Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 245
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا١ؕ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ١ۙ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا ادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لیے رَبَّکَ : اپنارب يُبَيِّنْ ۔ لَنَا : وہ بتلا دے ۔ ہمیں مَا ۔ لَوْنُهَا : کیسا۔ اس کا رنگ قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک وہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے اِنَّهَا : کہ وہ بَقَرَةٌ : ایک گائے صَفْرَآءُ : زرد رنگ فَاقِعٌ : گہرا لَوْنُهَا : اس کا رنگ تَسُرُّ : اچھی لگتی النَّاظِرِیْنَ : دیکھنے والے
کون ہے جو قرض دے اللہ کو قرض حسن، پھر اللہ اس کے لیے اضافہ فرما دے چند در چند بہت سے اضافے فرما کر، اور اللہ تنگی فرماتا ہے اور کشادہ فرماتا ہے، اور اس کی طرف لوٹا دئیے جاؤ گے۔
اللہ کی رضا کے لیے صدقہ خیرات کرنے کی فضیلت لباب النقول میں اس آیت کریمہ کا سبب نزول بتاتے ہوئے بحوالہ ابن حبان وغیرہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب آیت شریفہ (مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ ) (آخر تک) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے عرض کیا (رَبِّ زِدْاُمَّتِیْ ) (یعنی اے میرے رب میری امت کو اور زیادہ عطا فرما) اس پر آیت (مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا) نازل ہوئی۔ اس آیت میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے استفہام کا طریقہ اختیار فرمایا ہے ( جو ترغیب کا بہت عمدہ طریقہ ہے) کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دیتا ہے۔ قرض کا معنی تو سب ہی جانتے ہیں اور حسن اچھے کے معنی میں آتا ہے۔ صاحب روح المعانی ص 162 ج 2 لکھتے ہیں کہ اخلاص کے ساتھ خرچ کرنا اور حلال اور طیب مال خرچ کرنا یہ سب قرض حسن کے عموم میں داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ محتاج نہیں ہے سب کچھ اسی نے پیدا فرمایا اور سب اسی کی ملکیت ہے۔ جو لوگ مجازی مالک ہیں وہ اور ان کے اموال سب اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ شانہ کا کتنا بڑا فضل ہے اور شان کریمانہ ہے کہ اس کے دیے ہوئے میں سے جو شخص اس کی مخلوق پر خرچ کرے جو خرچ کرنے والے کی اپنی جنس ہے حتیٰ کہ اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اور اس میں ثواب سمجھے تو اس کا نام قرض رکھ دیا اور پھر جتنا دیا ہے اس سے بہت زیادہ عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا جس کو آیت میں (اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ) فرمایا ہے، کسی نے کیا خوب کہا ؂ مال عالم ملک تست مالکاں مملوکِ تو باوجود ایں بےنیازی اقر ضوا اللہ گفتۂ صحیح بخاری ص 189 ج 1 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص ایک کھجور کے برابر حلال مال سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال ہی کو قبول فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے پھر اس کی تربیت فرماتا ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچہ کی تربیت کرتا ہے اور وہ ذرا سا صدقہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ صحیح مسلم ص 258 ج 2 میں ہے کہ روزانہ رات کو جب تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے میں اس کو دے دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے میں اس کی مغفرت کروں، کون ہے جو ایسے کو قرض دے جس کے پاس سب کچھ ہے اور جو ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ صبح تک یوں ہی فرماتے رہتے ہیں۔ یہ جو فرمایا کہ کون ہے جو ایسے کو دے جس کے پاس سب کچھ ہے اس میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے مال کی حاجت نہیں ہے اس کی ملکیت میں سب کچھ ہے، کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ ضرورت مند کو دے رہا ہوں، بلکہ اپنا فائدہ سمجھ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ اور یہ جو فرمایا کہ وہ ظلم کرنے والا نہیں ہے اس میں یہ بتایا کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے ضائع نہ جائے گا اس کے مارے جانے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ پھر فرمایا (وَ اللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْسُطُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) اللہ تعالیٰ تنگی کرتا ہے اور کشادہ فرماتا ہے اور اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ جس کو جتنا چاہے دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس کی روزی تنگ کر دے اس کا بھی اختیار ہے اس پر کوئی پابندی لگانے والا نہیں۔ کسی کو زیادہ دینا اور دے کر کم کردینا سب اسی کے قبضہ وقدرت میں ہے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا (اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا) (بلا شبہ تیرا رب جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق عطا فرماتا ہے اور تنگی فرما دیتا ہے۔ بلاشبہ وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے دیکھنے والا ہے) یہ مضمون سورة العنکبوت رکوع 6 اور سورة سباء رکوع 4 اور رکوع 5 میں بھی مذکور ہے۔ آخر میں یہ جو فرمایا (وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) اس میں یہ بتایا کہ اللہ کے لیے خرچ کیا ضائع نہیں ہے۔ جب اللہ کے یہاں پہنچو گے، سب کا ثواب پالو گے۔
Top