زیادہ مستحق ہیں کیونکہ ہم شاہی خاندان سے ہیں اس لیے کہ ہم یہود کی اولاد ہیں جس میں بادشاہت چلی آرہی ہے اور علاوہ ازیں طالوت کو مال دولت کی فراخی اور فروانی بھی حاصل نہیں اور ہم دولت مند اور اصحاب ثروت ہیں لہذا ایسے شخص کو کہ جس کو نہ خاندانی وجاہت حاصل ہے اور نہ مالی عزت حاصل ہو بادشاہ بنانا کسی طرح مناسب نہیں اللہ کے نبی نے ان کے اعتراض کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تمہارے یہ اعتراض سب مہمل اور لایعنی ہیں تحقیق اللہ تعالیٰ نے طالوت کو محض تمہارے نفع اور فائدہ کے لیے پسند فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ جس کو سلطنت کے لیے پسند فرمائیں گے اس سے بڑھ کر کوئی شخص سلطنت اور حکمرانی کا اہل نہیں ہوسکتا اور خصوصا جب کہ ارادہ خداوندی تمہارے نفع اور خیر کا ہے جیسا کہ لفظ لکم سے صاف ظاہر ہے کہ تو ایسی صورت میں کسی شر اور فساد کا احتمال ہی نہیں رہتا معلوم ہوا کہ طالوت کی سلطنت تمہارے لیے سراپا خیر و برکت ہوگی اور دینی اور دنیوی ہر اعتبار سے تمہارے لیے باعث عزت ہوگی۔ حق جل شانہ جب کسی قوم کی تباہی اور بربادی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس پر ظالموں اور ستم گاروں کو حاکم بناتے ہیں اور جب کسی قوم کی فلاح اور بہبودی کا ارادہ فرماتے ہیں تو پاکیزہ اور پسندیدہ حکمراں ان کے لیے مقرر فرماتے ہیں غرض یہ کہ طالوت کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری خیر اور نفع اور مصلحت کے لیے پسند فرمایا ہے اور تم اپنی مصلحتوں کو کما حقہ نہیں سمجھ سکتے اس لیے اس انتخاب خداوندی میں تم کو خدشہ اور وسوسہ نہ کرنا چاہیے اور دوسرے یہ کہ سلطنت اور بادشاہت اصل دارمدار عقل سلیم اور جسم سلیم پر ہے اور حسب ونسب اور مال دولت پر نہیں جس شخص کے قوائے عقلیہ ادراکیہ اور قوائے جسمانیہ صحیح اور تندرست ہوں وہی بادشاہ بنائے جانے کا مستحق ہے اور یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ نے طالوت کو عطا کی ہیں چناچہ اللہ نے اس کو علم وفہم اور عقل و دانش میں وسعت اور فراخی عطا کی ہے اور قوت جسمانیہ اور بدنیہ میں بھی اس کو زیادتی عطا فرمائی ہے اور بادشاہ ہونے کے لیے انہی دو صفتوں کی ضرورت ہے علم اور فہم سے ملکی انتظام پر قدرت ہوگی اور بدنی قوت اور جسامت شجاعت اور بہادری کی علامت ہے اور ظاہر ہے کہ جب فہم و فراست کے ساتھ شجاعت بھی مل جائے گی تو کارخانہ سلطنت نہایت خیر خوبی کے ساتھ چلے گا اس لیے کہ سلطنت چلانے کے لیے یہ نہات ضروری ہے کہ بادشاہ کی عظمت اور ہیبت لوگوں کے قلوب میں راسخ ہو اگر دلوں میں بادشاہ کی عظمت اور ہیبت نہ ہو تو لوگ اطاعت اور فرمانبرداری نہ کریں گے اور کارخانہ سلطنت نہ چلے گا اور حقیقی عظمت اور ہیبت کا مدار فہم و فراست اور قوت و شجاعت پر ہے اور یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ نے طالوت کو عطا کی ہیں طالوت علم اور فہم میں بھی سب سے بڑھے ہوئے تھے اور قوت جسمانیہ کا یہ حال تھا کہ طالوت تمام بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ خوبصورت اور قد آور اور بہادر تھے اور ان اللہ الصطفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طالوت ملھم من اللہ بھی تھے یعنی صاحب الہام بھی تھے اس لیے کہ قرآن کریم میں جس کسی کو شان اصطفاء سے حصہ ملا ہے وہ ضرور صاحب الہام اور صاحب کشف کرامت ہوا ہے اور فی العلم کا لفظ اپنے عموم اور اطلاق کی بناء پر علم ظاہری اور علم باطنی اور علم شریعت اور علم سلطنت اور علم سیاست سب کو شامل ہے کیونکہ ایسی سلطنت جس سے دین اور دنیا دونوں ہی درست ہوں وہ جب ہوسکتی ہے کہ جب بادشاہ اوصاف مذکورہ کا حامل ہوا اور تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ مالک الملک ہیں اس کی عطا اور بخشش کے لیے کسی اہل بیت اور قابلیت کی شرط نہیں بلکہ اہلیت قابلیت کیل یے اس کی عطا شرط ہے کہ کسی کی مجال کیا ہے جو اس خداوندذوالجلال سے سوال کرسکے وہ مالک مطلق ہیں جس کو چاہتے ہیں بادشاہی عطا کرتے ہیں اور اگر وہ شخص بادشاہت کی ذرہ برابر لیاقت بھی نہ رکھتا ہو تو اس کو سلطنت کی لیاقت اور قابلیت عطا فرمادیتے ہیں اور غیب سے اس کی مدد فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت اور کشائش والے ہیں اور اس کے خزائن کی کوئی حد اور نہایت نہیں انہیں کسی فقری کو امیر بنادینا کیا مشکل ہے اور سب کچھ جاننے والے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کون بادشاہت کے لائق ہے اور کون اس کے لائقن ہیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں طالوت کی بادشاہی کے چار سبب بیان کیے اول اس کی خدا داد صلاحیتیں جس کو اصطفاء سے تعبیر کیا دوم وسعت علم جس پر حکمرانی اور تدبیر ملکی کا دارومدار ہے سوم توانائی جسم جو شجاعت اور ہیبت اور قدرت علی المدافعت کا موجب ہے چہارم تائید غیبی جس کو واللہ یوتی ملکہ من یشاء اور ان آیتہ ملکہ۔ سے ظاہر فرمایا چونکہ بنی اسرائیل کے سرداروں نے طالوت کے بادشاہ بننے کو بہت بعید سمجھا اس لیے ان کے رد میں قدرے تفصیل فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے۔ 1۔ کہ بادشاہت کا اصلی اور حقیقی سب اللہ تعالیٰ کی عطاء اور بخشش اور اس کا اصطفاء اور پسندیدگہ ہے اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بادشاہت کے لیے پسند فرماتا ہے وہی بادشاہ ہے اور اللہ جس کو پسند فرمائے وہ کبھی ناپسندیدہ نہیں ہوسکتا۔ 2۔ اور اگر تمہاری نظر ظاہری اسباب پر ہے تو سمجھ لو کہ سلطنت کا مدار حسب ونسب اور مال و دولت پر نہیں اس لیے کہ مال آنے جانے والی چیز ہے صبح آتا ہے اور شام جاتا ہے بلکہ سلطنت کا ظاہری سبب یہ ہے کہ علم اور فہم ہو اور اس کے ساتھ قوت بدنیہ ہو تاکہ اس قوت جسمانیہ سے علم اور فہم کے موافق عمل کرنے کی قدرت حاصل ہوسکے ورنہ علم بغیر قدرت اور قوت کے بےکار ہے خصوصا کارخانہ سلطنت محض علم سے بدون قدرت کے نہیں چلتا اور