Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 267
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والو) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاکیزہ مَا : جو كَسَبْتُمْ : تم کماؤ وَمِمَّآ : اور سے۔ جو اَخْرَجْنَا : ہم نے نکالا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین وَلَا : اور نہ تَيَمَّمُوا : ارادہ کرو الْخَبِيْثَ : گندی چیز مِنْهُ : سے۔ جو تُنْفِقُوْنَ : تم خرچ کرتے ہو وَلَسْتُمْ : جبکہ تم نہیں ہو بِاٰخِذِيْهِ : اس کو لینے والے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ تُغْمِضُوْا : تم چشم پوشی کرو فِيْهِ : اس میں وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَمِيْدٌ : خوبیوں والا
مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہوں اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سےنکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو۔ اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو۔ اور جان رکھو کہ خدا بےپروا (اور) قابل ستائش ہے
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ : اے اہل ایمان اپنی پاکیزہ کمائی میں سے راہ خدا میں خرچ کرو۔ طیّبات سے مراد عمدہ کھری چیزیں۔ لیکن حضرت ابن مسعود ؓ اور مجاہد نے اس کی تشریح میں فرمایا : کہ حلال چیزیں مراد ہیں حضرت ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ حرام مال کما کر اس میں سے خیرات کرتا ہے اس کی خیرات قبول نہیں ہوتی۔ نہ حرام مال خرچ کرنے میں برکت حاصل ہوتی ہے اور جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہ دوزخ تک جانے کا اس کے لیے سامان ہوجاتا ہے وہ برے ( عذاب) کو بری ( کمائی کی) خیرات سے مٹا نہیں سکتا بلکہ برے کو بھلے سے مٹا سکتا ہے ناپاک سے ناپاک دور نہیں ہوتا۔ ( رواہ احمد) یہ آیت اجماع علماء اور جمہور اہل سنت کی بڑی پکی دلیل ہے داؤد (ظاہری) کے اس قول کے خلاف کہ سوائے مویشی اور سونے چاندی کے اور کسی چیز میں زکوٰۃ واجب نہیں جمہور کے نزدیک منقولہ اور غیرمنقولہ چیزوں پر بشرطیکہ تجارت کی ہوں زکوٰۃ واجب ہے۔ تجارت کی شرط اس لیے ہے کہ مال زکوٰۃ کا نامی ہونا شرط ہے اور سامان میں بغیر نیت تجارت کے نمو نہیں ہوسکتا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : سامان میں زکوٰۃ واجب نہیں سوائے اس سامان کے جو تجارت کے لیے ہو۔ ( رواہ الدار قطنی) حضرت سمرہ ؓ بن جندب کا بیان ہے کہ ہم کو سامان تجارت کی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم رسول اللہ دیا کرتے تھے۔ ( رواہ ابو داؤد والدار قطنی والبزار) بزار نے سلیمان بن سمرہ کی روایت بھی بحوالہ سمرہ نقل کی ہے لیکن اس روایت کی اسناد میں کچھ جہالت ہے۔ ( بعض راوی مجہول ہیں) سامان میں زکوٰۃ کا وجوب اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جو حماس نے روایت کی ہے حماس کا بیان ہے کہ کچھ کچے چمڑے اپنی گردن پر اٹھائے میں حضرت عمر ؓ کی طرف سے گذرا۔ امیر المؤمنین نے فرمایا : حماس تم زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ میں نے عرض کیا۔ میرے پاس تو سوائے اس کے اور کوئی مال نہیں۔ فرمایا : یہ تو مال ہے نیچے اتارو میں نے اتار کر آپ کے سامنے رکھ دیا آپ نے ان کی گنتی کی اور قابل زکوٰۃ پایا اور فرمایا : ان کی زکوٰۃ واجب ہے چناچہ ان چمڑوں کی آپ ﷺ نے زکوٰۃ وصول کرلی۔ ( رواہ الشافعی و احمد و عبد الرزاق وابن ابی شیبۃ و سعید بن منصور والدار قطنی) حضرت ابوذر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : اونٹوں میں ان کی زکوٰۃ اور گائے بھینسوں میں ان کی زکوٰۃ اور کپڑے میں اس کی زکوٰۃ واجب ہے اس روایت میں اَلْبَزِّ زاء منقوطہ کے ساتھ آیا ہے دار قطنی نے اس حدیث کو تین کمزور طریقوں سے نقل کیا ہے۔ دو طریقوں میں موسیٰ بن عبیدہ زیدی آتا ہے جس کے متعلق امام احمد (رح) نے کہا ہے کہ اس کی روایت لینا جائز نہیں اور تیسرے طریقہ میں عبد اللہ بن معاویہ بن عاصم آتا ہے جس کو نسائی نے ضعیف اور بخاری نے منکر قرار دیا ہے اسی طریقہ میں ایک راوی ابن جریح بھی ہے جس نے عمران بن انیس سے سن کر یہ حدیث نقل کی ہے لیکن بخاری نے کہا کہ ابن جریح نے عمران بن انیس سے حدیث نہیں سنی۔ ایک چوتھے سلسلہ سے دارقطنی اور حاکم نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے اونٹوں میں ان کی زکوٰۃ اور بکریوں میں ان کی زکوٰۃ اور گائے بھینسوں میں ان کی زکوٰۃ اور کپڑے میں اس کی زکوٰۃ واجب ہے اور جو شخص درہم یا دینار اٹھا رکھے گا کہ نہ قرض خواہ کو دے گا نہ راہ خدا میں خرچ کرے گا تو حقیقتاً یہ اس کے لیے کنز ہوگا جس سے قیامت کے دن اس کو داغا جائے گا۔ اس اسناد میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ علامہ ابن دقیق العید کا بیان ہے کہ میں نے ( حاکم کی کتاب) مستدرک کے نسخہ میں البز کی جگہالبر ( گیہوں) دیکھا تھا۔ اگر کسی تجارتی سامان کو چند سال تک فروخت نہ کرے تو اس مسئلہ میں علماء کے اقوال مختلف ہیں امام مالک (رح) کے نزدیک زکوٰۃ واجب نہیں خواہ کتنا ہی طویل زمانہ گذر جائے لیکن جب فروخت کرے گا تو صرف ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی باقی تینوں اماموں (امام اعظم ابوحنیفہ ‘ امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ ) کے نزدیک ہر سال کی زکوٰۃ واجب ہے خواہ فروخت نہ کرے کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جو سامان تجارت کے لیے ہو اس کی زکوٰۃ دی جائے اور یہ حکم عمومی ہے خواہ فروخت کیا جائے یا نہ کیا جائے ( وجوب میں کوئی فرق نہیں آتا) ۔ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۠ : اور ان چیزوں میں سے کچھ راہ خدا میں خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اس آیت میں صدقہ نافلہ مراد ہے ( زکوٰۃ مراد نہیں) حضرت انس بن مالک ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان کوئی درخت یا کھیت بوتا ہے اور اس میں سے کوئی آدمی یا پرندے یا چوپائے کھاتے ہیں تو مالک کے لیے وہ خیرات ہوتی ہے ( یعنی خیرات کا ثواب رکھتی ہے) ۔ (رواہ احمد والشیخان والترمذی) میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں اس حدیث میں معلوم ہوتا ہے کہ کھیتی کرنی مستحب ہے لیکن حضرت ابو امامہ ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : یہ یعنی کھیتی کے اوزار جس قوم کے گھر میں داخل ہوتے ہیں اس قوم کے اندر ذلت داخل ہوجاتی ہے۔ ( رواہ البخاری) یہ حدیث کاشتکاری کی نحوست پر دلالت کر رہی ہے۔ وا اللہ اعلم۔ صحیح یہ ہے کہ آیت مذکورہ زکوٰۃ کے متعلق ہے کیونکہ امر وجوب کے لیے ہے استحباب پر محمول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پس زمین کی پیداوار کا عشر دینا اس آیت کی روشنی میں واجب ہے۔ (مسئلہ) علماء کا اتفاق ہے کہ کھجور، انگور اور ہر قسم کے غذائی غلہ میں دسواں حصہ ادا کرنا واجب ہے بشرطیکہ سنچائی بارش چشمے وادی اور دریا کے پانی سے ہو جس کو حاصل کرنے کے لیے ( کھدائی وغیرہ کی) کوئی مشقت اٹھانی نہیں پڑتی۔ لیکن اگر آب پاشی ڈول یا چرس وغیرہ سے ہو تو پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہے۔ گھاس اور ایندھن کی لکڑی پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ بشرطیکہ زمین اس کے لیے محفوظ نہ کردی گئی ہو۔ اقسام مذکورہ کے علاوہ دوسری پیداوار کی زکوٰۃ واجب ہونے میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ہر قسم کے غلہ پھل اور سبزی میں زکوٰۃ واجب ہے کیونکہ آیت مذکورہ کا حکم عام ہے اس کے علاوہ رسول اللہ کا بھی فرمان ہے کہ جو چیز بارش اور چشموں کے پانی سے سیراب ہو یا عشری ہو اس میں عشر لازم ہے اور جس کی سنچائی آب پاشی سے ہو اس میں نصف عشر ( بیسواں حصہ) لازم ہے۔ یہ حدیث حضرت ابن عمر کی روایت سے بخاری، ابو داؤد، نسائی، ابن حبان اور ابن جارود (رح) نے نقل کی ہے اور مسلم (رح) نے حضرت جابر ؓ کی روایت سے اور ترمذی (رح) و ابن ماجہ (رح) نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور نسائی و ابن ماجہ نے حضرت معاذ کی روایت سے اور ابو داؤد وغیرہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی روایت سے بیان کی ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک زکوٰۃ صرف اس پیداوار میں ہے جس میں غذائیت ہے جیسے کھجور، انگور، چنا، جو، گیہوں، چاول وغیرہ امام ابو یوسف، امام محمد، اور امام احمد (رح) کے نزدیک زکوٰۃ کا وجوب اس گیلی اور وزنی چیز میں ہے جو لوگوں کے پاس ( بطور ذخیرہ) رہ سکتی ہو ( ذخیرہ کرکے رکھنے سے خراب نہ ہوتی ہو) جیسے تل، بادام، فندق، پستہ، زعفران، زیرہ کسم کے بیج وغیرہ۔ سبزی میں زکوٰۃ واجب نہ ہونے کی دلیل حضرت معاذ کی حدیث ہے کہ جس کی سینچائی بارش یاد ریائی پانی سے ہو اس میں عشر ہے اور جس کی سیرابی آب کشی سے ہوئی ہو اس میں نصف عشر ہے اور یہ زکوٰۃ کھجور، گیہوں اور غلہ میں ہے کھیرا، ککڑی، خربوزہ، تربوز، انار، گنا اور سبزیاں معاف ہیں۔ رسول اللہ نے ان میں زکوٰۃ معاف کردی ہے۔ ( رواہ الدار قطنی والحاکم والبیہقی) لیکن اس حدیث کی روایت میں ضعف بھی ہے اور انقطاع بھی اس کے راویوں میں سے اسحاق اور ابن نافع ضعیف ہیں۔ یحییٰ بن معین ( مشہور ناقد) نے کہا ہے کہ اسحاق کچھ نہیں اس کی حدیث نہ لکھی جائے اور امام احمد اور نسائی نے اس کو متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ ترمذی کی روایت بایں الفاظ آئی ہے کہ حضرت معاذ ؓ نے رسول اللہ سے لکھ کر پوچھا کہ سبزی ترکاری کا کیا حکم ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : ان میں زکوٰۃ نہیں۔ یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ ترمذی نے لکھا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ رسول اللہ کے کسی فرمان کا اس بارے میں صحیح ثبوت نہیں۔ ہاں موسیٰ بن طلحہ ؓ نے رسول اللہ سے مرسل نقل کی ہے 1 ؂۔ دار قطنی نے علل میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کا مرسل ہونا صحیح ہے۔ بیہقی نے موسیٰ بن طلحہ کی حدیث سے اس کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ ہمارے پاس حضرت معاذ کا ( وہ) خط ہے۔ حاکم نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور لکھا ہے کہ موسیٰ جلیل القدر تابعی تھے اور کوئی شک نہیں ہے کہ ان کی ملاقات حضرت معاذ سے ہوئی تھی لیکن ابن عبد البر کا قول ہے کہ موسیٰ نے نہ حضرت معاذ ؓ سے ملاقات کی نہ ان کا زمانہ پایا۔ دارقطنی نے چند طریقوں سے موسیٰ بن طلحہ بروایت طلحہ ؓ مرفوعاً نقل کیا ہے کہ سبزیوں میں زکوٰۃ نہیں ہے اس روایت کے ایک طریق اسناد میں حراث بن نبہان ہے جس کا ضعف ایک جماعت کے اقوال سے منقول ہے اور دوسرے طریق میں نصر بن حماد واقع ہے جس کو یحییٰ نے کذاب کہا ہے اور یعقوب بن ابی شیبہ نے کہا ہے کہ یہ کچھ نہیں ہے اور مسلم نے اس کو ضعیف الحدیث قرار دیا ہے۔ تیسرے طریق میں محمد بن جابر ؓ داخل ہے جو کچھ نہیں ہے۔ اس کے متعلق امام احمد (رح) نے کہا کہ اس کی روایت کردہ حدیث وہی نقل کرے گا جو اس سے بھی زیادہ شریرہو گا۔ دارقطنی نے مردان بن محمد سخاوی کے طریق سے بروایت موسیٰ بن طلحہ حضرت انس ؓ کی حدیث بیان کی ہے لیکن مردان بن محمد کی روایت کو دلیل میں پیش کرنا درست نہیں۔ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں موسیٰ بن طلحہ کا قول نقل کیا ہے کہ سوائے گیہوں، جو، کھجور، انگور اور کشمش کے اور چیزوں میں زکوٰۃ واجب نہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ حضرت معاذ کے نام جو خط رسول اللہ نے بھیجا تھا وہ معاذ ؓ کے پاس سے ہم کو ملا ہے۔ تحقیق یہ ہے کہ موسیٰ بن طلحہ ؓ سے مرسل حدیث صحیح ہے۔ ترمذی وغیرہ کی یہی رائے ہے اور مرسل قابل حجت ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ دوسری روایات بھی اس کی تائید میں موجود ہیں جن کو مختلف سندوں سے ہم نقل کرچکے ہیں پھر دار قطنی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جو مرفوع حدیث نقل کی ہے وہ بھی مؤید ہے اگرچہ اس کے سلسلہ میں صقر بن حبیب داخل ہے جو بہت ضعیف ہے۔ امام ابو یوسف (رح) نے حضرت علی ؓ والی حدیث کو موقوفاً نقل کیا ہے اس کے سلسلہ میں قیس بن ربیع آتا ہے جو ہے تو سچا لیکن اس کا حافظہ قوی نہیں۔ دارقطنی نے حضرت عائشہ ؓ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ زمین سے پیدا شدہ سبزی ( ترکاری) میں زکوٰۃ نہیں ہے اس کے سلسلے میں صالح بن موسیٰ واقع ہے جو بخاری کے نزدیک منکر الحدیث اور نسائی کے نزدیک متروک الحدیث ہے۔ محمد بن جحش کا ایک بیان ہے کہ حضرت معاذ ؓ کو یمن بھیجتے وقت رسول اللہ نے حکم دیا تھا کہ ہر چالیس دینار پر ایک دینار لینا اور سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ یہ بیان بھی دارقطنی نے نقل کیا ہے اس میں صالح بن موسیٰ داخل ہے ( جو منکر اور متروک ہے) اس جگہ ہم کچھ دوسری احادیث بھی نقل کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سواء کھجور، کشمش، گیہوں اور جوَ کے اور کسی پھل پر زکوٰۃ نہیں ہے بس انہی چار پر زکوٰۃ واجب ہے۔ حاکم اور بیہقی نے ابو بردہ ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ اور حضرت معاذ کو تعلیم دین کے لیے یمن بھیجا تو بقول حضرت ابو موسیٰ ان کو حکم دیا کہ سوائے ان چار چیزوں کے اور کسی چیز پر زکوٰۃ نہ وصول کرنا جو گیہوں، کشمش اور چھوارہ۔ بیہقی نے لکھا کہ اس حدیث کا سلسلہ متصل ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ طبرانی نے بروایت موسیٰ بن طلحہ حضرت عمر کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے ان چار چیزوں میں زکوٰۃ کا طریقہ جاری فرمایا۔ دارقطنی نے اس حدیث کو بروایت عمرو بن شعیب از شعیب بحوالۂ والد شعیب (رح) بیان کیا ہے۔ امام ابو یوسف (رح) نے بروایت موسیٰ بن طلحہ حضرت عمر کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : زکوٰۃ واجب نہیں ہے مگر چار میں چھوارہ، کشمش، گیہوں اور جوَ ۔ بیہقی (رح) نے بروایت شعبی بیان کیا کہ رسول اللہ نے اہل یمن کو لکھا تھا زکوٰۃ صرف چار میں واجب ہے گیہوں، جو، چھوارہ اور کشمش۔ ان چار کے ساتھ ایک پانچویں چیز یعنی جوار میں بھی زکوٰۃ واجب ہونے کی روایت آئی ہے لیکن یہ روایت ضعیف اور کمزور ہے۔ میں کہتا ہوں جب علماء کا اجماع اور اتفاق ہوگیا کہ وجوب زکوٰۃ کا حصر مذکورہ بالا چار چیزوں پر ہی نہیں ہے تو لا محالہ حدیث کی کوئی توجیہ کرنی لازم ہے یعنی لفظ مثل کو مقدار قرار دیا جائے گا یعنی ان چاروں کی طرح چیزوں میں زکوٰۃ کا وجوب ہے ( مثلاً حدیث : لا زکٰوۃ الاَّ فی اربعۃ التمر والزبیب والحنطۃ والشعیر کی توجیہ بحذف مضاف اس طرح ہوگی کہ لا زکوٰۃ الا فی اربعۃ یعنی لا زکوٰۃ الا فی مثل اربعۃ زکوٰۃ نہیں ہے مگر ان چار ایسی چیزوں میں) پس ( جب زکوٰۃ کے وجوب کا حصر نہیں بلکہ ان کی طرح دوسری چیزوں میں بھی زکوٰۃ واجب ہے اور مثلیت اشیاء وجوب زکوٰۃ کے لیے کافی ہے تو) امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک غذائیت علت مثلیت ہے ( یعنی جو چیزیں غذائی طور پر مستعمل ہیں ان میں زکوٰۃ واجب ہے لیکن اولیٰ یہ ہے کہ وجہ مماثلت دو اوصاف کو قرار دیا جائے ایک تو یہ کہ) ان چاروں اجناس کی طرح دوسری چیزیں مکیلی یا موزونی ہوں ( یعنی ناپ تول کر ان کا تبادلہ ہوتا ہو ‘ 12) دوسری یہ کہ ان چاروں کی طرح دوسری چیزیں ذخیرہ اندوزی کے قابل ہوں ( ذخیرہ اندوزی سے خراب نہ ہوتی ہوں ساگ پات اور سبز ترکاریاں جمع کرکے رکھ چھوڑنے سے خراب ہوجاتی ہیں) اور سبب غناء بن سکیں۔ کھیتی کی پیداوار میں سال بھر جمع رہنا شرط نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ کے وجوب کے لیے مال کا نمو شرط ہے اور غلہ تو سرا سر نامی ہی ہے یہ فیصلہ اجماعی ہے۔ مالک غلہ کا عاقل اور بالغ ہونا بھی وجوب عشر کے لیے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک شرط نہیں ہے اور دوسرے اماموں کے نزدیک تو کسی مال کے مالک کا عاقل بالغ ہونا وجوب زکوٰۃ کی شرط نہیں ہے ( یہاں تک کہ صغیر سن بچے اور دیوانے کے مال پر بھی زکوٰۃ واجب ہے) دونوں مسئلوں میں امام اعظم (رح) کے فرق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مال کی زکوٰۃ خالص عبادت ہے اور ہر عبادت کے لیے نیت ضروری ہے ( اور صحت نیت کے لیے نیت کرنے والے کا عاقل بالغ ہونا لازم ہے لہٰذا نا بالغ اور دیوانہ کے مال پر زکوٰۃ کا وجوب نہیں جس طرح ان دونوں پر نماز واجب نہیں) لیکن عشر عبادت ضرورت ہے مگر مؤ نت آمیز (گویا عشر کی دو خصوصیتیں ہیں عبادت ہونا اور مشقت آمیز ہونا) پس عبادت ہونے کے لحاظ سے عشر دینے والے کا مسلمان ہونا شرط ہے کافر پر عشر نہیں خراج لازم جیسے عشری زمین کو اگر غیر مسلم خرید لے تو جمہور کے نزدیک اس کے ذمہ خراج ہوگا عشر نہ ہوگا۔ امام محمد عشری زمین میں عشر ہی لازم ہونے کے قائل ہیں ( خواہ اس کا مالک مسلم ہو یا غیر مسلم) اور مؤنت مالی ہونے کے لحاظ سے بچہ اور دیوانہ پر بھی عشر واجب ہے۔ جیسے بیوی کا نفقہ وغیرہ ان کے مال میں لازم ہے 1 ؂۔ کیا پیداوار پر عشر لازم ہونے کے لیے مقدار نصاب شرط ہے ؟ امام اعظم (رح) کے نزدیک مقدار نصاب شرط نہیں ہے بلکہ پیداوار کتنی ہی ہو عشر واجب ہے۔ کیونکہ احادیث مذکورہ میں الفاظ عام ہیں۔ عمر بن عبد العزیز مجاہد اور ابراہیم نخعی کا بھی یہی قول ہے عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ نے مؤخر الذکر تینوں حضرات کی طرف اس قول کی نسبت کی ہے کہ زمین پیداوار میں عشر واجب ہے پیداوار کم ہو یا زیادہ۔ نخعی کے قول میں اتنا زائد ہے یہاں تک کہ دس دستج میں بھی ایک دستج ہے۔ امام ابو یوسف (رح) نے بھی امام ابوحنیفہ (رح) کی روایت سے بوساطت حماد، ابراہیم نخعی کا قول اسی طرح نقل کیا ہے۔ لیکن امام مالک (رح) ، امام شافعی، (رح) امام احمد (رح) ، امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد کے نزدیک عشر کے لیے نصاب شرط ہے اور مقدار نصاب پیمانہ سے ناپ کر بیچے جانے والی چیزوں میں پانچ وسق ہے ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے ( اور ایک صاع رائج الوقت وزن سے تقریباً چار سیر ہوتا ہے ‘ 12) اور جو چیزیں وسق کے ناپ سے نہیں فروخت ہوتیں۔ ان میں وہ مقدار عددی معتبر ہے جس سے ان چیزوں کی فروخت ہوتی ہے پس ہر پانچ عدد ان کی مقدار نصاب ہوگی مثلاً روٹی کی پانچ گانٹھیں مقدار نصاب ہیں ہر گانٹھ کا وزن تین سو سیر۔ زعفران پانچ سیر۔ وغیرہ پانچ وسق غلہ کی قیمت کا اندازہ ادنیٰ غلہ سے کیا جائے گا۔ یہ قول امام ابو یوسف (رح) کا ہے۔ جمہور کے نزدیک جو عشر کے لیے مقدار نصاب شرط ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں۔ (رواہ البخاری ومسلم من حدیث ابی سعید الخدری) مسلم نے یہ روایت حضرت جابر ؓ کے حوالہ سے بھی بیان کی ہے اور دارقطنی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اور حضرت عائشہ ؓ کے حوالہ سے بھی اور بیہقی نے حضرت عمرو بن حزم کی روایت سے۔ (مسئلہ) ہر زمین کی پیداوار پر عشر واجب ہے آیت کا حکم مطلق ہے کسی خاص قسم کی زمین کی قید نہیں ہے اگر مسلمان خراجی زمین کا مالک ہوجائے تو ( دو صورتیں ہیں) یا خراج ساقط ہوجائے گا صرف عشر قائم رہے گا یا خراج و عشر دونوں قائم رہیں گے خراج زمین کا اور عشر پیداوار کا مؤخر الذکر قول جہوئر کا ہے کیونکہ خراج زمین کا ٹیکس ہے پیداوار سے اس کا تعلق نہیں اور عشر پیداوار کی زکوٰۃ ہے زمین کی زکوٰۃ نہیں۔ اسی لیے پیداوار میں ( بصورت مذکورہ) نصاب کی شرط ہے۔ امام اعظم (رح) نے فرمایا : خراجی زمین کا خراج کبھی ساقط نہیں ہوسکتا اور عشر و خراج جمع بھی نہیں ہوسکتے۔ عشر زمین کی زکوٰۃ ہے کھیتی کی نہیں اسی لیے پیداوار کا نصاب تک پہنچنا امام صاحب کے نزدیک لازم نہیں ہے۔ حقیقت میں خراج کے ساقط ہونے یا نہ ہونے کی بحث کا یہ مقام ہی نہیں ( یہ مقام صرف بیان عشر کا ہے) اور عشر و خراج کے جمع ہونے کی ممانعت پر کوئی شرعی دلیل نہیں ( لہٰذا جمہور کے نزدیک خراجی زمین میں دونوں واجب ہیں) رہی وہ حدیث جو ابن عدی نے کامل میں اور ابن جوزی نے بروایت یحییٰ بن عنبسہ ذکر کی ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) نے بروایت حماد بتوسط ابراہیم بحوالہ علقمہ بیان کیا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان پر عشر اور خراج جمع نہیں ہوتے تو یہ روایت ہی غلط ہے۔ ابو حاتم نے کہا : یہ رسول اللہ کا کلام نہیں ہے۔ یحییٰ بن عنبسہ قریبی جھوٹا تھا اس نے خود حدیث بنا کر ابوحنیفہ (رح) اور آپ سے اوپر والے لوگوں پر دروغ بندی کی ہے۔ ابن عدی نے کہا اس اسناد کے ساتھ اس حدیث کا راوی یحییٰ بن عنبسہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں یہ ابراہیم کے قول کی نقل ہے لیکن ابراہیم قابل حجت ہے، نہ ان کا قول حجت ہے۔ اس طرح شعبی اور عکرمہ کا بھی یہی قول ہے کہ عشر اور خراج جمع نہیں ہوتے نہ کسی ایک زمین میں نہ کسی ایک مال میں۔ ان دونوں آثار کو ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے۔ صاحب ہدایہ نے اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور لکھا ہے کہ کسی فاسق یا عادل خلیفہ نے دونوں کو کبھی جمع کرنے کا حکم نہیں دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر سب کا اجماع ہے اور ایسا اجماع حجت ہے لیکن صاحب ہدایہ کا یہ دعویٰ قابل تسلیم نہیں کیونکہ ابن منذر نے بیان کیا ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے خراج و عشر کو جمع کیا تھا اور عمر بن عبد العزیز حضرت عمر ؓ کے نقش قدم پرچلنے والے تھے اگر مسئلہ اجماعی ہوتا تو عمر بن عبد العزیز (رح) سے یہ اجماع مخفی نہ رہتا۔ (مسئلہ) و مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ کے اطلاق میں معدن سے نکلنے والا چاندی سونا داخل ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا مشہور قول یہی ہے اگر مقدار نصاب کو پہنچ جائے گا تو زکوٰۃ کی طرح چالیسواں حصہ دینا ہوگا۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک اس کا مصرف بھی زکوٰۃ ہی کی طرح ہے۔ مگر امام مالک کے نزدیک اس کا مصرف مال فے ( کافروں کا جو مال بغیر جنگ کے ہاتھ آئے ‘ 12) کی طرح ہے۔ ایک روایت میں امام احمد کا بھی یہی قول ہے لیکن امام ابوحنیفہ (رح) اور ( مشہور قول کے اعتبار سے امام احمد (رح) کے نزدیک یہ آیت معدنی اشیاء (یعنی سونے چاندی) کو شامل نہیں ہے بلکہ مال غنیمت کی طرح اس میں بھی پانچواں حصہ واجب الادا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : واعلموا انما غنمتم من شئ فان اللہ خمسہ۔۔ بات یہ ہے کہ سونا چاندی زمین ہی کا ایک جزو ہے پہلے کفار کے قبضہ میں تھا پھر مسلمانوں کو مل گیا لہٰذا اس کا حکم وہی ہوگا جو کافروں کی دوسری چیزوں کا ہے۔ اسی کی موافقت میں امام شافعی کا بھی ایک قول مروی ہے ہمارے نزدیک آیت مذکورہ معدنی اشیاء ( چاندی سونے) کو شامل نہیں ہے ہمارے اس قول کی دلیل یہ ہے کہ اخراج کا حقیقی معنی ہے کسی ایسی چیز کو برآمد کرنا جو پہلے اندر موجود ہو غلہ اور پھل زمین کے اندر پہلے موجود نہیں ہوتے اس لیے ان کے لیے لفظ اخراج کا استعمال حقیقی نہیں مجازی ہے۔ ( یعنی اس جگہ اخراج کا معنی ہے پیدا کرنا) اور یہی مجازی معنی آیت میں باتفاق علماء مراد ہے اب یہ نہیں ہوسکتا کہ حقیقی معنی بھی مراد لیا جائے ( اور معدنی اشیاء کو حکم آیت میں داخل قرار دیا جائے) اور نہ حقیقت اور مجاز دونوں بیک وقت ایک جگہ جمع ہوجائیں گے اور اصول فقہ کی صراحت اس کے خلاف ہے حقیقت اور مجاز کا بیک وقت مراد لینا ناجائز ہے۔ لیکن امام شافعی حقیقت و مجاز کے اجتماع کو جائز کہتے ہیں۔ اسی آیت کی طرح آیت : اَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَآء بھی ہے اس آیت میں لمس ( چھونے) سے بالاجماع مراد مباشرت ہے۔ یعنی مجازی معنی مراد ہے لہٰذا حقیقی معنی ( یعنی چھونا) مراد نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک عورت کو صرف چھونا ناقص وضوء نہیں لیکن امام شافعی (رح) کے نزدیک عورت کو چھونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک حقیقت و مجاز دونوں کو بیک وقت مراد لینا جائز ہے۔ امام احمد (رح) کے نزدیک ہر معدنی چیز کا پانچواں حصہ واجب الاداء ہے خواہ وہ جامد ناقابل سیلان ہو جیسے جست، چونا یا جامد قابل سیلان ہو جیسے سونا ‘ چاندی ‘ لوہا وغیرہ یا سیال ہو جامد نہ ہو۔ جیسے مٹی کا تیل ‘ پٹرول ‘ تارکول وغیرہ کیونکہ اس سب کو مال غنیمت قرار دیا جاسکتا ہے (اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ واجب الادا ہے) امام اعظم (رح) کہتے ہیں کہ صرف جامد قابل سیلان اشیاء یعنی چاندی ‘ سونے ‘ لوہے وغیرہ میں پانچواں حصہ واجب ہے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ : فِی الرِّکَازِ اَلْخُمْسُ زِکَاز میں پانچواں حصہ ہے اور لفظ رکاز کا اطلاق صرف انہی چیزوں پر ہوتا ہے جو جامد قابل سیلان ہوں زمین کے اندر کی وہ چیزیں جو جامد ناقابل سیلان ہوں ( وہ رکاز نہیں ہیں) ان سے توتیمم بھی جائز ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی کے نزدیک زکوٰۃ کا وجوب صرف سونے چاندی میں ہے لوہے وغیرہ کی کان حکم وجوب سے خارج ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ثمنیت ( یعنی اشیاء کی قیمت بننے کی صلاحیت ‘ 12) جو زکوٰۃ کے لیے شرط ہے وہ صرف نمو پذیر ہونے کی وجہ سے ہے اور زمین سے جو چیز برآمد ہوتی ہے وہ تو سراسر نمو ہی ہے اس لیے غلہ پھل وغیرہ کی زکوٰۃ کے لیے باتفاق علماء سال کا دوران شرط نہیں ہے باوجودیکہ یہ چیزیں نقود میں سے نہیں ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ معدنی اشیاء کی زکوٰۃ کے لیے ان کا نقدی ہونا ( یعنی قیمت بننے کی صلاحیت رکھنا ضروری قرار دیا جائے۔ امام شافعی (رح) معدن میں وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں اس قول کی دلیل وہ حدیث ہے جو امام مالک نے موطأ میں لکھی ہے کہ ربیعہ بن عبد الرحمن نے کسی ( نامعلوم الاسم) کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ نے بلال بن حارث مزنی کو قبلہ کی طرف والی کانیں بطور جاگیر عطا فرمادیں یہ کانیں فرغ کی طرف تھیں اس وقت تک ان کانوں سے سوائے زکوٰۃ کے اور کچھ ( سرکاری طور پر) نہیں لیا جاتا۔ ابن عبد البر نے کہا موطأ میں یہ حدیث منقطع ہے ابن جوزی نے کہا ربیعہ نے صحابہ کو پایا تھا ایسی حالت میں صحابی (کے نام) کو نہ جاننا ( روایت میں) نقصان رساں نہیں اور اس کو مرسل نہیں کہا جاسکتا۔ ابو عبید ؓ نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے اور منقطع ہونے کے باوجود اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ رسول اللہ نے اس میں زکوٰۃ لینے کا حکم دیا تھا بلکہ روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آج تک ان کی زکوٰۃ لی جاتی ہے اس لیے جائز ہے کہ وصول زکوٰۃ حاکموں کا اجتہاد ہو۔ امام شافعی (رح) نے حدیث مذکور نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ علماء حدیث نے اس حدیث کو نہیں لیا ہے اور نہ ( اپنی کتابوں میں) نقل کیا ہے نہ بطور جاگیر عطا کرنے سے زائد رسول اللہ کا کوئی حکم اس میں ہے کانوں میں وجوب زکوٰۃ کا حکم رسول اللہ سے مروی نہیں ہے۔ حاکم نے مستدرک میں داروردی کا بیان لکھا ہے کہ ربیعہ نے بروایت حارث بن بلال بن حارث مزنی بیان کیا کہ رسول اللہ نے قبلہ والی کانوں کی زکوٰۃ حارث کے باپ سے لی تھی ابن جوزی نے بھی درا وردی کی یہ روایت نقل کی ہے۔ امام اعظم (رح) کی دلیل حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ وہ حدیث ہے جو صحاح ستہ میں مذکور ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : رکاز میں پانچواں حصہ ہے۔ لفظ رکازمعدن کو بھی شامل ہے اور کنز (یعنی مسلمانوں کے قبضہ سے پہلے کے گڑے ہوئے خزانہ ‘ 12) کو بھی قاموس میں رکاز کے معنی کے ذیل میں ہے کہ رکاز وہ ہے جو کانوں کے اندر اللہ پیدا کرتا ہے اور جاہلیت کے دفینے (مسلمانوں کے قبضہ سے پہلے کے گڑے ہوئے خزانے) اور کان سے برآمد ہونے والے سونے چاندی کے ٹکڑے نہایہ میں ہے کہ اہل حجاز کے نزدیک رکاز اس خزانہ کو کہتے جو جاہلیت کے زمانہ کا ہو ( یعنی مسلمانوں کے قبضہ سے پہلے کافروں نے زمین کے اندر دبا دیا ہو) اور اہل عراق کے نزدیک رکاز کان کو کہتے ہیں لفظ رکاز میں دونوں احتمال ہیں میں کہتا ہوں کہ جب رکاز کے ساتھ الف لام استغراق کا ہو تو رکاز کے تمام اقسام پر اس کا اطلاق واجب ہوگا لا محالہ کان سے برآمدہونے والی اشیاء میں پانچواں حصہ واجب الادا ہوگا بخاری کے نزدیک لفظ رکاز مشترک ہے لیکن واقعہ ایسا نہیں بلکہ رکاز کلی متواطی ہے لفظ رکاز ایک ہی معنی کے لیے موضوع ہے لیکن یہ معنی مشترک ہے ( جاہلیت کے دفینوں کو بھی کہا جاسکتا ہے اور معدنی اشیاء کو بھی کیونکہ دونوں زمین کے اندر گڑے ہوئے ہوتے ہیں) امام ابوحنیفہ ؓ کے قول کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے مرفوعاً نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : رکاز میں خمس ہے۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ رکاز کیا ہے ؟ فرمایا : سونا چاندی جو اللہ نے زمین کے اندر آسمان و زمین کی پیدائش کے دن ہی پیدا کردیا ہے۔ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام شافعی کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ دراوردی کی نقل کردہ روایت میں جو لفظ زکوٰۃ آیا ہے اس سے مجازاً خمس ( پانچواں حصہ) مراد ہے دیکھو کہ کنز میں بالاجماع خمس واجب ہے لیکن امام شافعی (رح) کے نزدیک اس کا مصرف زکوٰۃ کی طرح ہے اور لفظ زکوٰۃ کا خمس پر اطلاق ہوتا ہے۔ منہاج میں ہے کہ فقہ شافعی (رح) کے مطابق کنز کا مالک وہی ہے جس کو کنز ملا ہو اور اس پر زکوٰۃ (خمس) لازم ہے اور بالفرض اگر دونوں حدیثوں میں تعارض مان بھی لیا جائے تب بھی حدیث فی الرکاز الخمس زیادہ صحیح اور قوی تر ہے۔ وا اللہ اعلم۔ وَلَا تَيَمَّمُوا ( اور قصد نہ کرو۔ لا تیمموا اصل میں لَا تَتَیَمَّوُا تھا ایک تا کو ساقط کردیا گیا۔ ابن کثیر نے بروایت بزی وصل کی حالت میں قرآن میں 31 جگہ ساقط شدہ تا کو لوٹا کر تشدیدتاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ (1) یہی لفظ (2) آل عمران میں : وَ لَا تَّفَرَّقُوْا (3) النساء میں : اِنَّ الَّذِیْنَ تَّوَفّٰھُمْ (4) المائدہ میں : وَلَا تَّعَاوَنُوْا (5) انعام میں : فَتَّفَرَّقَ بِکُمْ (6) الاعراف میں : فَاِذَا ھِیَ تَّلَقَّفُ (7) یہی طٰہٰ میں (8) یہی لفظ الشعراء میں (9) وَلَا تَّوَلُّوْا (10) وَلَا تَّنَازَعُوْا یہ دونوں لفظ الانفال میں آئے ہیں۔ (11) التوبہ میں ھَلْ تَّرَبَّصُوْنَ (12) ہود میں : وَ اِنْ تََّوَلَّوا (13) اور فَتَّوَلَّوْا اور (14) وَ لَا تََّکَلَّمُ نَفْسٌ (15) الحجر میں مَا تَّنَزَّلَُ (16) میں اِذْ تَّلَقَّوْنَہٗ اور (17) فَاِنْ تَّوَلَّوْا (18) الشعراء میں : مَنْ تَّنَزَّلُ (19) اور الشَّیَاطِیْنُ تُّنَزَّلُ (20) احزاب میں وَلَا تَّبَرَّجْنَ اور (21) وَلَا اَنْ تَّبَدَّلَ (22) الصَّافاّت میں لَا تَّنَاصَرُوْنَ (23) الحجرات میں : وَلَا تَّنَابَزُوْا اور (24) وَلَا تَّجَسَّسُوْا (25) وَلِتَّعَارَفُوْا (26) الممتحنہ میں : اَنْ تَّوَلَّوْھُمْ (27) الملک میں تَکَادُ تَّمَیَّز (28) ن میں لَمَا تَّخَیَّرُوْنَ (29) عبس میں : عَنْہُ تَّلَھّٰی (30) وَاللیل میں : نَارًا تَّلَظّٰی (31) القدر میں تَّنَزَّلُ بعض لوگوں نے بروایت بزی دو لفظ اور بھی نقل کئے ہیں (1) آل عمران میں وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَّمَنَّوْنَ (2) الواقعہ میں : فَظَلْتُمْ تَّفَکَّھُوْنَ. اگر وصل نہ ہو اور ابتداء میں تاء واقع ہو تو سوائے تخفیف ( یعنی ایک تاء کو ساقط کرنے کے) اور کوئی صورت نہیں۔ اب اگر تاء سے پہلے حرف مد ہوگا جیسا کہ اس آیت میں ہے تو تمکین میں زیادتی کی جائے گی۔ یہ تمام تفصیل شیخ ابن کثیر (رح) سے بروایت بزی منقول ہے۔ دوسرے قاریوں کے نزدیک ہر جگہ وصل ہو یا ابتداء ایک تاء کو تخفیف کیا جائے گا۔ الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ : یعنی ردی مال۔ خراب۔ تنفقونحال ہے تَیَمَّمُوْا کی ضمیر فاعلی ذوالحال ہے یہ بھی احتمال ہے کہ مِنْہُ کا تعلق تنفقون سے ہو اور منہ کی ضمیر الخبیث کی طرف راجع ہو۔ حاکم، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ نے حضرت براء کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول ہمارے گروہ انصار کے متعلق ہوا تھا ہم نخلستانوں والے تھے ہم میں سے کچھ لوگ دل سے خیرات دینا نہیں چاہتے تھے اس لیے اپنے درختوں سے جا کر کم و بیش چھواروں کا خوشہ ٹوٹا ہوا لا کر دیدیتے تھے اور خوشہ بھی کمزور کٹھلی والے خراب ردی چھواروں کا ہوتا تھا۔ ابو داؤد نسائی اور حاکم نے حضرت سہیل بن حنیف کی روایت سے لکھا ہے کہ کچھ لوگ اپنے بد ترین پھل عشر میں لا کر دیدیتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی حاکم نے حضرت جابر ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے صدقہ فطر میں ایک صاع چھواروں کا حکم دیا میں خراب چھوارے لے آیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ابن ابی حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ صحابہ ؓ ا رزاں غلہ خرید کر صدقہ میں دیتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْهِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْهِ ۭ یعنی اللہ کی راہ میں تو تم برا مال دیتے ہو حالانکہ بغیر چشم پوشی کئے خود (با ہم تبادلہ میں) ویسا مال نہیں لیتے۔ مطلب یہ کہ تم اپنے حق میں ردی مال نہیں لیتے اور راہ خدا میں دیتے ہو، ایسا کرنے کا قصد بھی نہ کرو۔ اغماض کا معنی ہے آنکھ بند کرنا یہاں مجازاً در گذر کرنا مراد ہے ( تفسیری مطلبعام اہل تفسیر کے نزدیک یہ ہے کہ) اگر کسی کا دوسرے پر حق ہو اور وہ ایسا خراب مال دے تو یہ شخص قبول نہیں کرتا ہاں قصداً اگر اپنا حق چھوڑ دینا چاہتا ہو تو لے لیتا ہے۔ حسن بصری اور قتادہ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اگر ایسا ردی مال تم بازار میں بکتا دیکھتے ہو تو کھرے مال کی قیمت میں اس کو نہیں خریدتے۔ ایک روایت میں حضرت براء کی طرف اس ( تشریح) کی نسبت کی گئی ہے کہ اگر ایسا مال تم کو ہد یہ میں بھیجا جاتا ہے۔ تو قبول نہیں کرتے سوائے اس کے کہ بھیجنے والے کی شرم ہو تو ناراضگی کے ساتھ لے لیتے ہو تو جو چیز اپنے لیے پسند نہیں وہ اللہ کی راہ میں دینا کیوں پسند کرتے ہو۔ ردی مال راہ خدا میں دینے کی ممانعت اس وقت ہے جب سارا مال کھرا ہو لیکن اگر سب ہی خراب ہو تو عشر میں خراب مال ہی دینا ممنوع نہیں۔ اگر کچھ مال کھرا اور کچھ خراب ہو تو ہر قسم کے مال میں سے کچھ کچھ دینا چاہئے۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ (اور جان رکھو کہ اللہ کو تو تمہارے صدقات کی ضرورت نہیں تمہارے صدقات کا نفع تمہارے ہی طرف لوٹ کر آئے گا۔ اللہ کے تمام افعال مستوجب حمد ہیں۔ )
Top