Tafseer-e-Mazhari - Al-Waaqia : 30
وَّ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍۙ
وَّظِلٍّ : اور سائے مَّمْدُوْدٍ : لمبے
اور لمبے لمبے سایوں
اور وسیع سایہ وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ : ممدود پھیلا ہوا جیسا طلوع آفتاب سے پہلے ہوتا ہے یا ممدود سے مراد ہے دوامی سایہ جو سورج کی وجہ سے مفقود نہ ہو ‘ عرب ہر غیر منقطع چیز کو ممدود کہتے ہیں۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک درخت ہے ‘ جس کے سایہ میں گھوڑے کا سوار سو برس چلنے کے بعد بھی اس کو طے نہیں کرسکے گا ‘ اگر تم (اس کا ثبوت) چاہتے ہو تو پڑھو : وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ۔ امام احمد کی روایت بھی اسی طرح ہے لیکن اس کے آخر میں اتنا زائد ہے کہ اس کے پتے جنت کو ڈھانک لیں گے۔ ہناد بن سری نے الزہد میں یہ بھی کہا ہے کہ اس حدیث کی اطلاع کعب کو پہنچی تو انہوں نے کہا : قسم ہے اس خدا کی جس نے موسیٰ پر توریت اور محمد ﷺ پر قرآن نازل کیا۔ اگر کوئی شخص پنج سالہ یا چار سالہ اونٹ پر سوار ہو کر اس درخت کے چکر لگائے گا تو بوڑھا ہونے تک اس کا چکر پورا نہ کرسکے گا اور گرجائے گا۔ اللہ نے اپنے ہاتھ سے اس کو بویا ہے اور اس کی ٹہنیاں جنت کے احاطہ کے باہر تک چھائی ہوئی ہیں۔ جنت کے اندر جو دریا ہے وہ اسی درخت کی جڑ سے نکلا ہے۔ بغوی نے بروایت عکرمہ ” و ظل ممدود “ کی تشریح کے ذیل میں حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جنت کے اندر ساق عرش پر ایک درخت ہے۔ اہل جنت اس کی جڑ کے پاس بیٹھ کر باتیں کریں گے اور بعض لوگ دنیوی کھیل کے خواہش مند ہوں گے ‘ اس وقت اللہ جنت کی ایک ہوا بھیج دے گا جس سے وہ درخت حرکت میں آجائے گا اور اس سے دنیا کے ہر کھیل کی آوازیں نکلیں گے۔
Top