Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا اور پھر اس میں باہم جھگڑنے لگے لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے خدا اس کو ظاہر کرنے والا تھا
وَاِذْقَتَلْتُمْ نَفْسًا : (جب تم نے ایک نفس کو قتل کیا) یہاں بھی اذکروا مقدر ہے۔ جماعت کو مخاطب کیا۔ کیونکہ واقعہ قتل ان میں پیش آیا تھا۔ ٹالنا کیا ہے ؟ فَادّٰرَئْ تُمْ فِیْھَا : (پھر ایک دوسرے پر ٹالنے لگے) پس تم نے اختلاف کیا۔ اور اس کے معاملے میں ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے۔ اس لیے کہ دونوں جھگڑنے والے اپنے سے بات کو ہٹا کر دوسرے پر دھرتے ہیں۔ یا تم نے اس کا قتل ایک دوسرے پر ڈالا پس جس پر ڈالا جاتا وہ ڈالنے والے پر ٹالتا یا پھینکنا بذات خود دھکیلنا ہے۔ صرف : اور اس کا اصل تدارأ تم ہے پھر تخفیف کے لیے تاء کو دال سے بدل کر اس کی جنس سے کردیا۔ جو کہ فاء کلمہ ہے تاکہ ادغام ہوسکے۔ دال کو ساکن کیا۔ اس لیے کہ شرط ادغام پہلے کا ساکن ہونا ہے۔ پھر ہمزہ وصل بڑھایا۔ اس لیے کہ ساکن سے ابتداء ممکن نہیں۔ قراءت : ابوعمرو نے فادّاراتُم بغیرہمزہ پڑھا ہے وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ : (اور اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کرنے والے تھے جو تم چھپاتے تھے) یعنی ہر صورت ظاہر کرنے والے تھے۔ جو تم قتل کے معاملے میں چھپاتے تھے۔ کہ وہ اس کو چھپانہ رہنے دیں گے۔ نحو : صیغہ اسم فاعل مخرجٌ بمعنی مستقبل ہے۔ کیونکہ کلام کے وقت زمانہ مستقبل کی حکایت کر رہا ہے۔ اس لیے اسے عمل دیا گیا۔ یہ جملہ معترضہ ہے جو معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان واقع ہوا ہے۔ اور وہ فادارأتم اور فقلنا ہے۔
Top