Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 34
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ١۪ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ١ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْرَبُوْا : اور پاس نہ جاؤ مَالَ الْيَتِيْمِ : یتیم کا مال اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر حَتّٰى : یہاں تک کہ يَبْلُغَ : وہ پہنچ جائے اَشُدَّهٗ : اپنی جوانی وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِالْعَهْدِ : عہد کو اِنَّ : بیشک الْعَهْدَ : عہد كَانَ : ہے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
مال یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے ، یہاں تک کہ وہ اپنے شباپ کو پہنچ جائے۔ عہد کی پابندی کرو ، بیشک عہدے کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی
اسلام ہر مسلمان کی جان ، مال اور آبرو کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تمام مسلمان مسلمانوں پر حرام ہیں ، ان کی جان ، ان کی آبرو اور ان کا مال “۔ لیکن قرآن کریم اور سنت دونوں نے مال یتیم کے بارے میں بالخصوص سخت شدید سے ممانعت کی ہے۔ طریق احسن کو چھوڑ کر کسی اور صورت میں بھی اس کے قریب تک جانے سے منع کیا ہے۔ یہ اس لئے کہ یتیم کمزور ہوتا ہے وہ اپنے مال کی حفاظت اور تدبیر کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور وہ اپنے مال کی مدافعت بھی نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اسلامی نظام زندگی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مال یتیم کی حفاظت اور تدبیر کرے۔ اور یہ اس وقت تک جاری رہے جب تک وہ سن رشد کو پہنچ نہیں جاتا اور جب تک وہ اس بات کے اہل نہیں ہوجاتا کہ وہ اپنے مال میں مناسب تصرفات کرسکے۔ ان احکام اور اوامرو نواہی کے اندر یہ لطیف نکتہ پایا جاتا ہے کہ جن احکام کا تعلق ایک فرد سے ہے ان کے بارے میں مفروصیغہ استعمال ہوا ہے اور جن کا تعلق سوسائٹی یا حکومت اور اجتماعی نظام سے ہے ان کو جمع کے صیغے میں لایا گیا ہے۔ مثلاً والدین کے ساتھ حسن سلوک ، اقربائ، مساکین اور مسافروں کی مالی امداد ، فضول خرچی کی ممانعت ، خرچ کرنے میں بخل اور اسراف کے درمیان متعدل راہ اپنانے کا حکم ، حق پر ثابت قدمی اور کبرو غرور کی ممانعت کے احکام ور امرو نہی میں صیغہ مفرد استعمال ہوا ہے ، اور قتل اولاد کی ممانعت کے احکام ، حرمت زنا ، قتل نفس ، مال یتیم کی حفاظت ، وفائے عہد کے احکام ، ناپ و تول پورا کرنے کے حکم یا نہی میں جمع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مال یتیم کے قریب نہ جانے کی ممانعت صیغہ جمع کی صورت میں آئی ہے تاکہ پوری سلامی سوسائٹی حفاظت مال یتیم کی ذمہ داری میں برابر کی شریک ہو ، کیونکہ یہ ایک اجتماعی نوعیت کی ذمہ داری ہے۔ مال یتیم کی حفاظت چونکہ پوری سوسائٹی کی ذمہ داری ہے ، اسی کے ساتھ وفائے عہد کے احکام بھی دئیے گئے۔ کیونکہ اجتماعی ذمہ داریوں کے سلسلے میں بالعموم عہد نیا اور دیا جاتا ہے۔ لہذا وفائے عہد کا ایک عمومی حکم یہاں دے دیا گیا۔ واوفوا بالعھد ان العھد کان مسئولا (71 : 43) ” اور وعدہ کو پور اکرو ، بیشک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا “۔ وفائے عہد کے بارے میں اللہ تعالیٰ خود سوال کرے گا اور جو لوگ وفائے عہد نہیں کرتے ، ان سے قیامت کے دن اس سلسلے میں باز پرس ہوگی۔ اسلام نے وفائے عہد کے سلسلے میں تاکید شدید کی ہے۔ کیونکہ ایک فرد اور جماعت کے کردار میں وفائے عہد اصل معیار ہے کہ کون شخص ٹھوس اور ثابت قدم ہے ، کون ضمیر کے اعتبار سے پاکیزہ ہے۔ قرآن و حدیث میں بار بار اور مختلف طریقوں سے وفائے عہد کی تاکید کی گئی ہے۔ چاہے یہ عہد اللہ کی طرف سے ہو ، لوگوں کی طرف سے ہو ، فرد کی طرف سے ہو ، کسی جماعت یا سوسائٹی کی طرف سے ہو ، رعایا کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے ہو ، حاکم کی طرف سے ہو یا محکوم کی طرف سے ، نیز بین الاقوامی تعلقات میں اسلام نے عہد کی پابندی کی وہ مثایں قائم کیں کہ انسانی تاریخ میں ایسی مثالیں صرف اس حصے میں ملتی ہیں جن میں مسلمان دنیا کے حکمران تھے ، یا دنیا کے حکمرانوں میں سے معتبر حکمران تھے (دیکھئے کتاب ” عالمی امن “ ) ۔ ناپ تول کا پورا کرنا بھی دراصل وفائے عہد کے زمرے میں آتا ہے ، کہا گیا :
Top