Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 34
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ١۪ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ١ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْرَبُوْا : اور پاس نہ جاؤ مَالَ الْيَتِيْمِ : یتیم کا مال اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر حَتّٰى : یہاں تک کہ يَبْلُغَ : وہ پہنچ جائے اَشُدَّهٗ : اپنی جوانی وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِالْعَهْدِ : عہد کو اِنَّ : بیشک الْعَهْدَ : عہد كَانَ : ہے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ بجز اس طریق کے جو مستحسن ہے،51۔ یہاں تک کہ وہ اپنے سن پختگی کو پہنچ جائے،52۔ اور عہد کی پابندی رکھو بیشک عہد کی باز پرس ہوگی،53۔
51۔ (شریعت کی نگاہ میں) یعنی یتیم کی جائداد میں کسی قسم کی دست اندازی روانہ رکھو بجز ان صورتوں کے کہ جنہیں خود شریعت نے روا رکھا ہے۔ یتیموں کی جائداد کے تحفظ کے باب میں قرآن مجید کو جو اہتمام ہے اس کا اندازہ کچھ ان حاشیوں سے بھی ہوسکے گا جو پ 4 وپ 5 میں اسی مسئلہ پر گزر چکے ہیں۔ (آیت) ” التیھی احسن “۔ کے تحت میں صرف مال یتیم کے وہ سارے طریقے آگئے جن سے خود یتیم کا نفع متصور ہو، خواہ تجارت ہو یا کچھ اور۔ الاحسن ماکان فیہ حفظ مالہ وبتثمیرہ (جصاص) وقد دلت الایۃ علی جواز اجارۃ مال الیتیم والعمل بہ مضاربۃ (جصاص) 52۔ اور اپنے نفع ونقصان کو خوب پہچاننے لگے اور اس وقت اس کی جائداد اس کے حوالہ کردی جائے گی، یعنی یتیم کی کم سنی بھر تو اس کی جائداد اولیاء کینگرانہ وانتظام میں رہے اور اولیاء ہمیشہ اسی کی مصلحتوں کو مصارف کے وقوت ملحوظ رکھیں پھر جب وہ یتیم پوری طرح سن شعور کو پہنچ جائے تو اس کی جائداد اس کے حوالہ کرکے خود سبکدوش ہوجائیں۔ بلوغ اشد کا معیار کیا ہے ؟ مختلف فقہاء نے اس کے جواب میں مختلف عمریں تجویز کی ہیں لیکن اصل یہ ہے کہ یہ سب محض تخمینے اور اندازے ہیں مختلف قوموں اور ملکوں میں بلکہ ایک ہی برادری کے افراد میں قوائے جسمانی وذہنی کی پختگی کا کوئی ایک سن متعین ہی نہیں اور اسی لئے قرآن مجدی نے بھی قصدا اسے مبہم ہی رکھا ہے فقیہ ابوبکر الرازی مختلف عمروں کا حوالہ دینے کے بعد لکھتے ہیں :۔ واذا کان کذالک فالا شدلیس لہ مقدار معلوم فی العادۃ لایزید علیہ ولا ینقص منہ وقد یختلف احوال الناس فیہ فیبلغ بعضھم الاشد فی مدۃ لا یبلغہ غیرہ فی مثلھا (جصاص) امام رازی (رح) نے لکھا ہے کہ بلوغ عقل بھی اس سن کو کہیں گے جب قوائے عقلی وحسی وحرکمال کو پہنچ جائیں۔ وبلوغ العقل ھو ان یکمل عقلہ وقواہ الحتیۃ والحرکیۃ (کبیر) 53۔ (آیت) ” العھد “۔ کے تحت میں ہر قسم کے جائز وعدے اور معاہدے آگئے بلکہ اگر اسے ذرازیادہ وسیع معنی میں لیاجائے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد سب کے سب اس کے اندر آجاتے ہیں۔ اعلم ان کل عقد تقدم لاجل توثیق الامر وتوکیدہ فھوعھد (کبیر) وحاصل القول فیہ ان مقتضی ھذہ الایۃ ان کل عقد وعھد جری بین انسانین فانھما یجب علیھما الوفاء (کبیر)
Top