تیسرے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے بعد کسی کو مجال دم زندگی نہیں وہ تمام مصلحتوں کو تم سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے وہ تم پر تم سے زیادہ مہربان ہے اور اس لیے اب تم کو طالوت کی بادشاہت میں کوئی حجت نکالنا روا اور زیبا نہیں دیتا مگر یہ ظالم کب خاموش ہونے والے تھے اللہ کے نبی نے ان ظالموں کے اعتراض کا نہایت شافی اور کافی جواب دیا ہے لیکن یہ لوگ اپنے وسوسوں کی وادی تیہ میں بھٹکتے رہے اور بالاآخر ان لوگوں نے حضرت شمویل سے یہ کہا کہ اچھا ہمیں طالوت کی بادشاہت اور ان کے برگزیدہ ہونے کی کوئی ظاہری نشانی بتلائیے جسے دیکھ کر ہم ان کے بادشاہ ہونے کا بالبداہت یقین آجائے اور قلب مطمئن ہوجائے اس وقت ان کے پیغمبرنے یہ فرمایا کہ تحقیق طالوت کے من جانب اللہ بادشاہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس بلاکسی ظاہری سبب کے وہ صندوق آجائیگا جو تم سے چھین گیا تھا اس صندوق کے اس طرح آنے میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری دل جمعی اور سکون قلب اور آرام دل کا سامان ہوگا اور اس صندوق میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے خاندان کے کچھ تبرکات بھی ہوں گے جن کو وہ چھوڑے گئے ہیں ان تبرکات کا تمہیں مل جانا صد ہزار خیرات وبرکات کا موجب ہوگا ابن عباس اور قتادہ اور سدی اور عکرمہ اور ربیع بن انس اور ابوصالح سے مروی ہے کہ اس تابوت میں توریت کی دوتختیاں اور کچھ ان تختیوں کے ٹکڑے تھے جو ٹوٹ گئی تھیں اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے عصا اور ان کے عمامے اور جوتے وغیرہ تھے اور اس صندوق کی آمد بھی عجیب شان سے ہوگی اور وہ یہ کہ فرشتے اس تابوت کو اٹھا کرلائیں گے اور طالوت کے سامنے لاکر رکھ دیں گے تحقیق اس صندوق کے اس طرح آنے میں تمہارے لیے ایک نشانی ہوگی جو طالوت کی بادشاہت اور میری نبوت کی صداقت کی دلیل ہوگی اگر تم باور کرو صندوق کا اس خارق عادت طریق پر آنا جس طرح طالوت کی بادشاہت کی دلیل ہوگا اسی طرح حضرت شمویل کی نبوت اور صداقت کی دلیل ہوگا کہ اللہ کے نبی نے جس طرح خبر دی تھی اسی طرح ظہور ہوا اور فرشتوں نے وہ تابوت لاکر طالوت کے سامنے رکھ دیا بنی اسرائیل خوش ہوگئے اور ان کو بادشاہ مان لیا اور سب کے سب جہاد کے لیے فورا تیار ہوگئے پس جب طالوت ان فوجوں کو لے کر شہر سے باہر نکلا تو فوجوں سے یہ کہا کہ اللہ ایک نہر سے تمہارے صبر اور تحمل کی آزمائش فرمائیں گے ان لوگوں نے اللہ کے نبی پر اعتراضات کیے اور طالوت کی بادشاہت کی نشانی طلب کی اللہ نے ان کو ایک آزمائش میں مبتلا کیا بظاہر یہ ابتلاء اور آزمائش کا حکم بذریعہ وحی حضرت شمویل پر نازل ہو اور پھر حضرت شمویل کی ہدایت کے مطابق طالوت نے اس حکم کا اعلان کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت طالوت کو اس کا الہام ہوا ہو اس لیے کہ حضرت طالوت خدا کے پسندیدہ تھے اگرچہ نبی نہ تھے مگر ولی ضرور تھے الہام یا خواب کے ذریعہ سے