Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 76
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : قریب تھا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ : کہ تمہیں پھسلا ہی دیں مِنَ : سے الْاَرْضِ : زمین (مکہ) لِيُخْرِجُوْكَ : تاکہ وہ تمہیں نکال دیں مِنْهَا : یہاں سے وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا يَلْبَثُوْنَ : وہ نہ ٹھہرپاتے خِلٰفَكَ : تمہارے پیچھے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا
اور قریب تھا کہ یہ لوگ تمہیں زمین میں (مکہ) سے پھسلا دیں تاکہ تمہیں وہاں سے جلا وطن کردیں۔ اور اس وقت تمہارے پیچھے یہ بھی نہ رہتے مگر کم۔
76۔” وان کادوا لیستفزونک من الارض لیخر جوک منھا “ وان کا دو الیستفزونک کا تفسیر میں ائمہ کے مختلف اقوال اس آیت کی تفسیر میں علماء کے مختلف اقوال ہیں ۔ بعض نے کہا یہ آیت مدنی ہے۔ کلبی کا قول ہے کہ جب آپ ﷺ مدینہ پہنچے تو وہاں کے یہود نے آپ ﷺ کی موجودگی کو ناپسند کیا ، ان سے حسد کرنے کی وجہ سے ۔ وہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ اے ابو القاسم ! آپ جانتے ہیں کہ یہ سر زمین انبیاء کی نہیں ہے بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کی سر زمین شام میں ہے اور وہ ارض مقدسہ ہے اور وہی زمین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی رہنے کی جگہ ہے ۔ اگر آپ ان کی طرح نبی ہیں تو پھر شام چلے جائیے۔ آپ جو شام کی سکونت پسند نہیں کرتے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کو رومیوں سے ڈر لگتا ہے لیکن اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو اللہ رومیوں سے آپ کی ضرورحفاظت کرے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے نکل کر تین میل کے فاصلے پر اور بقول بعض ذی الحلیفہ میں لشکر گاہ قائم کی تا کہ آپ کے صحابی وہاں جمع ہوجائیں تا کہ اس کی طرف سب روانہ ہوجائیں ۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ” والارض “ اس سے مراد مدینہ کی سر زمین ہے۔ مجاہد اور قتادہ کا بیان ہے کہ زمین سے مراد مکہ کی سر زمین ہے۔ آیت مکی ہے۔ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے نکال دینے کا ارادہ کرلیا تھا مگر اللہ نے اپنی قدرت سے ان کو روک لیا تھا، آخر کار خود ہی ہجرت کا حکم نازل فرما دیا اور آپ نے مدینہ کو ہجرت کرلی ۔ یہی اس آیت کی تفسیر کے زیادہ لائق ہے کیونکہ اس سے ما قبل بھی اہل مکہ کی خیر کا ذکر ہے اور سورة بھی مکی ہے اور بعض کا قول ہے کہ عرب کے تمام کفار آپ ﷺ کو عرب کی سر زمین سے نکالنا چاہتے تھے مگر اللہ نے ان کو ناکام کردیا اور اپنے رسول کو محفوظ رکھا۔ ” واذا لا یلبثون خلافک “ اس کے بعد وہ آپ کے پیچھے تھوڑی مدت ٹھہرتے۔ ابن عامر ، حمزہ ، کسائی ، حفص اور یعقوب نے ” خلافک “ اس آیت کے اعتبار سے ذکر کیا ۔ فرح المخلفون بمقعدھم خلاف رسول اللہ ‘ ان دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔” الا قلیلا ً “ اگر یہ آپ کو مکہ ( یا مدینہ) سے نکال دیتے تو پھر آپ کے بعد یہ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکتے بلکہ ان کو ہلاک کردیا جاتا ۔ پہلے قول کے مطابق ان کو حیات دی گئی اور دوسرے قول کے مطابق کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو مدینہ کی طرف نکالا تو بدر کے مقام پر ان کا بدلہ لیا گیا ۔
Top