Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 34
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ١۪ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ١ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْرَبُوْا : اور پاس نہ جاؤ مَالَ الْيَتِيْمِ : یتیم کا مال اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر حَتّٰى : یہاں تک کہ يَبْلُغَ : وہ پہنچ جائے اَشُدَّهٗ : اپنی جوانی وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِالْعَهْدِ : عہد کو اِنَّ : بیشک الْعَهْدَ : عہد كَانَ : ہے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور پاس نہ جاؤ یتیم کے مال کے مگر جس طرح کہ بہتر ہو جب تک وہ پہنچے اپنی جوانی کو اور پورا کرو عہد کو بیشک عہد کی پوچھ ہوگی
خلاصہ تفسیر
اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ (یعنی اس پر تصرف نہ کرو) مگر ایسے طریقہ سے جو کہ (شرعا) مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے اور عہد (جائز) کو پورا کیا کرو بیشک عہد کی قیامت میں باز پرس ہونے والی ہے (عہد میں وہ تمام عہد بھی داخل ہیں جو بندہ نے اپنے اللہ سے کئے ہیں اور وہ بھی جو کسی انسان سے کئے ہیں) اور (ناپنے کی چیزوں کو) جب ناپ کردو تو پورا ناپو اور (تولنے کی چیزوں کو) صحیح ترازو سے تول کردو یہ (فی نفسہ بھی) اچھی بات ہے اور انجام بھی اس کا اچھا ہے (آخرت میں تو ثواب اور دنیا میں نیک نامی کی شہرت جو ترقی تجارت کا ذریعہ ہے)

معارف و مسائل
ان دو آیتوں میں تین حکم نواں، دسواں، گیا رہواں مالی حقوق کے متعلق مذکور ہیں سابقہ آیات میں مدنی اور جسمانی حقوق کا ذکر تھا یہ مالی حقوق کا بیان ہے۔

یتیموں کے مال میں احتیاط
ان میں پہلی آیت میں نواں حکم یتیموں کے اموال کی حفاظت اور ان میں احتیاط کا ہے جس میں بڑی تاکید سے یہ فرمایا کہ یتیموں کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ یعنی ان میں خلاف شرع یا بچوں کی مصلحت کے خلاف کوئی تصرف نہ ہونے پاوے یتیموں کے مال کی حفاظت اور انتظام جن کے ذمہ ہے ان پر لازم ہے کہ ان میں بڑی احتیاط سے کام لیں صرف یتیموں کی مصلحت کو دیکھ کر خرچ کریں اپنی خواہش یا بےفکری سے خرچ نہ کریں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ یتیم بچے جوان ہو کر اپنے مال کی حفاظت خود نہ کرسکیں جس کا ادنیٰ درجہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچنا اور زیادہ اٹھارہ سال تک ہے۔
ناجائز طریقے پر کسی کا مال بھی خرچ کرنا جائز نہیں
یہاں یتیموں کا خصوصیت سے ذکر اس لئے کیا کہ وہ تو خود کوئی حساب لینے کے قابل نہیں دوسروں کو اس کی خبر نہیں ہو سکتی جس جگہ کوئی انسان اپنے حق کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو وہاں حق تعالیٰ کا مطالبہ اشد ہوجاتا ہے اس میں کوتاہی عام لوگوں کے حقوق کی نسبت سے زیادہ گناہ ہوجاتی ہے۔
معاہدات کی تکمیل و تعمیل کا حکم
دسواں حکم عہد پورا کرنے کی تاکید ہے عہد دو طرح کے ہیں ایک وہ جو بندہ اور اللہ کے درمیان ہیں جیسے ازل میں بندہ کا یہ عہد کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے اس عہد کا لازمی اثر اس کے احکام کی اطاعت اور اس کی رضا جوئی ہوتا ہے یہ عہد تو ہر انسان نے ازل میں کیا ہے خواہ دنیا میں وہ مومن ہو یا کافر دوسرا عہد مومن کا ہے جو شہادت ان لا الہ الا اللہ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس کا حاصل احکام الہیہ کا مکمل اتباع اور اس کی رضا جوئی ہے۔
دوسری قسم عہد کی وہ ہے جو انسان کسی انسان سے کرتا ہے جس میں تمام معاہدات سیاسی تجارتی معاملاتی شامل ہیں جو افراد یا جماعتوں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں۔
پہلی قسم کے تمام معاہدات کا پورا کرنا انسان پر واجب ہے اور دوسری قسم میں جو معاہدات خلاف شرع نہ ہوں ان کا پورا کرنا واجب اور جو خلاف شرع ہوں ان کا فریق ثانی کو اطلاع کر کے ختم کردینا واجب ہے جس کا پورا کرنا واجب ہے اگر کوئی پورا نہ کرے تو دوسرے کو حق ہے کہ عدالت میں مرافعہ کر کے اس کو پورا کرنے پر مجبور کرے معاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ دو فریق کے درمیان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو اور جو کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کر دوں گا اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے اور بعض حضرات نے اس کو بھی عہد کے اس مفہوم میں داخل کیا ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ معاہدہ فریقین کی صورت میں اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو دوسرا فریق اس کو بذریعہ عدالت تکمیل معاہدہ پر مجبور کرسکتا ہے مگر یک طرفہ وعدہ کو عدالت کے ذریعہ جبرا پورا نہیں کرا سکتا ہاں بلاعذر شرعی کے کسی سے وعدہ کرکے جو خلاف ورزی کرے گا وہ شرعا گناہگار ہوگا حدیث میں اس کو عملی نفاق قرار دیا گیا ہے۔
اس آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا یعنی قیامت میں جیسے اور فرائض و واجبات اور احکام الہیہ کے پورا کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہوگا ایسا ہی باہمی معاہدات کے متعلق بھی سوال ہوگا یہاں صرف اتنا کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ اس کا ہوگا آگے سوال کے بعد کیا ہونا ہے اس کو مبہم رکھنے میں خطرہ کے عظیم ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
گیارھواں حکم لین دین کے معاملات میں ناپ تول پورا کرنے کی ہدایت اور اس میں کمی کرنے کی ممانعت کا ہے جس کی پوری تفصیل سورة المطففین میں مذکور ہے۔
مسئلہحضرات فقہاء نے فرمایا کہ آیت میں ناپ تول میں کمی کا جو حکم ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جس کا جتنا حق ہے اس سے کم دینا حرام ہے اس لئے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی ملازم اپنے مفوضہ اور مقررہ کام میں کمی کرے یا جتنا وقت دینا ہے اس سے کم دے یا مزدور اپنی مزدوری میں کام چوری کرے۔
Top