Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
اور نہ قتل کرو اپنی اولادوں کو فقر کے خلاف سے ہم انہیں روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی ، بیشک ان کا قتل کرنا بڑی خطا ہے ۔
ربط آیات : اس سے پیشتر اسلامی نظام معاشرت کے چھ اصول بیان ہوچکے ہیں ، یعنی خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر استقامت ، مال باپ کے ساتھ حسن سلوک ، قرابتداروں ، مسکینوں اور مسافروں کے حق کی ادائیگی ، فضول خرچی سے اجتناب اور اگر کسی وقت مالی حال کمزور ہو تو مستحقین کو نرمی سے جواب دہی بخل سے اجتناب اور اخراجات میں میانہ روی کو اپنانا ، سب کچھ بیک وقت خرچ کرنے کو بھی غیر مستحسن فرمایا کہ ایسا کرنے سے بعد میں پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔ (7) (قتل اولاد کی ممانعت) اب آگے کچھ منہیات آرہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے چناچہ ساتویں اصول کے طور پر مفلسی کے خوف سے قتل اولاد سے منع فرمایا گیا ہے ، قرآن کریم میں اولاد کا قتل دو وجوہ کی بنا پر بیان کیا گیا ہے ، گذشہ سورة النحل میں لڑکیوں کے قتل کا ذکر ہوچکا ہے (آیت) ” واذا بشر احدھم بالانثی ظل وجھہ مسودا وھو کظیم “۔ عرب کے بعض قبائل میں یہ رواج تھا کہ جب انہیں بچی کی پیدائش کی خبر سنائی جاتی تو نام نہاد و غیرت کی وجہ سے ان کے چہرے سیاہ ہوجاتے اور وہ سوچنے لگتے کہ اس کو کس موقع پر اور کس طریقے سے قتل کردیا جائے تاکہ شادی کے قابل ہو کر ہمارے لیے باعث ننگ نہ بنے چناچہ بعض تو پیدا ہوتے ہی دائی کے ذریعہ اسے زندہ دفن کرا دیتے یا کچھ بڑی ہونے پر خود گڑھا کھود کر اس میں دھکا دیتے یا کسی اونچی جگہ سے گرا کر ہلاک کردیتے اللہ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن (آیت) ” واذا الموء دۃ سئلت ، بای ذنب قتلت “۔ (التکویر) زندہ درگور ہونے والی بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا ، اس وقت اس قبیح فعل کے مرتکبین کا حشر قابل دید ہوگا ، حضور ﷺ کا بھی ارشاد مبارک ہے ” الوائدۃ والموء دۃ فی النار “۔ یعنی بچی کو جن کر قتل کروانے والی ماں اور قتل کرنے والی دائی دونوں جہنمی ہیں ۔ قتل اولاد کی دوسری وجہ جو یہاں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے وسائل محدود ہیں ، ذرائع آمدنی مخدوش ہیں تو ایسے میں اولاد (لڑکا یا لڑکی) کی پرورش کیسے ہوگی ، ان کی ضروریات زندگی کون بہم پہنچائے گا ، لہذا بہتر یہی ہے کہ انہیں پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جائے ، اللہ نے اسی فعل سے منع فرمایا ہے (آیت) ” ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق “۔ اپنی اولادوں کو مفلسی اور تنگدستی کی وجہ سے قتل نہ کرو ، روزی کی بہم رسانی تمہاری ذمہ داری نہیں ہے بلکہ (آیت) ” نحن نرزقھم “ ہر نومولود بچے کو روزی ہم پہنچاتے ہیں نہ صرف انہیں بلکہ (آیت) ” وایاکم “ تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہے تم سمجھتے ہو کہ اپنی روزی خود کماتے ہو ، نہیں ، بلکہ تمام وسائل رزق اللہ تعالیٰ کے کنٹرول میں ہیں ، وہ وسائل مہیا کرتا ہے تو تمہاری روزی کا انتظام ہوتا ہے ، اگر وہ تمہیں کچھ نہ دینا چاہے تو تمہاری تمام ترمحنت اور تگ ودو کے باوجود تمہیں کچھ نہیں مل سکتا ، اللہ تعالیٰ نہ صرف تمام انسانوں کا روزی رساں ہے بلکہ ہر جانور ، چرند ، پرند ، کیڑے موڑے ، مچھلیوں اور منڈکوں تک کا سامان زیست وہی بہم پہنچاتا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وکاین من دآبۃ لاتحمل رزقھا ، اللہ یرزقھا وایاکم “۔ (العنکبوت) کتنے ہی جانور ہیں جو اپنی روزی اپنی بشت پر نہیں لادے پھرتے ، بلکہ اللہ انکو بھی روزی دیتا ہے اور تمہیں بھی ، اللہ تعالیٰ کو جب تک کسی جاندار کی زندگی منظور ہوتی ہے وہ اس کی روزی کا بندوبست کرتا رہتا ہے ، لہذا تم اپنی اولاد کو فقر کے ڈر سے قتل نہ کیا کرو ، صحیحین کی روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا ” ای ذنب اعظم “ حضرت سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا ” ان تجعل للہ ندا وھو خلقک “۔ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اللہ کا شریک بناؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، ابن مسعود ؓ نے پھر عرض کیا ، حضور ! اس کے بعد بڑا گناہ کونسا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” ان تقتل ولدک مخافۃ من یطعمہ “۔ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کر دے کہ اس کی خوراک کا بندوبست کون کرے گا ، گویا شرک کے بعد دوسرے نمبر پر قتل اولاد کا جرم ہے ، انہوں نے تیسری مرتبہ عرض کیا ، حضرت ! اس کے بعد کون سا گناہ ہے تو رحمت عالم نے فرمایا ” ان تزنی حلیلۃ جاء ک “ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے بدکاری تو ویسے بھی بہت بری حرکت ہے مگر پڑوسی کے حق میں ڈاکہ ڈالنا تو بہت ہی معیوب ہے کیونکہ اللہ نے ہمسایہ کے بڑے حقوق رکھے ہیں ۔ فرمایا ہم ان مولودوں کو بھی روزی پہنچاتے ہیں اور تمہیں بھی یاد رکھو (آیت) ” ان قتلھم کان خطا کبیرا “۔ بیشک قتل اولاد تو بہت بڑا جرم ہے اللہ تعالیٰ نے یہ ساتواں اصول بیان کردیا کہ تنگدستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ۔ (برتھ کنٹرول) جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ قرآن پاک نے قتل اولاد کی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں ، ایک بچیوں کا قتل تاکہ ان کا کوئی داماد نہ بن سکے اور دوہرا تنگدستی کے ڈر سے عام قتل ، اب آج کے زمانے میں نسل کشی کے کچھ دیگر ذرائع بھی معرض وجود میں آچکے ہیں جنہیں استعمال کیا جا رہا ہے ، ان میں مانع حمل ادویات یا اسقاط حمل ادویات شامل ہیں عورتوں کے رحم کا اپریشن کنٹرول کی یہ ساری قسمیں شریعت کے نزدیک جرم ہیں امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت تو یہ ہے کہ نسل انسانی کو نکاح کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے جو کوئی اللہ کی اس مصلحت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انسانی آبادی کو محدود کرنا چاہتا ہے وہ ملعون ہے اس پر خدا تعالیٰ اور ملاء اعلی کی لعنت برستی رہے گی اس خلاف فطرت کاروائی کے حق میں آج بھی یہی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ دنیا کی آبادی وسائل رزق کی نسبت زیادہ بڑھ رہی ہے اگر یہ اسی طرح بڑھتی رہی تو ان کی خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کیسے مہیا