Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 76
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : قریب تھا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ : کہ تمہیں پھسلا ہی دیں مِنَ : سے الْاَرْضِ : زمین (مکہ) لِيُخْرِجُوْكَ : تاکہ وہ تمہیں نکال دیں مِنْهَا : یہاں سے وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا يَلْبَثُوْنَ : وہ نہ ٹھہرپاتے خِلٰفَكَ : تمہارے پیچھے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا
اور انہوں نے اس میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ آپ کے قدم اکھاڑ دیں اس سرزمین سے، تاکہ آپ کو اس سے نکال باہر کردیں، (خواہ جبر سے خواہ مکر سے) اور اگر ایسا ہوجاتا تو یہ لوگ بھی آپ کے بعد یہاں نہ ٹھہر سکتے مگر بہت کم،
138۔ اہل کفر وباطل کی عداوت و دشمنی کی انتہا :۔ سو اس سے کفار و مشرکین کی حق اور اہل حق سے عداوت و دشمنی کی انتہاواضح ہوجاتی ہے کہ ایسے منحوس اور بدبخت لوگ اہل حق یہاں تک کہ حضرت امام الانبیاء کا وجود بھی اپنے درمیان برداشت نہیں کرتے۔ سو کفار مکہ نے پیغمبر کو اپنی سرزمین سے نکالنے کی پوری کوشش کی۔ یعنی مکہ مکرمہ سے جو کہ آپ کا مولد ومسکن تھا۔ اور جو آپ ﷺ کو سب سے زیادہ پیارا و عزیز تھا۔ لیکن ان ظالموں کو آپ ﷺ کا اس میں رہنا برداشت اور گوارہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے آپ ﷺ کو وہاں سے نکالنے کی ٹھان لی۔ لیکن یہ ایسا کر نہیں سکے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کو آپ کے رب نے خود وہاں سے ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔ ورنہ یہ لوگ اگر اپنے منصوبے کے مطابق آپ ﷺ کو وہاں سے نکال دیتے تو اس کے بعد یہ بھی وہاں رہنے نہ پاتے بجز تھوڑے سے عرصے کے (الکبیر، الصفوۃ اور المعارف وغیرہ) اور جب انہوں نے نے اپنی طرح طرح کی ایذاء رسانیوں سے آپ کو وہاں سے نکال دیا تو اس کے سال ڈیڑھ بعد ہی یہ لوگ آپ کے مقابلے میں بدر میں پہنچ کر فی النار والسقر ہوئے۔ ان کی جڑ کٹ گئی اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد سرزمین مکہ سے بھی ان کا ہمیشہ کیلئے صفایا ہوگیا۔ والحمد للہ رب العالمین۔ 139۔ پیغمبر کا وجود باعث رحمت وامان :۔ سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کا وجود رحمت و عنایت خدواوندی اور امن وامان کا ذریعہ و وسیلہ ہوتا ہے پس پیغمبر کا کسی بستی سے نکل جانا وہاں کے باشندوں کیلئے عذاب کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ یعنی اللہ کا عذاب کسی نہ کسی شکل میں ان کو آپکڑتا اور یہ آپ ﷺ کے بعد کچھ زیادہ وہاں ٹھہرنے نہ پاتے۔ چناچہ آپ ﷺ کی ہجرت مدینہ کے بعد بھی جب وہ لوگ اپنی ایذاء رسانیوں اور شرانگزیوں سے باز نہ آئے تو ہجرت کے ٹھیک اٹھارہ ماہ بعد بدر میں فرقان و فیصلے کے دن ان کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی۔ ان کے بڑے بڑے صنادید اور متکبرین میں سے بہت سے قتل ہوئے اور بہت سے قید اور ذلیل وخوار اور اگر نبی ﷺ کا وجود رحمت وہاں موجود نہ ہوتا تو ان کی کبھی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی۔ فصدق اللہ القآئل، وما کان اللہ الیعذبہم وانت فیہم، الایۃ (الانفال : 33) ۔ سو پیغمبر کی کسی بستی سے ہجرت وہاں کے باشندوں کیلئے عذاب کا باعث اور اس کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو پیغمبر کا وجود باعث رحمت اور ذریعہ امان ہوتا ہے اور جب قوم کی روش سے تنگ آکر وہ وہاں سے ہجرت کرلیتا ہے تو وہ قوم بالکل ایک جسد بےروح ہو کر رہ جاتی ہے اور ان کیلئے اتمام حجت کا مرحلہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد یا تو ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوئی کوڑا برستا ہے جو اس بدبخت قوم کے ناپاک وجود سے اللہ کی دھرتی کو پاک کردیتا ہے یا پھر اہل ایمان کی تلواران کیلئے بےنیام ہوجاتی ہے اور اس کے ذریعے ان کا خاتمہ کردیا جاتا ہے۔ اہل مکہ کے کفار، اشرار کیلئے یہی دوسری صورت پیش آئی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔
Top