Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 44
وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَؕ
وَثُلَّةٌ : اور ایک بڑا گروہ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ : پچھلوں میں سے
اور بہت سے پچھلوں میں سے
اور ایک بڑا گروہ پچھلے لوگوں میں سے ہوگا۔ یعنی اسی امت کے متقدمین (پہلے لوگوں) میں سے بہت سے اور اسی امت کے متاخرین (پچھلے ‘ بعد کو آنے والے لوگوں) میں سے بہت۔ ابو العالیہ ‘ مجاہد ‘ عطاء بن ابی رباح اور ضحاک نے آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ بغوی نے سعید بن جبیر کے حوالہ سے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دونوں سب کے سب میری امت میں سے ہوں گے۔ مسدد نے مسند میں اور طبرانی و ابن مردویہ نے حضرت ابوبکر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت : ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ کی تشریح میں فرمایا : دونوں (یعنی اوّلین و آخرین) سب میری امت میں سے ہونگے۔ دارقطنی نے اس حدیث کو معلل کہا ہے اور صراحت کی ہے کہ ابوبکرہ ؓ کی حدیث کا ثبوت نہیں ہے۔ اس تفسیر پر آیت کے مفہوم کا مقتضا یہ ہوگا کہ یہ امت کبھی بھی اصحاب الیمین سے خالی نہ ہوگی۔ (یعنی قیامت کے جو اصحاب الیمین ہوں گے وہ اس امت میں ہر زمانہ میں کم و بیش موجود رہیں گے) ۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت معاویہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا رہے گا جو اللہ کے حکم پر قائم ہوگا ‘ ان کی مدد نہ کرنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان کو ضرر نہ پہنچا سکیں گے ‘ یہاں تک کہ اسی حالت میں اللہ کا حکم آجائے گا۔ (یعنی قیامت برپا ہوجائے گی) ۔ ایک شبہ بغوی نے عروہ بن رویم کی مرسل حدیث بیان کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ پر آیت : ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ نازل ہوئی ‘ تو حضرت عمر ؓ اس آیت کو سن کر رو دیئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے اور ہم نے اللہ کے رسول کی تصدیق کی لیکن ہم میں سے نجات پانے والے تھوڑے ہوں گے۔ اس پر آیت : ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ نازل ہوئی۔ حضور ﷺ نے حضرت عمر کو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا : اللہ نے تمہارے قول کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم اپنے رب سے اور اس کے رسول ﷺ کی تصدیق سے راضی ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : آدم سے لے کر ہمارے دور تک (سب ملا کر) ایک ثلہ ہوگا اور مجھ سے شروع ہو کر قیامت تک ایک ثلہ ہے (یعنی الاوّلین سے مراد وہ امتیں ہیں جو آدم سے شروع ہو کر رسول اللہ ﷺ پر ختم ہوگئیں ‘ اصحاب الیمین کا ایک بڑا گروہ تو ان کے مجموعہ میں سے ہوگا اور الآخرین سے مراد ہے ‘ امت محمدیہ ‘ تنہا اس امت میں سے ایک بڑا گروہ اصحاب الیمین کا ہوگا) اور اس کا خاتمہ لا اِلٰہ الاّ اللہ کہنے والے ان (مؤمنین) حبشیوں پر ہوگا جو اونٹوں کے چرواہے ہوں گے۔ ابن ابی حاتم نے بھی عروہ کی یہ مرسل حدیث نقل کی ہے۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں لوساطت عروہ بن رویم حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت سے اور امام احمد اور ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے بعض مجہول راویوں کی سند سے حضرت ابوہریرہ کا بیان نقل کیا ہے کہ جب آیت : ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ آیت بہت شاق گزری ‘ اس پر آیت : ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ نازل ہوئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اوّلین سے مراد ہیں ‘ سابق امتیں حضرت آدم ( علیہ السلام) سے رسول اللہ ﷺ تک ..... میں کہتا ہوں ‘ دونوں حدیثوں میں تعارض قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ آدم سے میرے دور تک ایک بڑا گروہ ہے اور مجھ سے لے کر قیامت تک ایک بڑا گروہ ہے۔ یہ فرمان دوسرے قول کے منافی نہیں ہے ‘ جس میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ دونوں میری امت میں سے ہوں گے کیونکہ وہ ثلہ جس کو امت محمدیہ قرار دیا گیا ہے اور صراحت کی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے شروع ہو کر قیامت تک رہے گا ‘ ہوسکتا ہے کہ اس کے دو حصے ہوں : ایک کثیر گروہ متقدمین امت کا اور ایک کثیر گروہ متاخرین امت کا اور ایک آیت میں مراد یہی دونوں گروہ ہوں ( رسول اللہ ﷺ سے پہلے کی امتیں مراد نہ ہوں نہ الاوّلین سے نہ الآخرین سے) ۔ مزید شبہ اگر الاوّلین اور الآخرین سے مراد اسی امت کے دو حصے ہیں (یعنی متقدمین امت اور متاخرین امت) تو آیت : قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ کو سن کر حضرت عمر ؓ کے رونے کی کیا وجہ تھی اور مسلمانوں پر اس آیت کا مضمون کیوں شاق گزرا۔ ازالہ حضرت عمر ؓ اور دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں متاخرین امت کے لیے قلیل کا لفظ سن کر ایک رقت پیدا ہوئی اور انہوں نے سمجھا کہ اس امت کے پچھلے حصہ میں نجات پانے والے کم ہوں گے اسی وجہ سے جب آیت : ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ نازل ہوئی تو ان کو تسلی ہوگئی اور وہ سمجھ گئے کہ اہل قرب اگرچہ کم ہوں گے لیکن اصحاب الیمین بہرحال بہت ہوں گے۔ متقدمین امت میں بھی اور متاخرین امت میں بھی۔ ثواب کا وعدہ اللہ نے سب سے کر رکھا ہے۔ آیت : ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ سے آیت : ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ منسوخ نہیں ہے کیونکہ یہ خبر ہے اور خبر میں نسخ جاری نہیں ہوتا۔ ایک خبر دوسری خبر سے منسوخ نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ منسوخ ہونے کے لیے محل کا ایک ہونا ضروری ہے اور یہاں محل ایک نہیں ہے۔ اوّل آیت : (یعنی قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ ) مقربین کے متعلق ہے اور دوسری آیت (یعنی ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ ) میں اصحاب الیمین مراد ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ الاوّلین سے مراد ہوں تمام انبیاء کے صحابی اور ان کے تابعی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کے صحابی اور تابعی بھی داخل ہیں کیونکہ یہ لوگ آئندہ اتباع کرنے والوں سے سابق اور اوّل تھے۔ اس کی تائید کر رہی ہے آیت : وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍٍ اور اَ لْاٰخِرِیْنَ سے مراد ہوں قیامت کے قریب آنے والے۔ اس امت کے افراد اس طرح اہل قرب تو تھوڑے سے ہوں گے اور اصحاب الیمین اس امت میں بھی بہت ہوں گے اور دوسری امتوں میں بھی ‘ اس کی تائید ہوتی ہے رسول اللہ کے اس قول سے کہ میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت میں آدھے ہو گے اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ اسّی صفیں تمہاری ہوں گی اور چالیس صفیں باقی امتوں کی۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ایک روز رسول اللہ ﷺ برآمد ہوئے اور فرمایا : میرے سامنے تمام امتیں لائی گئیں اور ان کے ساتھ ان کے انبیاء گزرتے رہے تو کسی نبی کے ساتھ ایک ہی آدمی (یعنی امتی) تھا ‘ کسی نبی کے ساتھ دو آدمی ‘ کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت اور کسی نبی کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا ‘ پھر میں نے اتنی کثیر جماعت دیکھی کہ اس نے آفاق سماء کو بند کردیا تھا اور مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور ان کے ساتھ ستّر ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں چلے جائیں گے یہ وہ مؤمن ہوں گے جو فال نہیں لیتے ‘ منتر نہیں پڑھتے ‘ داغ نہیں لگاتے اور اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ حضرت عکاشہ ؓ بن محصن یہ سن کر آگے بڑھے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا میں ان میں سے ہوں ؟ فرمایا : ہاں ! اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا : کیا میں ان میں سے ہوں ؟ فرمایا : اس میں عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا۔ بغوی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات میرے سامنے انبیاء مع اپنے متبعین کے لائے گئے ‘ یہاں تک کہ موسیٰ بنی اسرائیل کے ہجوم کے ساتھ میرے سامنے آئے ‘ میں نے ان کو دیکھ کر تعجب کیا اور عرض کیا : اے میرے رب ! یہ کون ہیں ؟ کہا گیا : یہ تمہارے بھائی موسیٰ ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں ‘ میں نے عرض کیا : اے میرے ربّ ! میری امت کہاں ہے ؟ جواب دیا گیا : اپنی دائیں طرف دیکھو (میں نے دیکھا) تو مکہ کی زمین لوگوں کے چہروں سے (یعنی سروں سے) بھری نظر آئی ‘ کہا گیا : یہ آپ کی امت ہے ‘ کیا تم خوش ہوئے ؟ میں نے عرض کیا : اے میرے ربّ ! میں راضی ہوں ‘ کہا گیا : اپنے بائیں جانب دیکھو ‘ میں نے دیکھا تو لوگوں کے چہروں کی کثرت اتنی تھی کہ افق بند ہوگیا تھا ‘ کہا گیا یہ تمہاری امت ہے ‘ کیا تم راضی ہو ؟ میں نے عرض کیا : اے میرے ربّ ! میں راضی ہوں۔ کہا گیا کہ ان کے ساتھ ستّر ہزار اور ہوں گے جو بلا حساب جنت میں جائیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اگر تم ان ستّر ہزار میں شامل ہوسکتے ہو تو ہوجاؤ اور اگر نہیں ہوسکتے اور (ان میں شامل ہونے سے) قاصر ہو تو دائیں والوں میں سے ہوجاؤ اور اگر ان میں شامل ہونے سے بھی قاصر ہو تو افق (بند کرنے) والوں میں سے ہوجاؤ کیونکہ میں نے وہاں بہت سے لوگوں کو مخلوط (کچھ اچھے ‘ کچھ برے عمل والے) دیکھا تھا۔
Top