ہوں گی چناچہ خاندانی منصوبہ بندی کا کام کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ اقوم متحدہ کے تحت پوری دنیا میں ہو رہا ہے ، جس کے لیے یہ عالمی ادارہ امداد بھی مہیا کرتا ہے دراصل اس قسم کی منصوبہ بندی میں شرک کا پہلو بھی نکلتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کی صفت رزاقیت کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں ان بیوقوفوں سے کوئی پوچھے کیا روزی تمہاری منصوبہ بندی سے حاصل ہوتی ہے ؟ وسائل رزق تو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ (آیت) ” ان اللہ ھو الرزاق ذوالقوۃ المتین “۔ (الذریت) رزاق تو وہ رب العزت ہے جو زور آور اور مضبوط ہے دنیا بھر میں خوراک کی کمی کا تعلق آبادی کی کثرت سے نہیں بلکہ وسائل رزق کے غلط استعمال سے ہے وسائل خود غلط استعمال کرتے ہیں مگر دعوی یہ ہے کہ ہماری پلاننگ سے لوگوں کو معیشت حاصل ہوتی ہے ۔ (8) (زنا کی ممانعت) اب اللہ نے آٹھواں اصول یہ بیان فرمایا ہے (آیت) ” ولا تقربوالزنی “ زنا کا ارتکاب تو بڑی بات ہے ، اس کے قربی بھی نہ جاؤ یعنی زنا کے جملہ لوازمات سے بھی دور رہو تاکہ اس قبیح فعل کی نوبت ہی نہ آئے فرمایا یہ اس لیے (آیت) ” انہ کان فاحشۃ “ کہ یہ بڑی بیحیائی کی بات ہے (آیت) ” وسآء سبیلا “۔ اور بہت برا راستہ ہے اس کے ارتکاب سے نسب ‘ اخلاق اور دین سب تباہ ہوجاتے ہیں ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ برے راستے سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کی عورت پر غلط نگاہ ڈالے گا تو کوئی دوسرا اس کی عورت کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گا اور اس طرح یہ ایک غلط روش چل نکلے گی ، جس کا نتیجہ بہت ہی برا برآمد ہوگا ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قبیلہ ہذیل کے ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر زنا کی اجازت طلب کی ایک شاعر نے اسے اس طرح بیان کیا ہے ” ’ ضلت ھذیل سالت ، رسول اللہ ﷺ فاحشۃ “۔ یعنی ہذیل گمراہ ہوگیا کہ اس نے حضور ﷺ سے فحش بات کی اجازت طلب کی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے نہایت سختی کے ساتھ اس شخص کو خاموش کرنا چاہا نبی رحمت ﷺ نے اس شخص کو شفقت کے ساتھ اپنے پاس بٹھا کر فرمایا ، کیا تم یہ حرکت اپنی ماں ، بیٹی ، بہن ، خالہ پھوپھی کے ساتھ واقع ہونا پسند کرتے ہو ، اس نے عرض کیا حضور ﷺ ! یہ تو میں ہرگز پسند نہیں کرتا ، آپ نے فرمایا کہ اسی طرح دوسرے لوگ بھی اپنی کسی عزیزہ کے ساتھ یہ قبیح حرکت پسند نہیں کرتے ، تو تم اس پر کیوں اصرار کرتے ہو ؟ وہ شخص سمجھ گیا اور اپنا مطالبہ واپس لے لیا ، پھر حضور ﷺ نے اس شخص کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس کے گناہ کو معاف کردے اور اس کے اعضائے مستورہ کی حفاظت فرما کہتے ہیں کہ وہ شخص اس کے بعد ہمیشہ کے لیے حیادار بن گیا حضور ﷺ کی دعا اور نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ وہ اپنی نگاہ ہمیشہ نیچی رکھتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے قضائے شہوت کے لیے جائز ذرائع یعنی نکاح کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور ساتھ وعید بھی کردی ہے (آیت) ” فمن ابتغی ورآء ذلک فاولئک ھم العدون “۔ (المعارج) جو شخص اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تلاش کرے گا تو پھر تعدی کرنے والے بن جاؤ گے ہر چیز بگڑ جائے گی ، اللہ کے نزدیک بھی ذلت ہوگی اور قانون کی نگاہ میں بھی مجرم ہوں گے حضرت بریدہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں زنا کار پر لعنت بھیجتے ہیں ، خاص طور پر الشیخ الزانی (معمر زناکار) کے متعلق فرمایا کہ ان لوگوں کی شرمگاہوں سے ایسی سخت بدبو اٹھے گی جس سے اہل دوزخ بھی پناہ مانگیں گے حضرت انس ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص زنا کا ارتکاب اور اس پر اصرار کرتا ہے وہ شخص ایسا ہے کعبادوثن پہلے بت پرست ہو گویا زنا کا جرم بت پرستی جیسا بڑا جرم ہے تاوقتیکہ کوئی شخص اس سے تائب نہ ہوجائے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ جب کوئی آدمی اس فعل کا ارتکاب کرتا ہے تو ایمان اس کے جسم سے نکل کر اس کے اوپر سائبان کی طرح لٹکتا رہتا ہے پھر جب وہ اس فعل سے الگ ہوجاتا ہے تو واپس آجاتا ہے غرضیکہ آٹھویں اصول میں اللہ تعالیٰ نے زنا کے قریب بھی جانے سے منع فرمایا ۔ (9) (قتل ناحق کی ممانعت) اب نواں اصول اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے (آیت) ” ولا تقتلوالنفس التی حرم اللہ الا بالحق “۔ خدا تعالیٰ کی حرام کردہ کسی جان کو قتل نہ کرو سوائے حق کے ، قتل ناحق بھی اکبر الکبائر یعنی بڑے بڑے گناہوں میں سے ہے دنیا میں اس کے بہت برے اثرات پھیلتے ہیں ، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوجاتی ہیں ، باوسائل لوگ بےوسیلہ ہوجاتے ہیں ، اور معاشرے میں قسم قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں قرآن وحدیث نے اس کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی کلمہ گو آدمی کا قتل جائز نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ شادہ شدہ زانی ہو ، مرتد ہوجائے یا قصاص میں قتل کردیا جائے شریعت نے شادی شدہ زانی کی سزا سنگساری مقرر کی ہے ارتداد کے متعلق سورة مائدہ میں ہے (آیت) ” ولا ترتدوا علی ادبارکم فتنقلبوا خسرین “۔ اپنے دن سے مت پھرو ورنہ سخت نقصان اٹھانے والے ہوجاؤ گے حضور ﷺ کا فرمان ہے ” التارک لدین المفارق للجماعۃ “۔ جو دین کو چھوڑ کر مرتد ہوجاتا ہے ، وہ جماعت المسلمین سے الگ ہوجاتا ہے ، ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے ” من بدل دینہ فاقتلوہ “ جس نے اپنا دین تبدیل کرلیا اس کو قتل کر دو اور پھر قصاص میں قتل کیے جانے کا قانون تو واضح ہے (آیت) ” ان النفس بالنفس “۔ (المائدہ 45) کہ جان کے بدلے جان ہے بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان تین قسم کے قتل حق کے علاوہ ناحق قتل سے منع فرما دیا ہے ۔ قتل حق کی بعض دوسری صورتیں بھی شریعت مطہرہ نے بیان فرمائی ہیں مثلا سرکش باغی ، اور ڈاکو کے متعلق فرمایا (آیت) ” انما جزآؤ الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا “۔ ۔۔۔۔۔۔۔ الایۃ “۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ برسر پیکار ہوتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں انہیں قتل کیا جائے یا سولی پر چڑھا جائے اور ان کے ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دیے جائیں ، اسی طرح جنگ کے دوران کفار کو قتل کرنا بھی روا ہے بعض ائمہ مجتہدین کے نزدیک بلاعذر تارک نماز کو تعزیری طور پر قتل کیا جائیگا البتہ امام ابوحنیفہ (رح) ایسے شخص کے لیے قید کی سزا کے قائل ہیں ، اسی طرح اغلام باز کو بھی سزائے موت دی جاسکتی ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جادو کے ذریعے لوگوں کو نقصان پہنچانے والا آدمی بھی واجب القتل ہے ترمذی شریف کی روایت (1) (ترمذی ص 230) (فیاض) میں یہ الفاظ آتے ہیں ” حد الساحر ضربۃ السیف “۔ جادوگر کی تعزیر یہ ہے کہ تلوار کے ساتھ اس کا سرقلم کردیا جائے ، کسی جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والے کو بھی تعزیرا قتل کیا جاسکتا ہے یہ سب تعزیری قتل بھی قتل حق کا حصہ ہیں ، البتہ اس کے علاوہ کسی جان کو تلف کرنا قتل ناحق ہوگا ۔ (قتل ناحق پر وعید) حضور ﷺ کا ارشاد ہے ” لزوال الدنیا اھون علی اللہ من قتل رجل مسلم “۔ (ترمذی ص 259 ج 2 کتاب الدیات) یعنی پوری دنیا کی تباہی ایک طرف اور ایک مومن کا قتل ناحق ایک طرف ہے گویا ساری دنیا کی تباہی ایک قتل ناحق کے برابر ہے ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی شریف کی روایت میں آتا ہے ” لوان اھل السموت واھل الارض “۔ اگر تمام آسمانوں اور زمین والے مل کر کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو جہنم میں اوندھے منہ گرائے گا ایک قتل ناحق کے بدلے تمام روئے زمین وآسمان کے بسنے والوں کو ماخوذ کیا جاسکتا ہے ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی آتا ہے کہ ابلیس ہر صبح اپنے لشکر کو مختلف اطراف میں روانہ کر کے کہتا ہے کہ جو شخص کارہائے نمایاں انجام دے گا میں اسے تاج پہناؤں گا اور اس کی عزت افزائی کروں گا ، سب شیطان چلے جاتے ہیں ہیں ، پھر واپس آکر ان میں سے ایک کہتا ہے کہ میں ایک مسلمان کو گمراہ کرتا رہا حتی کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ، بڑا شیطان کہتا ہے کہ تم نے بڑا اچھا کام کیا مگر ہو سکتا ہے کہ یہ پھر نکاح کرلے ۔ لہذا یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے ، پھر دوسرا شیطان آکر کہتا ہے کہ میں فلاں شخص کو برابر وسوسہ اندازی کرتا رہا ، یہاں تک کہ وہ شخص اپنے والدین کا نافرمان ہوگیا ، بڑا شیطان کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ شخص تائب ہو کر پھر والدین کا فرمانبردار بن جائے ، لہذا یہ بھی کوئی بڑا کام نہیں ہے ایک اور شیطان یہ رپورٹ پیش کرتا ہے کہ وہ فلاں شخص کے پیچھے متواتر لگا رہا اس کو گمراہ کرتا رہا حتی کہ اس نے شرک کا ارتکاب کیا ، بڑا شیطان خوش ہو کر کہتا ہے ” نعم انت “ تم نے بہت اچھا کام کیا اور اس کے سر پر تاج رکھ دیتا ہے ، پھر ایک اور شیطان آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کو ورغلایا ، اس کو گمراہ کیا حتی کہ اس نے ناحق قتل کردیا ، سردار شیطان اس پر بھی بڑا خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے ” نعم انت “ تم بڑے قابل ہو ، شیطان اس کو بھی تاج پہنا دیتا ہے ، غرضیکہ یہ دو جرم شرک اور قتل ناحق شیطان کو بہت پسند ہیں کیونکہ ان میں بنیادی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن کا اثر سارے معاشرے پر پڑتا ہے ۔ سب باغیوں نے حضرت عثمان ؓ کے گھر کا گھیراؤ کرلیا ، تو انہوں نے مکان کی چھت سے ان لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ حضور ﷺ نے تین قتل جائز قرار دیے تھے یعنی شادی شدہ زانی مرتد اور ناحق قاتل ، لوگو ! تم جانتے ہو کہ میں ان میں سے کسی جرم میں ملوث نہیں ، پھر تم کیوں میرے قتل کے درپے ہو ، انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ نے ان میں سے کوئی جرم نہیں کیا مگر آپ کو چھوڑیں گے نہیں ، حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ پھر تم گواہ ہوجاؤ کہ تم مجھے ناحق قتل کرنا چاہتے ہو ، بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اس کی حرام کردہ کسی جان کو مت قتل کرو ۔ (موجودہ دور میں قتل عام) ہمارے دور میں قتل ناحق ایک معمول بن چکا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں حتی کہ ایک آنے کے تنازعہ پر بھی قتل ہوجاتا ہے جائیداد کے مسئلہ میں بیٹے کے ہاتھوں باپ کا قتل بھی واقع ہوا ہے ، ایوب کے زمانے میں اسمبلی میں جرائم کی رپورٹ پیش ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ تین سال کے عرصہ میں پورے ملک میں سولہ ہزار قتل ہوئے یہ بھی کہ ایک سال میں ایک ضلع میں ایک ہزار قتل ہوئے ان حالات میں معاشرہ میں امن وامان کیسے قائم رہ سکتا ہے ؟ قتل کو روکنے کا صحیح طریقہ قانون قصاص ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” ولکم فی القصاص حیوۃ یاولی الالباب “ (البقرہ ۔ 179) اے صاحب عقل لوگو ! قصاص میں ہی تمہارے لیے زندی ہے اگر قتل پر شرعی تعزیر جاری ہوگئی چوری اور زنا کی حد جاری ہوگی تو ان جرائم کا لامحالہ خاتمہ ہوجائے گا اور لوگوں کو امن و سکون کی زندگی میسر آسکے گی ، (10) (اسراف فی القتل) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ومن قتل مظلوما “۔ جو آدمی مظلومیت کی حالت میں قتل کیا گیا (آیت) ” فقد جعلنا لولیہ سلطنا “۔ پس بیشک ہم نے اس کے سرپرست کے لیے غلبہ بنایا ہے (آیت) ” فلا یسرف فی القتل “۔ بس وہ قتل میں اسراف نہ کریں ، مطلب یہ کہ اگر ایک آدمی قتل ہوا ہے تو اسکے بدلے میں دو یا زیادہ آدمی قتل نہ کیے جائیں ، بلکہ قاتل کو ہی قتل کیا جائے غیر مستحق کو سزا دینا کبیرہ گناہ ہے ۔ (آیت) ” ان کان منصورا “۔ بیشک مظلوم مدد کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے مقتول کے ورثاء کو قصاص کا حق دیا ہے اور اگر قصاص ممکن نہ ہو تو دیت کا حق ہے اگر یہ بھی ادا ہوجائے تو آئندہ کے لیے قتل و غارت گری رک جاتی ہے ، قتل خطا میں دیت کا بوجھ قاتل کے پورے خاندان ، دوست احباب اور محلے داروں پر ہوتا ہے لہذا ایک دفعہ کی ادائیگی کے بعد وہ چوکنے ہوجاتے ہیں اور آئندہ کے لیے قتل کی روک تھام کا انتظام کرلیتے ہیں بہرحال قتل ناحق کو روکنے کے لیے قانون قصاص ودیت ہی کار آمد ہیں ، مظلوم کی مدد کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسلامی حکومت قانون شریعت کے مطابق اس کی ضرور مدد کریگی ، اس کے علاوہ جماعت المسلمین کی ہمدردیاں اور مدد بھی مظلوم کے ساتھ ہوگی ، لہذا قتل کے معاملہ میں اسراف نہیں کرنا چاہئے یہ دسواں اصول ہوگیا ۔
Top