Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 160
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا١ۚ وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
مَنْ : جو جَآءَ بالْحَسَنَةِ : لائے کوئی نیکی فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَشْرُ : دس اَمْثَالِهَا : اس کے برابر وَمَنْ : اور جو جَآءَ بالسَّيِّئَةِ : کوئی برائی لائے فَلَا يُجْزٰٓى : تو نہ بدلہ پائے گا اِلَّا مِثْلَهَا : مگر اس کے برابر وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : نہ ظلم کیے جائیں گے
اور جو کوئی (خدا کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسے ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالہا . جو ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ میرے خیال میں اس جگہ ایک شبہ ہوسکتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ نیکی بدی کا بدلہ صرف خدا کا مقرر کردہ ہے رائے اور سمجھ کو اس میں کوئی دخل نہیں کیونکہ کسی عمل اور اس کے بدلہ میں کوئی مشابہت نہیں (نیکی یا گناہ ایک قول یا عمل ہے اور اس کا بدلہ جنت کی نعمت اور دوزخ کے عذاب کی شکل میں ہوگا اور عمل و قول کی نعمت و عذاب سے کوئی مشابہت نہیں) ایک مزدور کو کام کے عوض روپیہ دیا جاتا ہے کام روپیہ کا ہم شکل نہیں ہوتا صرف مزدور اور کام لینے والا کام کی اجرت روپیہ کو قرار دے لیتے ہیں جب اچھائی برائی کے بدلہ کی مقدار اللہ کی مقرر کردہ ہے تو پھر کسی نیکی کے بدلہ کا دس گنا ہونا ناقابل تصور بھی نہیں ہے اس کا تصور اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب کسی ایک شخص کو نیکی کا بدلہ کسی خاص مقدار میں دیا جائے اور دوسرے آدمی کو اس مقدار کا دس گنا دے دیا جائے مثلاً ایک کام کی اجرت ایک مزدور کو طے شدہ تجویز کے تحت ایک روپیہ دیا جائے اور دوسرے مزدور کو دس روپے دیئے جائیں لیکن اگر سب کو دس دس روپیہ دیئے جائیں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مزدوری دس گنا دی گء دس کا اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایک روپیہ طے شدہ ہو پس کسی نیکی کا دس گنا ثواب اسی وقت دیا جاسکتا ہے جب کسی ایک شخص کو اسی نیکی کا ایک ثواب دیا جائے لیکن جب از روئے آیت حکم میں عموم مانا جائے اور ہر شخص کو ایک نیکی کا دس گنا ثواب قرار دیا جائے تو چونکہ دس گنے کی مقدار کا تعین ہی نہیں کیا جاسکتا اس لئے آیت کا مطلب واضح نہیں ہوتا۔ اس شبہ کو دور کرنے کے لئے میرے نزدیک ظاہر یہ ہے کہ آیت کے حکم میں عموم نہیں بعض لوگوں کو نیکی کے ثواب کی ادنیٰ مقدار بھی دی جائے گی جو اللہ کے علم میں طے شدہ ہے پھر دوسرے لوگوں کا جتنا اخلاص نیت بڑھتا جائے گا اللہ کی مہربانی جس کسی کے حال پر زیادہ ہوتی جائے گی اتنا ہی اجر تفضلی بڑھتا جائے گا جس کو چاہے گا وہ دس گنا دے گا اور جس کو چاہے گا ستر گنا اور جس کو چاہے گا سات سو گنا یا چند دو چند ان گنت بےحساب۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ حدیث اسی مفہوم پر دلالت کر رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی اپنے اسلام کو خوب ٹھیک کرلے تو پھر ایک نیکی کرے گا تو اس کے لئے اس جیسی نیکیاں دس گنے سے لے کر سات سو گنا تک لکھی جائیں گی اور اگر کوئی بدی کرے گا تو اتنی ہی بدی لکھی جائے گی یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملے۔ متفق علیہ۔ اس فرمان میں رسول اللہ ﷺ نے چند گنا کرنے کو حسن اسلام سے وابستہ کیا اور حسن اسلام صرف دل کی صفائی اور نفس کے بعد ہی عمل میں اخلاص پیدا ہوتا ہے۔ ایک جواب یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ امتوں کے لئے ایک نیکی کا جتنا ثواب مقرر کیا گیا تھا اس سے دس گنا ثواب اس نیکی کا امت محمدیہ کے لئے مقرر کیا گیا ہے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لوگوں کی میعاد گزشتہ امتوں کی میعاد کی نسبت سے ایسی ہے جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت اور یہود و نصاریٰ کی حالت کے مقابلہ میں تم لوگوں کی حالت ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کام کرنے کے لئے کچھ مزدور رکھے اور کہہ دیا کہ جو شخص دوپہر تک کام کرے گا اس کو ایک ایک قیراط ملے گا۔ یہودیوں نے اس قول کے مطابق ایک ایک قیراط مزدوری پر آدھے دن کام کیا پھر اس شخص نے کہا اب جو شخص دوپہر سے عصر کی نماز تک کام کرے گا اس کو ایک ایک قیراط ملے گا اس قول کے مطابق نصاریٰ نے دوپہر سے تک ایک ایک قیراط پر کام کیا پھر اس شخص نے کہا اب جو شخص عصر کی نماز سے سورج غروب ہونے تک کام کرے گا اس کو دو دو قیراط ملیں گے۔ سنو۔ تم ہی وہ لوگ ہو جو عصر سے مغرب تک کام کرو گے اور دوہرا اجر پاؤ گے۔ یہ فیصلہ سن کر یہودی اور عیسائی ناراض ہوگئے اور بولے کام تو ہمارا زیادہ اور اجرت سب سے کم۔ اللہ نے فرمایا تو کیا میں نے تمہاری کچھ حق تلفی کرلی انہوں نے جواب دیا یہ بات تو نہیں ہوئی اس پر اللہ نے فرمایا پھر یہ مہربانی ہے جس کو چاہتا ہوں دیتا ہے۔ رواہ البخاری۔ میں کہتا ہوں اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کے نیک عمل کا گزشتہ امتوں کے نیک اعمال سے دو گنا ثواب ملے گا دس گنا ثواب ملنا اس سے ثابت نہیں ہوتا اس لئے اول الذکر جواب ہی زیادہ صحیح ہے۔ پس ایسا ہوسکتا ہے کہ اس امت کے ادنیٰ نیکوکار کو گزشتہ امتوں کے نیکو کاروں کے مقابلہ میں کم سے کم دوہرا ثواب دیا جائے پھر عمل میں جتنا خلوص بڑھتا جائے اور اللہ کی مہربانی میں جس قدر اضافہ ہو اتنی ہی مرتبہ میں ترقی ہوتی جائے۔ ومن جآء بالسیءۃ فلا یجزی الا مثلہا . اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنی ہی سزا دی جائے گی۔ کسی کی بدی (کی سزا) میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ وہم لا یظلمون . اور ان کی حق تلفی نہیں کی جائے گی (ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا) حضرت ابوذر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے ارشاد فرمایا ہے من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالہا : اور میں اس پر زیادتی کرتا ہوں (کہ اللہ نے وحی غیر متلو میں یہ بھی فرمایا ہے) کہ جو شخص بدی لے کر آئے گا اس کی بدی کی سزا بقدر بدی ہوگی اور میں معاف بھی کر دوں گا (جس کو چاہوں گا) جو بالشت بھر میرے قریب آئے گا میں ایک ہاتھ اس کے قریب آجاؤں گا اور جو ایک ہاتھ میرے قریب آئے گا میں ایک گز اس کے قریب ہوجاؤں گا جو میرے پاس معمولی چال سے آئے گا میں اس کے پاس لپک کر آؤں گا اور جو مجھ سے زمین بھر گناہوں کے ساتھ ملے گا بشرطیکہ مشرک نہ ہو۔ میں اس سے اتنی ہی مغفرت کے ساتھ ملوں گا۔ رواہ البغوی۔ اس آخری جملہ کا معنی یہ ہے کہ اگر میں چاہوں گا تو اتنی ہی مغفرت کے ساتھ اس سے ملوں گا (یعنی گناہوں کو بخشنا لازم نہیں بلکہ میری مشیت پر موقوف ہے میں چاہوں گا تو سارے گناہ معاف کر دوں گا اور مغفرت کرنی نہ چاہوں گا تو گناہوں کی سزا دوں گا) کیونکہ جزاء سیءۃ بمثلہا : بھی اللہ کا قول ہے (کہ گناہ کے بقدر گناہ کی سزا ہوگی) بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا آیت میں صدقات کے علاوہ دوسری نیکیاں مراد ہیں کیونکہ صدقات کا ثواب تو سات سو گنا تک چند در چند ہوتا جائے گا۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت ابن عمر ؓ کی اس تشریح کی علت یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ ماۃ حبۃ واللہ یصاعف لمن یشآء : اور حضرت ابن عمر ؓ کے نزدیک یہ حکم صرف صدقات کے ساتھ مخصوص ہے (یعنی اس آیت میں جو سات سو گنا ثواب ملنے کی صراحت فرمائی ہے وہ صرف مالی خیرات سے تعلق رکھتی ہے) حالانکہ مالی صدقات کے ساتھ اس حکم کی خصوصیت نہیں ہے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ہر تسبیح (ایک بار سبحان اللہ پڑھنا) صدقہ ہے ہر تحمید (ایک بار الحمد للہ) کہنا صدقہ ہے ہر تہلیل (ایک بار لا الہ الا اللہ کہنا) صدقہ ہے اور ہر تکبیر (ایک بار اللہ اکبر کہنا) صدقہ ہے۔ رواہ مسلم و ابو داؤد و ابن ماجۃ من حدیث ابی ذرہ ؓ بلکہ اللہ کے ذکر کا ثواب صدقات سے زائد ہے۔ حضرت ابو الدرداء کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو ایسی چیز بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال سے بہتر اور تمہارے مالک کے نزدیک پاکیزہ تر اور تمہارے درجات کو سب اعمال سے زیادہ اونچا کرنے والی ہے اور سونا چاندی خیرات کرنے سے بھی اعلیٰ ہے اور دشمن کا مقابلہ کر کے ان کی گردنیں کاٹنے اور اپنے گلے کٹوانے سے بھی افضل ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا ضرور فرمائیے ارشاد فرمایا اللہ کی یاد۔ رواہ ابن ماجۃ والحاکم والترمذی و احمد۔ طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے ذکر سے افضل کوئی صدقہ نہیں۔ واللہ اعلم۔
Top