اس کا القاء ہونا کوئی مستبعد نہیں اور ولی کا الہام اگرچہ فی حد ذاتہ ظنی ہے مگر جب نبی اس کی تصدیق کردے تو وہ قطعی ہوجاتا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ایسے عظیم الشان امر کے متعلق طالوت کوئی الہام ہو اور اپنے اس الہام کا بغیر حضرت شمویل کی تصدیب اور اجازت کے اعلان کریں نبی کی تصدیق اور تصویب تو بہت بڑی چیز ہے کسی چیز کے ہوئے دیکھ کر نبی کا انکار نہ کرنا یہ بھی اس امر کے جائز ہونے کی قطعی دلیل ہے اصطلاح شریعت میں اس کو تقریر نبوی کہتے ہیں یعنی نبی کے سکوت اور عدم انکار نے اس امر کو جائز اور درست قرار دیا جو باجماع امت حجت ہے اب آئندہ آیت میں اس امتحان کی تفصیل ہے پس جو شخص اس نہر سے سیر ہو کر پانی پی لے گا اس کا میرے سے کوئی تعلق نہیں یعنی میرے گروہ سے نہیں رہا اور جس شخص نے اس کا مزہ بھی نہ چکھا یعنی پینا تو درکنار منہ سے بھی نہ لگایا تو وہ بلاشبہ میرے سے وابستہ ہے اور میرے خاص رفقاء اور ساتھیوں میں سے ہے مگر وہ شخص جو اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھرلے سو میرے گروہ سے خارج نہ ہوگا عزیمت اور اصل حکم تو یہی تھا کہ پانی کو بالکل نہ چکھتا بمقدار ایک چلو کے رخصت ہے یعنی جس نے سیر ہو کر پانی نہیں پیا اور صرف جان بچانے کے لیے برائے نام پی لیا تو وہ بھی فی الجملہ مقبول ہے اور غنیمت ہے پس جب اس نہر پر پہنچے تو سب نے بےتحاشا اس نہر سے منہ لگا کر پانی پی لیا مگر تھوڑے آدمیوں نے جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی انہوں نے عزیمت اور رخصت پر عمل کیا اور اجازت سے تجاوز نہ کیا جن لوگوں نے چلو سے پانی پیا ان کی پیاس بجھ گئی اور ان کا دل قوی ہوگیا اور جن لوگوں نے زیادہ پیا وہ بزدل اور نامرد ہوگئے اور نہ ان کی پیاس بجھ گئی اور نہ وہ اس قابل رہے کہ نہر سے پار ہوسکیں پس جب طالوت اور ان کے رفقاء مومنین نہر سے پار ہوگئے اور دیکھا کہ ہم ایک مٹھی بھر جماعت ہیں اور جالوت کا لشکر ایک لاکھ سے متجاوز ہے اس لیے بعض ضعیف القلب یہ کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ کی تاب نہیں دشمن کی طاقت بہت ہے اور ہم بہت تھوڑے ہیں البتہ ان میں جو لوگ اولوالعزم اور اہل ہمت تھے اور یہ یقین رکھتے تھے کہ ایک دن خدا سے ملنا ہے اور اس کو منہ دکھانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو فتح اور نصرت کا وعدہ کیا ہے وہ بالکل حق ہے اور ان لوگوں نے کمزوروں کو ہمت دلائی اور یہ کہا کہ گھبراؤ نہیں فتح ونصرت کا دارومدار قلت و کثرت پر نہیں بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ بہت تھوڑی اور چھوٹی سی جماعت بڑی سے بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے غالب آئی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور اللہ جس کے ساتھ ہو وہ کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا اور جب جالوت اور اس کی فوجوں کے مقابلے کے لیے میدان میں نکلے تو انی ہمت