Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں اِنْ کَانَتْ : اگر ہے لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ : تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس خَالِصَةً : خاص طور پر مِنْ دُوْنِ : سوائے النَّاسِ : لوگ فَتَمَنَّوُا : تو تم آرزو کرو الْمَوْتَ : موت اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
آپ کہہ دیجیے کہ اگر عالم آخرت خاص تمہارے ہی لیے ہے دوسروں کو چھوڑ کر،330 ۔ تو موت کی آرزو کردیکھو اگر تم سچے ہو،331 ۔
330 ۔ (جیسا کہ تم اپنے زعم وپندار میں سمجھ رہے ہو) بنی اسرائیل کے اس بنیادی عقیدہ کا ابتدائی خاکہ تو خود موجودہ توریت میں موجود ہے۔ مثلا ” تم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو “۔ (استثناء۔ 14: 1) ” تو خداوندا پنے خدا کے لیے مقدس قوم ہے۔ اور خداوند نے تجھ کو چن لیا، تاکہ سب قوموں کی بہ نسبت جو زمین پر ہیں، تو اس کے لیے خاص قوم ہو “۔ (استثناء۔ 14:2) رفتہ رفتہ یہ عقیدہ ترقی کرکے اس درجہ تک پہنچ گیا کہ یہود اپنے سوا کسی اور کو جنت کا مستحق ہی نہیں سمجھتے تھے، اور نجات اخروی کو اپنا مخصوص حق سمجھنے لگے تھے۔ اپنے کو خدا کا محبوب اور خدا کالا ڈلا اور چہیتا فرزند قرار دینے لگے تھے اور خیال یہ جما لیا تھا کہ خداوند خدا کا جو معاملہ ہماری قوم ونسل کے ساتھ ایک ناقبل تبدیل طور پر ہے وہ دنیا جہان میں کسی اور کے ساتھ نہیں۔ نسلی تقدیس کی یہی وبا ہے جو ہندوستان میں برہمنیت کے نام سے جلوہ گر ہے۔ (آیت) ” الدارالاخرۃ عنداللہ۔ مراد ہے جنت اور نجات کا حاصل ہونا، (آیت) ” دون الناس “ ناس سے مراد نوع انسانی ہے اور (آیت) ” دون الناس “ سے مراد اپنی قوم ونسل کی خصوصیت کا اظہار اور اس میں دوسروں کی شرکت سے انکار ہے۔ دون ھنا لفظ۔ یستعمل للاختصاص وقطع الشرکۃ (بحر) ۔ 331 ۔ (اپنے اس دعوی میں کہ ہماری نجات یقینی اور قطعی ہے) قدیم مفسرین نے یہاں یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہی مطالبہ یہود بھی تو الٹ کر مسلمانوں اور رسول اللہ ﷺ سے کرسکتے تھے اور پھر اپنے اپنے مذاق پر اس کے جوابات دیئے ہیں۔ لیکن حقیقۃ یہ سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا، کوئی مسلمان کب اپنی نجات کو محض مسلمان گھرانے میں پیدا ہوجانے سے یقینی سمجھتا ہے ؟ مسلمان تو خود ہی ایمان اور عمل صالح کے دہرے دہرے اختیاری معیار سے ڈرتا، لرزتا رہتا ہے، کہ دیکھنا چاہیے، حشر میں اس امتحان میں پورا اترتا بھی ہے یہ نہیں ؟ یہ اطمینان اور یہ زعم کہ چونکہ ہم فلاں گھرانے، فلاں خاندان میں پیدا ہوگئے ہیں، اس لیے بغیر کسی جہدواکتساب کے ہماری نجات تو یقینی ہوچکی، یہ عقیدہ اسرائیلیوں کے ساتھ مخصوص تھا، مسلمان اس کے قریب ہی کب گیا، جو یہ سوال اس پر عائد ہوسکے ؟ اسلام تو اس نسلی تقدیس اور اس اضطراری نجات کے عین مٹانے کے لیے ہے۔ مسلمان تو خود ہی کہتا ہے کہ مجھے اپنا انجام نہیں معلوم۔ میں ایمان اور طاعت کی راہ اپنی طرف سے اختیار کرکے آگے فضل خداوندی کا منتظر ہوں، مسلمان کے سامنے اس سوال کو پیش کرنے کا کوئی محل ہی نہیں، پھر یہ بھی ہے کہ یہ مطالبہ ہر اسرائیلی سے، ہر زمانہ کے لیے ہے بھی نہیں۔ اس کا دائرہ صرف انہیں معاند یہود کے ساتھ مخصوص ہے جو رسول اللہ ﷺ کے معاصر تھے اور سارے شواہد کے بعد بھی آپ ﷺ کے منکر تھے۔ وھذا خاص بالمعاصرین لہ ﷺ (روح) یہ تفسیر خود صحابی حضرات سے مروی ہے بلکہ حضرت ابن عمر ؓ نے تو اپنے زمانہ کے ایک گستاخ یہودی کے جواب میں یہ مضمون بڑی حدت وشدت کے ساتھ ادا کیا ہے۔ توھم ھذا الکلب اللعین الجاھل ان ھذا لل یہودی اوللیہود فی کل وقت لاانما ھو لاولئک الذین کانوا یعاندون ویجحدونبوۃ النبی ﷺ بعد ان عرفوا (روح) مرشد تھانوی نے فرمایا کہ موت کی محبت، خواہ طبعی ہو یا عقلی، ولایت کی علامتوں میں سے ہے۔
Top