Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 247
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا١ؕ قَالُوْۤا اَنّٰى یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَ لَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ١ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ وَ زَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤْتِیْ مُلْكَهٗ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَقَالَ : اور کہا لَهُمْ : انہیں نَبِيُّهُمْ : ان کا نبی اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَدْ بَعَثَ : مقرر کردیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے طَالُوْتَ : طالوت مَلِكًا : بادشاہ قَالُوْٓا : وہ بولے اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ : ہوسکتی ہے لَهُ : اس کے لیے الْمُلْكُ : بادشاہت عَلَيْنَا : ہم پر وَنَحْنُ : اور ہم اَحَقُّ : زیادہ حقدار بِالْمُلْكِ : بادشاہت کے مِنْهُ : اس سے وَلَمْ يُؤْتَ : اور نہیں دی گئی سَعَةً : وسعت مِّنَ : سے الْمَالِ : مال قَالَ : اس نے کہا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰىهُ : اسے چن لیا عَلَيْكُمْ : تم پر وَزَادَهٗ : اور اسے زیادہ دی بَسْطَةً : وسعت فِي : میں الْعِلْمِ : علم وَالْجِسْمِ : اور جسم وَاللّٰهُ : اور اللہ يُؤْتِيْ : دیتا ہے مُلْكَهٗ : اپنا بادشاہ مَنْ : جسے يَّشَآءُ : چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور ان کے نبی نے ان سے کہا بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہنے لگے ، ہم پر ان کی حکومت کیسے ہوگی ۔ اور ہم اس سے حکومت کے زیادہ مستحق ہیں۔ اور وہ مال میں وسعت بھی نہیں دیا گیا۔ ان کے پیغمبر نے ان سے کہا ، بیشک اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے اوپر منتخب کیا ہے اور اس کو علم اور جسم کی فراخی کے لحاظ سے زیادہ کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بادشاہی دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
ربطہ آیات گذشتہ درس میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ وہ مغلوب ہوگئے دشمن نے ان کے بہت سے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ ان کے بچوں کو غلام اور عورتوں کو لونڈیاں بنالیا۔ انہوں نے نبی وقت حضرت سموئیل (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ ہمارے لیے کوئی بادشاہ مقرر کردیں۔ جس کی سرکردگی میں ہم دشمن سے جنگ کرکے اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لے سکیں اور اپنے گھروں کو لوٹ سکیں نیز اپنے مردوں اور عورتوں کو دشمن کی غلامی سے نجات دلائیں ان کے نبی نے فرمایا کہ دیکھنا کہیں اپنے وعدے سے پھر نہ جانا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم آپ کی طرف سے مقرر کیے گئے بادشاہ یا امیر کی اطاعت کریں گے۔ آج کے درس میں بنی اسرائیل کے لیے طالوت بادشاہ کے تقرر اور بنی اسرائیل کے انکار کا بیان آرہا ہے۔ طالوت بطور بادشاہ ارشاد ہوتا ہے۔ وقال لھم نبیھم ان کے نبی نے بنی اسرائیل سے کہا ان اللہ قد بعث لکم طالوت ملکاً بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ لہٰذا تم اس کی سرکردگی میں اپنی تنظیم قائم کرو اور پھر دشمن سے جہا د کرو۔ مگر اس قوم کے آسودہ حال لوگوں کو طالوت کا انتخاب پسند نہ آیا۔ قالوا کہنے لگے الی یکون لہ الملک علینا طالوت ہمارا بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ تو غریب اور کمزور حیثیت کا مالک ہے۔ وہ ہمارا بادشاہ بننے کا اہل نہیں ونحن احق بالملک منہ اس سے زیادہ بادشاہ بننے کا ہمارا حق ہے۔ ولم یوت سعۃً من المال ان کے پاس تو مال بھی نہیں ہے۔ وہ ہمارا سردار یا امیر بننے کے بالکل اہل نہیں ہے۔ دراصل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بادشاہی تو زیادہ تر یہودا کے خاندان میں رہی جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی تھے۔ اور نبوت زیادہ تر لاوی خاندان میں رہی جس سے حضرت ہارون (علیہ السلام) تھے۔ یہ طالوت بن کش حضرت یوسف (علیہ السلام) کے چھوڑے بھائی بن یامین کی اولاد سے تھا اور یہ نسبتاً چھوٹا خاندان سمجھاجاتا ہے۔ مگر حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اسے بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر فرمادیا ، ان کے خاندان کو دیگر خاندانوں کی طرح عزت حاصل نہیں تھی ، یہ کم تر لوگ تھے۔ خود طالوت کپڑے رنگنے کا کام کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ تیلی تھا۔ لہٰذا بنی اسرائیل اس کے بطور امیر تقرر پر رضا مند نہ ہوئے۔ دراصل مالی کمزوری نبوت کو تسلیم کرنے میں ہمیشہ رکاوٹ رہی ہے جب بھی کسی نبی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ تو اس کی قوم نے یہی جواب دیا کہ تو تو ہماری قوم کا گھٹیا آدمی ہے۔ تیرے پاس نہ مال و دولت ہے۔ نہ زمین و مکانات ہیں نہ سونا چاندی ہے۔ تو نبی کیسے ہوسکتا ہے۔ یہی چیز طالوت کو بادشاہ تسلیم کرنے میں مانع ہوئی کیونکہ وہ شخص قوم کا ایک ادنیٰ فرد سمجھا جاتا تھا۔ اور دنیاوی مال و متاع سے محروم تھا۔ تفسیری روایات میں آتا ہے کہ جب بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبر سے امیر مقرر کرنے کی درخواست کی ، اس وقت طالوت کی عمر تیس 30 سال کے قریب تھی یہ سب لوگ پیغمبر کے پاس جمع تھے اور ان سے سوال و جواب کر رہے تھے طالوت کے باپ کا گدھا گم ہوگیا تھا ، وہ تلاش کرتا ہوا اس طرف جا نکلا جہاں بنی اسرائیل کے لوگ جمع تھے۔ چناچہ وہ بھی ان کے قریب پہنچ گیا۔ اُدھر اللہ کے نبی کو وحی کے ذریعے خبر دی جاچکی تھی کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ ایسے شخص کو مقرر کیا جائے۔ جس کا قد نبی کے پاس موجود لاٹھی کے برابر ہو۔ نیز یہ کہ وہ آدمی آرہا ہے۔ اس کے پہنچنے پر نبی کے پاس خوشبودار تیل والی شیشی میں جوش پیدا ہوگا۔ لہٰذا جس شخص پر یہ نشانیاں صادق آجائیں اسے امیر مقرر کرلیاجائے۔ جب طالوت اس مجمع میں پہنچا تو تیل کی شیشی میں جوش پیدا ہوگیا۔ جب اس کا قد ماپا گیا ، تو لاٹھی کے برابر نکلا ، چناچہ اللہ کے نبی نے طالوت کو بادشاہ یا امیر مقرر کردیا مگر بنی اسرائیل نے اسے اپنا امیر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ امیر کی خصوصیات اللہ کے نبی نے اپنی قوم کو سمجھایا۔ کہ محض مال و دولت یا اعلیٰ خاندان کا ہونا ہی امارات کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ اصول مقرر ہیں جن کی بناء پر کسی شخص کو امارات کے عہدے پر فائز کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلی بات جو پیغمبر نے کہی قال ان اللہ اصطفہ علیکم اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا ہے۔ لہٰذا اس میں کسی کے ذاتی اختلاف کو دخل نہیں ہوناچاہئے اور دوسری بات یہ کہ وزادہ بسطۃً فی العلم والجسم اللہ نے اسے علم اور جسم میں وسعت دی ہے یعنی اس میں یہ خوبی ہے کہ وہ علم میں بھی تم سے زیادہ ہے۔ اور جسمانی طاقت کے لحاظ سے بھی تم میں سے زیادہ قوی ہے۔ یہاں پر علم سے مراد سیاسی علم یعنی نظام حکومت چلانے کی صلاحیت ہے۔ جہاں تک دینی علم کا تعلق ہے وہ تو نبی کے پاس تھا ، تاہم اللہ تعالیٰ نے سیاسی علم طالوت کو عطا کیا تھا۔ امیر کے لیے جسمانی طور پر صحت مند ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ غیر صحت مند یا بیمار اور لاغر شخص نظام حکومت کو بطریق احسن انجام نہیں دے سکتا۔ طالوت تیس سال کا وجیہہ نوجوان تھا۔ قدر آور صحت مند تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اسے اس کام کے لیے منتخب فرمایا تھا اور اس انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو نبی منتخب فرمایا۔ اسی طرح اس نے طالوت کو بادشاہت کے لیے منتخب فرمایا۔ خلیفہ کا انتخاب بعض اوقات اللہ تعالیٰ خلیفہ کا انتخاب بھی خود کرتا ہے جیسے دنیا میں سب سے پہلے خلیفہ آدم (علیہ السلام) تھے۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃً میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا ” یدودانا جعلنک خلیفۃً فی الارض “ اے دائود (علیہ السلام) ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ۔ سلیمان (علیہ السلام) کی خلافت کا ذکر بھی آتا ہے۔ چونکہ اب وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ اس لیے اب یہ تو ممکن نہیں کہ ملت اسلامیہ کے لیے اللہ تعالیٰ خود کسی کو خلیفہ منتخب فرمادے۔ اب خلیفہ کے انتخاب کے لیے کئی ایک صورتیں ہیں۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ سمجھدار ، دانا اور صاحب حل و عقد مسلمان خود خلیفہ کا انتخاب کریں۔ جس طرح حضور ﷺ کے بعد لوگوں نے حضرت صدیق اکبر ؓ کو منتخب کیا تھا۔ انتخاب کی دوسری صورت یہ ہے کہ خلیفہ خود اپنا جانشین مقرر کردے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عمر ؓ کو مقرر فرمایا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ خلیفہ خود مستحق ترین شخص کو اس کام کے لیے نامزد کردے۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص طاقت کے زور پر خود بخود اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اس کی مثال حضرت امیر معاویہ ؓ کی ہے جنہوں نے غالب آکر خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ اس طرح مسند اقتدار پر آنے والا شخص اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق حکومت کا نظم و نسق چلائے۔ تو یہ صورت بھی قابل قبول ہے۔ خلافت کے معاملہ میں اہل اسلام میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں اہل سنت والجماعت کے نزدیک مسلمانوں کی جماعت پر واجب ہے کہ وہ خلیفہ کا انتخاب کریں۔ اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرتا ہے تو ٹھیک ہے۔ ورنہ مسلمانوں کی یہی جماعت اسے معزول بھی کرسکتی ہے کیونکہ خلیفہ بھی ایک انسان ہوتا ہے اور وہ بھی غلطی کرسکتا ہے۔ برخلاف اس کے شیعہ کا عقیدہ یہ ہے ۔ خلیفہ یا امام معصوم ہوتا ہے اور اس کا انتخاب من جانب اللہ ہوتا ہے اس کی خلافت مستقل ہوتی ہے اور کوئی اسے معزول نہیں کرسکتا۔ حالانکہ یہ عقیدہ درست نہیں ہے۔ خارجی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حاکم صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ خلیفہ کی ضرورت ہی نہیں ہے یہ عقیدہ بھی باطل ہے۔ خلیفہ کا انتخاب اس قدر اہم مسئلہ ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام ؓ ؓ نے یہ مسئلہ آپ کے کفن دفن سے پہلے طے کرلیا۔ کیونکہ ہر اجتماعی کام میں امیر کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر تمام امور اس کے احکام کے تحت انجام دئیے جاتے ہیں۔ ابو دائود شریف کی روایت میں ہے کہ جب تین آدمی سفر پر روانہ ہوں تو اپنے میں سے ایک کو امیر بنالیں تاکہ سفر کے تمام معاملات تنظیم کے تحت حل ہوں۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جو لوگ عزت و آبرو کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ ملک کا نظام ایسے ہاتھوں میں دیں جو اللہ تعالیٰ کا قانون نافذ کرسکیں۔ اور یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خود ایماندار اور عادل ہوں ۔ مولانا تشریح فرماتے ہیں کہ جن ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ دل سے چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں اسلامی نظام نافذ ہو ، مگر جب حکومت منتخب کرنے کا وقت آتا ہے تو ہمیشہ غلط فیصلہ کرتے ہیں۔ مولانا کا ارشاد ہے کہ اسمبلی کا ممبر اس شخص کو چُنو جو کتاب اللہ کا عالم اور حضور ﷺ کی سنت اور خلفائے راشدین ؓ کے دور کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔ جو شخص کتاب و سنت اور آثار صحابہ سے واقف نہیں ، وہ اسلامی نظام کیسے لائیگا ممبرایسا ہوناچاہئے۔ جو قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو قربان کردے۔ اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور آخرت میں محاسبے کا ڈر ہو۔ صرف ایسے لوگ ہی اللہ کا قانون جاری کرسکتے ہیں۔ وہ جب پارلیمنٹ میں جائیں تو سربراہ بھی صحیح منتخب کریں گے اور قانون بھی ٹھیک ٹھیک وضع کریں گے۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) مولانا عبیداللہ سندھی (رح) ہمارے اکابرین میں سے ہیں۔ آپ اجتماعیات اور اقتصادیات کے ماہر تھے۔ آپ سکھوں کے گھر میں پیدا ہوئے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سولہ سال کی عمر میں مسلمان ہو کر حضرت خواجہ محمد صدیق (رح) کے دست حق پر ست پر بیعت کی۔ خواجہ صاحب نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا اس عمر میں ان کا ختنہ بھی کرایا۔ مولانا بھی اپنے آپ کو خواجہ صاحب کا روحانی فرزندہ کہتے ہیں۔ حضرت خواجہ محمد صدیق (رح) اپنے زمانے کے اس پایہ کے بزرگ تھے۔ جس پایہ کے حضرت جنید بغدادی (رح) ہوئے ہیں۔ ان کے دو مرید خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ایک مولانا غلام محمد دین پوری (رح) اور دوسرے مولانا سید تاج الدین امروٹی (رح) ، مولانا دین پوری (رح) علم میں زیادہ وسعت نہیں رکھتے تھے تاہم حاجی امداد اللہ (رح) کی طرح نسبت بہت اونچی تھی۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں اس دور میں ان جیسا کوئی بزرگ نہیں ہوا۔ سید تاج الدین امروٹی (رح) میں دونوں خوبیاں پائی جاتی تھیں آپ عالم بھی تھے اور مجاہد بھی۔ آپ کے ہاتھ میں تقریباً سات ہزار ہندو سکھ مسلمان ہوئے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن (رح) کے دوست اور رفیق ان کی طرح انگریز کے سخت دشمن تھے ، آپ نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جب مولانا عبیداللہ سندھی (رح) تحصیل علم کے لیے ہندوستان جا رہے تھے۔ تو حضرت خواجہ محمد صدیق (رح) نے ان کے حق میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی صحیح عالم دین کے پاس پہنچا دے اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔ اور چلے چلتے مولانا سندھی دارالعلوم دیوبند پہنچ کر حضرت مولانا شیخ الہند (رح) کی خدمت میں پہنچ گئے۔ جملہ علوم آپ سے حاصل کیے۔ اور حدیث کا درس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے گنگوہ میں جاکر لیا آپ مدرسہ دیوبند کے سرپرست تھے مگر قیام گنگوہ میں تھا۔ مولانا سندھی (رح) کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ خود لکھتے ہیں کہ علم میراث کی کتاب سراجی صرف دو گھنٹے میں پڑھ لی اور صحاح ستہ میں سے ابن ماجہ اور نسائی دو دن میں ختم کرلی۔ جب آپ علم حاصل کرکے واپس اپنے پیر صاحب کے ہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ خواجہ صاحب وفات پا چکے ہیں ۔ آپ نے آخری وقت میں اپنے دونوں شاگردان کو وصیت فرمائی تھی کہ جب عبیداللہ (رح) واپس آئے تو اسے اپنا بیٹا سمجھنا۔ ان دو بزرگوں نے آپ کو باپ کی سی شفقت دی۔ مولانا سندھی (رح) خود فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ تحصیل علم کے بعد میں نے اٹھارہ سال تک اپنے استاد محترم مولانا محمود الحسن (رح) کی خدمت میں رہ کر اسلامی سیاست اور حکمت سیکھی۔ شیخ الہند (رح) سیاسیات کے بہت بڑے امام تھے ۔ مولانا سندھی (رح) کا چھوٹا سا قد مگر اللہ تعالیٰ نے ان میں وہ صلاحیت رکھی تھی کہ انگریز جیسا جابر حکمران آپ سے بہت خائف تھا۔ آپ کے پیچھے ہر وقت جاسوس لگے رہتے تھے۔ آپ بارہ سال تک مکہ معظمہ میں رہائش پذیر رہے۔ عرب حکومت نے بھی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اس کے باوجود انگریزوں کو ہمیشہ ان کی طرف سے طوفان اٹھنے کا خطرہ رہتا تھا۔ انگریزوں نے ایک مولوی کو جاسوسی کے لیے مکہ مکرمہ بھیج دیا۔ آپ کو پتہ چلا تو فرمایا کہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اللہ کے گھر میں بھی میرا پیچھا کر رہے ہو۔ تقسیم ہند سے پانچ سال قبل آپ نے کلکتہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے انگریز کی سلطنت کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ اب یہ اس ملک میں نہیں رہ سکتا۔ اگر یہ زیادہ عرصہ ہندوستان میں ٹھہر گیا تو میری قبر پر تھوک دینا کہ تو نے جھوٹ کہا تھا۔ مگر اس کے بعد دو سال کے اندر اندر انگریز کو ہندوستان خالی کرنا پڑا۔ شرائط خلافت جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے کہ خلافت کے لیے اعلیٰ خاندان کا ہونا اور خلیفہ کے پاس مال و دولت کا ہونا کوئی شرط نہیں ہے بلکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے طالوت کی جو صفات بیان کی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ علم اور صحت کے لحاظ سے دوسروں سے بہتر تھا اور پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خود اسے اس کام کے لیے منتخب کیا تھا۔ اسی لیے امام ابوبکر حصاص (رح) اور دیگر مفسرین کرام (رح) فرماتے ہیں کہ خلیفہ کے لیے خاندان قریش سے ہونا ضروری نہیں ہے۔ حدیث شریف الائمۃ من القریش کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب قریش کے علاوہ لوگ کسی دوسرے پر متفق نہیں ہوسکتے تھے۔ اس وقت قریش میں خلافت کا کام انجام دینے کی پوری صلاحیت موجود تھی۔ بخاری شریف میں ہے کہ اگر دو آدمی بھی خاندان قریش سے باصلاحیت ہوں گے تو خلافت کسی اور طرف منتقل نہیں ہوگی۔ مگر عباسیوں کے دور میں اسقدر بگاڑ پیدا ہوگیا کہ دو آدمی بھی با صلاحیت موجود نہ رہے۔ لہٰذا خلافت ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ دوسری جگہ آتا ہے ما اقامو جب تک انصاف پر قائم رہیں گے۔ خلافت ان کے پاس رہیگی۔ چناچہ ساڑھے چھ سو سال تک خلافت اسی خاندان میں رہی پھر جب اس اہلیت سے محروم ہوگئے تو خلافت سے محروم ہوگئے۔ آج بھی من حیث القوم مسلمانوں میں صلاحیت ناپید ہے۔ مسلمان خود اپنا صحیح خلیفہ منتخب نہیں کرسکتے۔ آج وہ مسلمان کہاں سے پیدا ہوں جو قومی درد رکھنے والے ہوں۔ اور اپنے ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر قربان کرسکیں۔ جب تک مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوگا یہ قوم قعر مذلت سے نہیں نکل سکتی۔ الغرض ! فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض خصوصیات کی بنا پر طالوت کو بادشاہ منتخب فرمایا ہے۔ واللہ یوتی ملکہ من یشاء اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا ملک عطا کرتا ہے واللہ واسع علیم اور اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے وہ جس کو بادشاہی دیتا ہے اس کو مال و دولت سے بھی نواز سکتا ہے۔ اور جس کے اندر خود اس نے صلاحیت رکھی ہے۔ اس کو امیر بنادیتا ہے۔ یہ سب کچھ اس کے علم میں ہے۔ تابوت سکینہ اللہ کے نبی نے اللہ کے حکم سے اپنی قوم کے سامنے ایک معجزانہ نشانی کا اظہار فرمایا۔ تاکہ ان کی تسلی ہوجائے کہ طالوت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا انتخاب بالکل درست ہے۔ قوم جانتی تھی کہ جب دشمن نے ان پر غلبہ حاصل کیا تھا تو سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے کا وہ مقدس صندوق بھی اٹھا کر قریہ پاریم میں لے گئے تھے۔ جس میں آل موسیٰ اور آل ہارون کے تبرکات تھے۔ جن میں موسیٰ کی لاٹھی ، تختی کے ٹکڑے ، تورات کا کچھ حصہ ، آپ کا لباس اور پاپوش وغیرہ تھے۔ یہ ایسی بابرکت چیز تھی کہ بنی اسرائیل سفرو حضر میں ہمیشہ اسے ساتھ رکھتے تھے یہ تابوت جنگ میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے جسکی برکت سے اللہ انہیں فتح دیتا۔ تابوت سکینہ حضرت سلیمان کے زمانے تک بنی اسرائیل میں رہا۔ پھر آپ نے بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے وقت وہاں رکھ دیا۔ اس کے بعد اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ بعض کہتے ہیں کہ ہیکل سلیمانی میں دفن ہے غالباً اس لیے یہودی وہاں پر کھدائی کر رہے ہیں تاکہ وہ تابوت مل جائے۔ اگرچہ بنی اسرائیل کو تبرکات کے کھو جانے کا بڑاقلق تھا مگر وہ مجبور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وقال لھم نبیھم ان کے نبی نے ان سے کہا ان اٰیۃ ملکہ ان یاتیکم التابوت تمہارے پاس وہ صندوق خود بخود آجائے گا فیہ سکینۃ من ربکم جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین قلب ہے۔ و بقیۃ مما ترک اٰل موسیٰ واٰل ھٰرون اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کی اولاد نے چھوڑا ہے۔ تحملہ الملکۃ اسے فرشتے اٹھا کر لائیں گے۔ یہ صندوق بیس سال تک دشمن کے قبضہ میں رہا۔ اللہ کی قدرت وہ جس بستی میں صندوق کو رکھتے تھے۔ وہاں وباء پھوٹ پڑتی اور وہ بستی تباہ ہوجاتی تھی۔ اس طرح پانچ بستیاں تباہ ہوگئیں تو ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس صندوق کو کسی طرح نکال دیاجائے۔ چناچہ انہوں نے صندوق بیل گاڑی پر رکھ کر بیلوں کو ایک طرف ہانک دیا۔ بیل چلتے چلتے طالوت کے دروازے پر پہنچ گئے اور اس طرح صندوق ان کے پاس آگیا۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ صندوق اگرچہ بظاہر بیل گاڑی پر آیا تھا مگر اللہ کے حکم کے مطابق اسے فرشتے لائے تھے جو عام لوگوں کو نظر نہیں آتے تھے۔ انہوں نے ہی بیلوں کو طالوت کے دروازے پر لاکھڑا کیا تھا ان فی ذلک لایۃ لکم اس میں تمہارے لیے نشانیاں ہیں ان کنتم مومنین اگر تمہیں یقین و ایمان ہے۔ ان نشانیوں کو دیکھ کر بنی اسرائیل طالوت کے بادشاہ مقرر ہونے پر مطمئن ہوگئے۔ چناچہ قوم نے ان کی سرکردگی میں جہاد کرنے کا عزم بھی کرلیا۔ اب اللہ کا نبی سموئیل بھی موجود تھا اور طالوت بادشاہ بھی موجود تھا چناچہ وہ دشمن سے جنگ کے لیے نکلے جس کا ذکر اگلے درس میں آئے گا۔
Top