اور شجاعت پر نظر نہیں بلکہ اللہ ذوالجلال کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ دعا مانگنی شروع کی اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر کو پانی کی طرح بہادے کہ سر سے پیر تک صبر کے پانی میں نہا جائیں اور صبر کی برودت اور سکینت ہمارے ظاہر اور باطن میں سرایت کرجائے اور کافروں کے مقابلے میں ہم کو ثابت قدم رکھ اور کافر قوم کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما اور ہم فتح دے پس اس صبر اور تحمل اور اللہ پر اعتماد اور توکل کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان تھوڑے آدمیوں نے جالوت کی فوجوں اور لشکروں کو اللہ کی تائید سے شکست دی اور داود (علیہ السلام) نے جو اس وقت اپنے والد اور چھ بھائیوں کے لشکر میں تھے اور ابھی تک ان کو نبوت نہیں ملی تھی جالوت کو قتل کرڈالا اور داود (علیہ السلام) اپنے سب بھائیوں میں چھوٹے تھے جب میدان کارزار سامنے آیا اور جالوت نہایت کروفر کے ساتھ زہ اور خورد پہن کر میدان میں آیا اور بنی اسرائیل سے مبارز اور مقابل طلب کیا حضرت داود (علیہ السلام) بغیر تلوار اور بغیر ہتھیار کے صرف تین پتھر لے کر اس کے مقابلہ کو نکلے جب سامنے آئے تو ان پتھروں کو فلاخن میں رکھ کر جالوت کی پیشانی پر مارا وہ پتھر جالوت کی گدی کی جانب سے نکل گئے اور جالوت منہ کے بل زمین پر گرا فورا اس کی تلوار نکال کر اس کا سر قلم کیا کہا جاتا ہے کہ راستہ میں داود کو ایک پتھر نے آواز دی، اے داؤد مجھ کو اٹھا لو میرے ذریعہ سے تم جالوت کو مارو گے پھر اسی طرح ایک اور پتھر نے آواز دی اور پھر ایک اور پتھر نے آواز دی داؤد (علیہ السلام) نے تینوں پتھروں کو اپنے تھیلے میں ڈال لیا اور روانہ ہوئے جب جالوت گھوڑے پر سوار ہو کر اور زرہ اور تلوار لگا کر میدان میں نکلا تو داود فقط یہ تین پتھر لے کر آگے بڑھے اور یہ کہا کہ اگر اللہ مدد نہ کرے تو تلوار اور گھوڑا اور ہتھیار بھی بےکار ہے جالوت نے داود سے کہا کہ تم تو فقط پتھر لے کر آئے ہو میرے سامنے جیسے کوئی کتے کو مارنے کیلیے نکلتا ہے فرمایا تو کتے سے بھی بدتر ہے اور اللہ کا نام لے کر وہ تینوں پتھر جالوت کے مارے جو ماتھے میں لگے اور گدی کے پیچھے سے نکل گئے (تفسیر قرطبی ص 257 ج 3) ۔ طالوت نے اس خوشی میں اپنی بیٹی حضرت داؤد (علیہ السلام) کے نکاح میں دے دی اور پھر اللہ نے طالوت کے مرنے کے بعد داؤد کو سلطنت عطا کی اور طالوت کے مرنے کے بعد باتفاق بنی اسرائیل داؤد (علیہ السلام) بادشاہ مقرر ہوئے داود (علیہ السلام) سے پہلے بنی اسرائیل کسی کی بادشاہت پر اتنے مجتمع نہیں ہوئے جتنا کہ داود کی بادشاہت پر ہوئے اورا للہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو سلطنت اور بادشاہت کے علم اور حکمت یعنی نبوت عطا کی اور داود (علیہ السلام) سے پہلے کبھی کسی آدمی میں سلطنت اور نبوت جمع نہیں ہوئیں سلطنت شاہی خاندان میں رہتیتھی اور نبوت نبی کے خاندان میں رہتی تھی اور اس کے علاوہ اللہ نے داود کو جو امور چاہے سکھائے جیسے بغیر آلات کے زرہیں بنانا سکھایا اور لوہے کی مثل موم کے ان کے لیے نرم کردیا پس اپنے ہاتھ سے کام کرتے اور اس کی مزدوری کھاتے اور پرندوں اور چیونٹیوں کی بولی ور زبان سکھائی اور خوش آواز عطا کی۔ ف) ۔ نبی اگرچہ نبی ہونے سے پہلے نبی ہوتا مگر ولی ضرور ہوتا ہے اور اولیاء کی کرامتیں حق ہیں جیسا کہ کتاب اللہ اور سنت متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے محض تین پتھروں سے جالوت کو مارنا یہ داود کی کرامت تھی اور آئندہ نبوت کا ارہاص یعنی پیش خیمہ تھی اور حضرت داؤد کی یہ کرامت نبی اکرم کے اس معجزہ کانمونہ تھی جو حضور سے جنگ حنین میں ظاہر ہوا کہ ایک مشت خاک سے ہوازن سراسیمہ ہوگئے (تفسیر قرطبی ص 258 ج 3) ۔ اور اسی صبر و استقلال کی برکت سے اللہ نے صحابہ کرام کو ایک عظیم الشان سلطنت عطا کی جو داود کی سلطنت کانمونہ تھی۔ بیان حکمت مشروعیت جہاد۔ اب اس واقعہ جہاد کے ذکر کے بعد جہاد کی عام حکمت اور مصلحت کو بیان فرماتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں یعنی کافروں کے شر اور فساد کو اپنے بعض خاص بندوں یعنی مومنین کے ذریعہ دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جائے اور کفر اور شرک غالب آجائے اور مسجدیں ویران ہوجائیں اور کوئی اللہ کا نام لینے والا باقی نہ رہے لیکن اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں تمام لوگوں پر اس لیے کہ اس نے تم پر جہاد فرض کیا تاکہ کفر کا فتنہ اور فساد دفع ہوجائے اس لیے کہ کفر اور شرک کو کافروں سے جہاد کا حکم نہ دیتے تو بڑا فساد پھیل جاتا جہاد اسی فساد کی اصطلاح اور انسداد کے لیے مقرر ہوا ہے اس لیے جہاد کو اللہ کا بڑا فضل سمجھو۔ اثبات رسالت محمدیہ۔ یہ واقعات جن کا ذکر کیا اللہ کی آیتیں ہیں جن کو سچائی کے ساتھ پڑھ کر ہم آپ کو سناتے ہیں جس میں ذرہ برابر شک نہیں یہ واقعات جس طرح ہم نے بیان کیے اسی طرح حق اور صدق ہیں اہل کتاب جس طرح بیان کرتے ہیں وہ قابل اعتبار نہیں اور یہ تمام واقعات اللہ کی قدرت اور پھر آپ کی نبوت کے دلائل ہیں کیونکہ ایسے قدیم زمانہ کے واقعات کا بغیر کسی سے پڑھے اور بغیر کسی سے سنے صحیح صحیح بیان کرنا بغیر وحی خداوندی کے ممکن نہیں اور آپ بلاشبہ اللہ کے رسولوں میں سے ہیں جن کو اللہ نے اپنے دشمنوں سے جہاد کا حکم دیا اور باوجود بےسروسامانی کے کافروں کے بڑے بڑے لشکروں کو ان کے خدام اور غلاموں کے ہاتھ سے تہ وبالا کر ایاجہاد انبیاء کی سنت ہے اور وہ لوگ نادان ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جہاد و قتال نبیوں کا کام نہیں جہاد ہمیشہ رہا ہے اگر جہاد نہ ہو تو مفسد لوگ ملک کو ویران کردیں۔ الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات، والصلوۃ والسلام علی سید الموجودات وخلاصہ الکائنات وعلی آلہ و اصحابہ وازواجہ الطاھرات المطہرات۔ 3 جمادی الاولی 1374 بعد صلاۃ المغرب، جامعہ اشرفیہ لاہور۔
Top