Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا اور پھر اس میں باہم جھگڑنے لگے لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے خدا اس کو ظاہر کرنے والا تھا
شناعت پنجم قال تعالیٰ واذ قتلتم نفسا فادٰرء تم فیھا۔۔۔ الی۔۔ ویریکم ایتہ لعلکم تعقلون اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ تم نے ایک محترم نفس کو قتل کر ڈالا پھر اس قتل کو ایک دوسرے کے سر تھوپنے لگے وہ کہتا ہے کہ اس نے مارا اور وہ کہتا ہے کہ اس نے مارا اور وہ کہتا ہے کہ اس نے مارا۔ اور جن چیزوں کو تم دلوں میں چھپاتے تھے اللہ تعالیٰ ان کو اندر سے باہر نکالنے والا ہے۔ جس سے تمہارے اندرونی خطرات اور دلی خیالات اس طرح عیاں اور آشکارا ہوجائیں جیسے کسی محسوس شئی کو کسی بند صندوق سے نکال کر مجمع میں لا کر سب کے سامنے رکھ دیا جائے کہ سب اس کو اچھی طرح دیکھ لیں۔ پس کہا ہم نے کہ لگاو اس مردہ پر اس گائے کا کوئی ٹکڑا زبان یا دم میت پر رکھ دو جی اٹھے گا۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا مقتول فوراً زندہ ہوگیا اور اپنے قاتل کا نام بتا کر گر پڑا اور مرگیا۔ قاتل کو پکڑا گیا اور قصاص لیا گیا اور میراث سے بھی محروم رکھا گیا۔ اور اسی وقت سے یہ حکم ہوگیا کہ قاتل ہمیشہ میراث سے محروم رہے گا اگرچہ قاتل مقتول کا باپ یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ 1: مقتول کا قول مر کر زندہ ہونے کے بعد اس وجہ سے معتبر مانا گیا کہ وہ عالم برزخ کو دیکھ چکا ہے لہذا اس کے قول میں اب کذب کا احتمال باقی نہیں رہا اور نہ وہم و خیال اور خطاء اور نسیان کا جیسے شجر اور حجر کا گواہی دینا نبی کا معجزہ ہے اسی طرح مردہ کا زندہ ہو کر قاتل کا نام بتلانا موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ تھا۔ آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ جس طرح اس واقعہ میں اللہ نے محض اپنی قدرت سے عدل اور قصاص جاری کرنے کے لیے عارضی طور پر تھوڑی دیر کے لیے ایک خاص ضرورت اور مصلحت کے لیے ایک مردہ کو تمہارے روبرو زندہ فرمایا اور اس مردہ کا کلام تم نے اپنے کانوں سے سنا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن۔ محض جزاء دینے اور عدل قائم کرنے کے لیے اور انصآف کے لیے دوبارہ اپنی قدرت کاملہ سے مردوں کو محض اپنی قدرت سے زندہ فرمائیگا اور سب کا انصاف کریگا اور مظلوم کا ظالم سے قصاص اور بدلہ لے گا اور وقتاً فوقتاً اپنی قدرت کے نمونے اور کرشمے دکھلاتا رہتا ہے تاکہ تم سمجھو کہ اس قسم کے خوارق اور عجائب وقتاً فوقتاً قدرت کا انکار بےعقلوں کا کام ہے۔ امام المتکلمین عبدالکریم شہرستانی ملل ونحل میں فرماتے ہیں کہ جس طرح بیل اور گدھے انسانوں کے عجیب و غریب افعال کو بنظر استعجاب تکتے ہیں فلاسفہ دوران اور بڑے بڑے سائنسدان، انبیاء ومرسلین کے آیات بینات اور خوارق معجزات کو اس سے کہیں زائد حیرت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اگر کسی فلسفی اور سائنسدان کا اپنی ناقص اور ہوا پرست عقل سے انبیاء ومرسلین کے معجزات کا انکار حجت ہے تو بیل اور گدھوں کا انسانی عجائب وقدرت سے کیوں حجت نہیں خوب سمجھ لو کہ شعور انسانی کو شعور پیغمبری سے وہی نسبت ہے جو شعور حیوانی کو شعور انسانی سے ہے۔ عجب نہیں کہ یہ سنبت بھی نہ ہو۔ انتہی کلامہ مشرحا۔ 2: اس آیت میں جو مضمون مذکور ہے وہ قصۂ مذکورہ بالا کا ابتدائی حصہ ہے۔ اس تقدیم وتاخیر کی وجہ یہ ہے کہ اگر قصہ کو ترتیب سے بیان کیا جاتا تو یہ سمجھا جاتا کہ فقط ایک واقعہ کا بیان مقصود ہے۔ ترتیب کے بدلنے سے دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا اول اس طرف کہ حکم الٰہی کا فوراً امتثال کیوں نہیں کیا۔ اور حکم خداوندی میں معاندانہ حجتیں کیوں نکالیں۔ ایک صریح اور واضح حکم سن لینے کے بعد اس قسم کے گستاخانہ اور تعنت آمیز سوالات کیوں کیے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وحی الٰہی کی کوئی عظمت اور وقعت تمہارے دلوں میں نہیں اور یہی سخت بیماری ہے جو تباہی اور بربادی کی نشانی ہے۔ اور واذ قتلتم نفساً الایۃ۔ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ تم نے اموال دنیا کے طمع میں ایسے محرم نفس کو قتل کیا کہ جو تمہارے لیے بمنزلہ باپ کے تھا اس لیے کہ چچا بھی بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے عم الرجل صنوابیہ انسان کا چچا اس کے باپ کی مانند ہے اور پھر اس کوشش میں پڑے کہ یہ خون دوسروں کے سر لگادیا جائے (ربط): یہاں تک بنی اسرائیل کی عادات شنیعہ کا بیان فرمایا کہ ہمیشہ احکام خداوندی میں حیلے اور بہانے کرتے رہے۔ آئندہ آیات میں اس کا منشاء بیان فرماتے ہیں کہ منشاء اسکا قسوت قلب اور اس قساوت پر اظہار تعجب بھی فرماتے ہیں کہ لیل ونہار آیات قدرت اور معجزات نبوت کا مشاہدہ کرتے رہتے ہو مگر پھر بھی دل نرم نہیں ہوتے کہ نصیحت قبول کریں۔
Top