Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 30
وَّ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍۙ
وَّظِلٍّ : اور سائے مَّمْدُوْدٍ : لمبے
اور لمبے لمبے سایوں میں
اور یہ لوگ لمبے لمبے سایوں میں ہوں گے 30 ؎ عرب جیسے ملک میں جو بہت گرم ملک ہے اور جہاں سایہ دار درخت بہت کم ہوتے ہیں اور اگر ہوتے بھی ہیں تو وہ پہاڑی علاقہ کی وجہ سے جھاڑیاں اور جھائو کی مانند ہی ہوتے ہیں وہاں گھنے اور لمبے سایہ کا تصور بہت خوبصورت تصور ہے اور جو سایہ بہت دور تک پھیلا ہو ہو اس کی افادیت اور خوبصورتی بہت ہی طبیعت کو بھاتی ہے اور فطری چیز ہے کہ جچیز کی جہاں کمی ہو وہاں اس کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں جہاں اس چیز کی بہتات ہو اس کی قدر و قیمت بھی بہت کم ہوتی ہے اور اس وقت عرب کے ان علاقوں میں بھی بڑے بڑے سایہ دار درخت لگوائے جا رہی ہیں جہاں آج سے پہلے کبھی تصور بھی ان کا نہیں کیا جاسکتا تھا اور بہت محنت سے ان کی پرورش کی جا رہی ہے اور اس وقت تقریباً ان کوششوں میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی نظر آ رہے ہیں لیکن اب بھی سایہ دار درختوں کا تصور وہاں کی سرزمین کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے اور جنت کی سائے تو بہرحال وہاں کی ساری چیزوں کی طرح کبھی ختم نہیں ہوں گے کیونکہ ج طرح یہاں کی ہرچیز فانی ہے وہاں کی ہرچیز کو دوام ہے خواہ اس کا ذکر کیا جائے یا نہ کی اجائے اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ جس طرح دنیا کی ہرچیز کا لطف اور مزہ موت سے ہوتا ہے اسی طرح آخرت کی ہرچیز کا لطف اور مزہ دوام سے ہے یہاں اگر موت نہ ہوتی تو زندگی کا کوئی لطف نہ ہوتا اور وہاں اس کا بالکل عکس ہے اس لئے دنیا دنیا ہے اور آخرت بہرحال آخرت ہی ہے اور دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ضدین کبھی اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔
Top