Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں اِنْ کَانَتْ : اگر ہے لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ : تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس خَالِصَةً : خاص طور پر مِنْ دُوْنِ : سوائے النَّاسِ : لوگ فَتَمَنَّوُا : تو تم آرزو کرو الْمَوْتَ : موت اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر اور لوگوں (یعنی مسلمانوں) کے لئے نہیں اور خدا کے نزدیک تمہارے ہی لئے مخصوص ہے اگر سچے ہو تو موت کی آرزو تو کرو
شناعت نوز دہم (19) قال تعالیٰ قل ان کانت لکم الدار الاخرۃ۔۔۔ الی۔۔۔ واللہ بصیر بما یعملون یہود باوجود ان شنائع اور قبائح کے یہ کہتے تھے کہ جنت میں ہمارے سوا کوئی نہیں جائے گا اور آخرت کی نعمتیں ہمارے لیے مخصوص ہیں تو اے ہمارے نبی آپ ﷺ ان کے جواب میں یہ کہدیجئے کہ اگر دار آخرت فقط تمہارے ہی لیے اللہ کے یہاں خاص ہے اوروں کے لیے نہیں۔ یعنی بہشت اور نعمائے آخرت میں تمہارا کوئی شریک اور سہیم نہیں تو پھر مرنے کی تمنا اور آرزو کر کے دکھلاؤ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو۔ اس لیے کہ دار آخرت کی وہ لازوال اور بیمثال نعمتیں کہ جن میں تمہارا کوئی شریک اور سہیم نہیں ان تک پہنچنے کا راستہ سوائے موت کے اور کوئی نہیں لہذا اگر تم کو یہ یقین ہے کہ اس دار جاودانی کی نعمتیں تمہارے لیے مخصوص ہیں تو پھر اس دار فانی اور کلبۂ احزان و پریشانی سے خلاصی اور نجات کی تمنا کرو۔ قصر عالی شان اور اعزاز شاہی کے مقابلہ میں جیل خانہ کی ذلت اور مشقت کو ترجیح دینا کسی عاقل کا کام نہیں خصوصاً جبکہ جدال و قتال کا بازار گرم ہے اور یہود کے مرد مارے جارہے ہیں اور بچے اور عورتیں غلام بنائے جارہے ہیں مال واسباب لوٹا جارہا ہے اور جزیہ اور خراج ان پر قائم کیا جارہا ہے تو ایسی حیات سے بلا شبہ موت افضل اور بہتر ہے تم کو معلوم ہے کہ لذائذ دنیوی، نعم اخروی کا مقابلہ نہیں کرسکتیں اور تم اس وقت مسلمانوں سے جنگ وجدال کی وجہ سے تکلیف اٹھار رہے ہو تو موت کی تمنا کرو تاکہ اس رنج ومحن سے چھٹکارا ملے اور چونکہ اپنے دعوے کے موافق خاصان خدا سے ہو اس لیے تمہاری دعا بھی ضرور قبول ہوگی۔ خلاصہ کہ اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ اور ہم موت اور حیات کے مالک ہیں۔ جس وقت بھی تم موت کی تمنا کرو گے اسی وقت موت واقع کردیں گے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اگر یہودی موت کی تمنا کرتے تو پانی ہی کے گھوٹ سے گلا گھٹ کر مرجاتے وجہ اس کی یہ ہے کہ جو شئی ممکن الوقوع ہو۔ تحدی اور اظہار معجزہ کے وقت اس کا وقوع اور تحقق واجب اور لازم ہوجاتا ہے لیکن یہ وجوب اور لزوم ان کی تمنا اور آرزو پر موقوف تھا لہذا جب انہوں نے تمنا نہ کی تو موت بھی متحقق نہ ہوئی اور چونکہ ان کو یقین تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کی تحدی کے بعد اگر ہم نے موت کی تنمنا کی تو موت ضرور آجائے گی اس لیے ڈر کے مارے موت کی تمنا نہیں کی۔ خوب جانتے تھے کہ موت کی تمنا کرنے سے آنحضرت ﷺ کا معجزہ ظاہر ہوجائے گا اس لیے موت کی تمنا کرنے سے عاجز رہے جیسا کہ آئندہ آیت میں ارشاد فرماتے ہیں۔ اور ہم ابھی اسے خبردیتے ہیں کہ یہ لوگ ہرگز کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے ان اعمال شنیعہ کے خوف کی وجہ سے جو ان کے ہاتھ پہلے کرچکے ہیں یہ جملہ بطور پیشین گوئی اور غیب کی خبر کے ہے جو حضور کا معجزہ اور یہود کے عجز کی دلیل ہے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے اگرچہ وہ موت کی تمنا نہ کریں اور موت سے کتنا ہی بھاگیں۔ ایک نہ ایک دن ضرور موت آئے گی اور ان سب اعمال کفریہ کی ان کو سزا ملے گی۔ 1: جاننا چاہئے کہ یہ ایک قسم کا مباہلہ تھا۔ حق اور باطل کا فیصلہ اکثر مناظرہ اور مجادلہ سے ہوتا ہے اور کبھی مباہلہ سے۔ اس لیے کہ فیصلہ کے دو طریق ہیں۔ ایک طریقہ معتاد اور ایک طریقہ غیر معتاد۔ معتاد طریقہ یہ ہے کہ مناظرہ اور مباحثہ سے فیصلہ کیا جائے اور غیر معتاد طریقہ یہ ہے کہ فیصلہ ایسے طریقہ سے کیا جائے جو خارق للعادۃ اور اسباب ظاہری کے دائرہ سے بالا اور برتر ہو یعنی بطریق معجزہ اور کرامت اس کا فیصلہ کیا جائے۔ چناچہ اس مقام پر جب حجت اور دلیل اور نظر اور فکر کے تمام مراحل ختم ہوگئے تو خصم کے افحام اور الزام کے لیے ایک خارق عادت طریق اختیار کیا گیا وہ یہ کہ ایک مرتبہ زبان سے یہ کہہ دیں کہ اے اللہ ہم کو موت دے اسی وقت ان کا صدق کذب ظاہر ہوجائیگا اور اگر یہود کو اس کا یقین نہ ہوتا تو جوش عداوت میں ضرور کہہ ڈالتے تاکہ حضور کا معجزہ ظاہر نہ ہو۔ 2: یہ خطاب اور یہ تحدی ان یہودیوں کے ساتھ مخصوص تھی جو نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں تھے اور خوب جانتے تھے کہ یہی وہ نبی برحق ہیں جن کی پیشین گوئی توریت میں ہے اور ہر زمانہ کے یہود سے یہ خطاب نہیں جیسا کہ روح المعانی ص 296 ج 1 عبداللہ بن عمر ؓ سے منقول ہے اور ابداً کا لفظ انہی کے عمر کے لحاظ سے فرمایا گیا۔ 3: یہود نے نہ زبان سے تمنا کی ورنہ ضرور منقول ہوتی اور نہ دل سے تمنا کی ورنہ اگر دل سے تمنا کرتے تو خجالت اور الزام کے دور کرنے کے لیے زبان سے ضرور اس کا اظہار کرتے۔ ایک شبہ : اگر یہ کہا جائے کہ یہ سوال تو یہود کی طرف سے مسلمانوں پر بھی وارد ہوسکتا ہے کہ تم بھی یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ سوائے مسلمانوں کے اور کوئی جنت میں نہیں جائیگا لہذا تم کو بھی چاہئے کہ موت کی تمنا کرو۔ ازالہ : جواب یہ ہے کہ یہود کا عقیدہ فقط یہی نہیں تھا کہ ہم اہل حق ہیں اور ہمارے سوا کوئی جنت میں نہیں جائیگا بلکہ ساتھ یہ بھی اعتقاد تھا کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں کما قال تعالیٰ حا کیا عنھم نحن ابناء اللہ واحباءہ ہمارے اعمال وافعال اوراقوال واحوال کیسے ہی ناشایستہ اور نافتہ ہوں ہم ضرورت جنت میں جائیں گے جنت ہماری جدی اور خاندانی میراث ہے مرتے ہی ہم بہشت میں داخل ہوجائیں گے اور مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں اور جنت ہمارے لیے مخصوص ہے ہمارے اعمال اچھے ہوں یا برے ہر حال میں ہم جنت میں جائیں گے بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے کا دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے اس لیے مسلمان ہمیشہ اپنی نازیبا افعال واقوال سے ڈرتے رہتے ہیں بخلاف یہود کے کہ وہ بیدھڑک گناہ کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے ہیں۔ سیغفرلنا یعنی ہم کوئی گناہ کرلیں سب بخشے جائیں گے کسی قسم کی معصیت ہمارے لیے مضر نہیں اور نہ ہم سے کوئی حساب و کتاب ہوگا اس کے برعکس مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہوگا اس لیے ہر وقت وہ اپنی کوتاہیوں سے ڈرتے رہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ زندگی اور بڑھ جائے تاکہ گزشتہ تقصیرات کی توبہ اور استغفار سے کچھ تلافی کرسکیں اور کچھ اعمال صالحہ کر کے سفر آخرت کے لیے زاد راہ اور راحلہ تیار کرسکیں۔ موت کی تمنا کا حکم شرعی احادیث میں بلا ضرورت موت کی تمنا کرنے کی یا دنیاوی مصائب سے گھبرا کر موت کی آرزو کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ عمر کا زیادہ ہونا اور توبہ اور اعمال صالحہ کے لیے وقت کا میسر آجانا ایک نعمت عظمی اور غنیمت کبری ہے البتہ اگر قلب پر لقاء خداوندی کا شوق غالب ہو تو پھر موت کی تمنا جائز ہے مگر شرط یہ ہے کہ فرط شوق سے اس درج مغلوب الحال ہوجائے کہ دنیاوی منافع اس کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں اور غلبۂ شوق میں اس کو اس کا بھی خیال نہ رہے کہ جس قدر عمر زیادہ ہوگی اسی قدر قرب خداوندی کے اسباب زیادہ حاصل کرسکوں گا اور حضرات صحابہ سے جو اس قسم کی آرزو منقول ہے سو وہ اس وقت میں تھی کہ جب اسباب موت کے سامنے آگئے اور دنیا کی زندگی سے مایوسی ہوگئی اس وقت موت کی فرحت اور مسرت میں کچھ کلمات زبان سے نکلے اور یہ وقت محل بحث سے خارج ہے۔ تفصیل کے لیے تفسیر عزیزی اور تفسیر مظہری کی مراجعت کی جائے۔ اور یہ لوگ موت کی تمنا اور آرزو ہرگز نہیں کرسکتے اس لیے کہ البتہ تحقیق آپ ان کو سب لوگوں سے زیادہ اس فانی زندگی پر حریص پائیں گے حتی کہ ان لوگوں سے بھی زیادہ حریص پائیں گے جو لوگ مشرک اور بت پرست ہیں اور اخروی حیات کے بالکل قائل نہیں دنیوی حیات کو ہی حیات سمجھتے ہیں اور یہودباوجودی کہ حیات اخروی اور آخرت کے ثواب اور عقاب کے قائل ہیں ان کا سب سے زیادہ زندگی پر حریص ہونا اس امر کی بین دلیل ہے کہ ان کو اپنے مجرم ہونے کا یقین کامل ہے۔ ہر ایک ان میں سے یہ چاہتا ہے کہ اس کو ہزار برس کی عمر دیجائے حالانکہ ہزار برس کی عمد دیاجانا بھی اللہ کے عذاب کو دفع نہیں کرسکتا۔ ہزار برس کے بعد پھر موت ہی ہے اور ان لوگوں کو اگر ہزار برس سے بھی زیادہ عمر مل جائے تب بھی کوئی فائدہ نہیں جس قدر ان کی عمر زیادہ ہوگی اسی قدر ان کا کفر زیادہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے کہ دم بدم کفر اور معصیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کے حق میں تخفیف عذاب کی کوئی صورت نہیں۔
Top