Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 260
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰى١ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ١ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا١ؕ وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠ ۧ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
: ابراہیم
رَبِّ
: میرے رب
اَرِنِيْ
: مجھے دکھا
كَيْفَ
: کیونکر
تُحْيِ
: تو زندہ کرتا ہے
الْمَوْتٰى
: مردہ
قَالَ
: اس نے کہا
اَوَلَمْ
: کیا نہیں
تُؤْمِنْ
: یقین کیا
قَالَ
: اس نے کہا
بَلٰي
: کیوں نہیں
وَلٰكِنْ
: بلکہ
لِّيَطْمَئِنَّ
: تاکہ اطمینان ہوجائے
قَلْبِىْ
: میرا دل
قَالَ
: اس نے کہا
فَخُذْ
: پس پکڑ لے
اَرْبَعَةً
: چار
مِّنَ
: سے
الطَّيْرِ
: پرندے
فَصُرْھُنَّ
: پھر ان کو ہلا
اِلَيْكَ
: اپنے ساتھ
ثُمَّ
: پھر
اجْعَلْ
: رکھ دے
عَلٰي
: پر
كُلِّ
: ہر
جَبَلٍ
: پہاڑ
مِّنْهُنَّ
: ان سے (انکے)
جُزْءًا
: ٹکڑے
ثُمَّ
: پھر
ادْعُهُنَّ
: انہیں بلا
يَاْتِيْنَكَ
: وہ تیرے پاس آئینگے
سَعْيًا
: دوڑتے ہوئے
وَاعْلَمْ
: اور جان لے
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اور یاد کرو جب کہ ابراہیم نے اے پروردگار میرے دکھلاوے مجھ کو کیونکر زندہ کرے گا تو مردے، فرمایا کیا تو نے یقین نہیں کیا کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے کہ چاہتا ہوں کہ تسکین ہوجاوے میرے دل کو فرمایا تو پکڑ لے چارجانور اڑنے والے پھر ان کو ہلالے اپنی ساتھ، پھر رکھ دے ہر پہاڑ پر ان کے بعد کا ایک ایک ٹکڑا پھر ان کو بلا، چلے آویں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے اور جان لے کہ بیشک اللہ زبردست ہے حکمت والا۔
خلاصہ تفسیر
اور اس وقت (کے واقعہ) کو یاد کرو جبکہ ابراہیم ؑ نے (حق تعالیٰ سے) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھ کو (یہ) دکھلا دیجئے کہ آپ مردوں کو (قیامت میں مثلا) کس کیفیت سے زندہ کریں گے (یعنی زندہ کرنے کا یقین ہے لیکن زندہ کرنے کی مختلف صورتیں اور کیفیتیں ہوسکتی ہیں وہ معلوم نہیں اس لئے وہ معلوم کرنے کو دل چاہتا ہے اس سوال سے کسی کم سمجھ آدمی کو اس کا شبہ ہوسکتا تھا کہ معاذ اللہ ابراہیم ؑ کو مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان و یقین نہیں اس لئے حق تعالیٰ نے خود یہ سوال قائم کرکے بات کھول دی۔ چناچہ ابراہیم ؑ سے اس سوال کے جواب میں اول) ارشاد فرمایا کہ کیا تم (اس پر) یقین نہیں لاتے انہوں نے (جواب میں) عرض کیا کہ یقین کیوں نہ لاتا لیکن اس غرض سے یہ درخواست کرتا ہوں تاکہ میرے قلب کو (معین صورت زندہ کرنے کی مشاہدہ کرنے سے) سکون ہوجاوے (ذہن دوسرے احتمالات سے چکر میں نہ پڑے) ارشاد ہوا کہ اچھا تو تم چار پرندے لو پھر ان کو (پال کر) اپنے لئے ہلالو، (تاکہ ان کی خوب شناخت ہوجاوے) پھر سب کو ذبح کرکے اور ہڈیوں پروں سمیت ان کا قیمہ سا کرکے اس کے کئی حصے کرو اور کئی پہاڑ اپنی مرضی سے انتخاب کرکے) ہر پہاڑ پر ان میں سے ایک ایک حصہ رکھ دو (اور) پھر ان سب کو بلاؤ (دیکھو) تمہارے پاس زندہ ہوکر) دوڑے دوڑے چلے آویں گے اور خوب یقین رکھو اس بات کا کہ حق تعالیٰ زبردست (قدرت والے) ہیں (سب کچھ کرسکتے ہیں پھر بھی بعض باتیں نہیں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ) حکمت والے (بھی) ہیں (ہر کام حکمت و مصلحت کے مطابق کرتے ہیں)
معارف و مسائل
حضرت خلیل اللہ کی درخواست حیات بعد الموت کا مشاہدہ اور شبہات کا ازالہ
یہ تیسرا قصہ ہے جو آیت مذکورہ میں بیان فرمایا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ نے حق تعالیٰ سے یہ درخواست کی کہ مجھے اس کا مشاہدہ کرا دیجئے کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کریں گے ؟ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس درخواست کی کیا وجہ ہے ؟ کیا آپ کو ہماری قدرت کاملہ پر یقین نہیں کہ وہ ہر چیز پر حاوی ہے، حضرت ابراہیم ؑ نے اپنا واقعی حال عرض کیا کہ یقین تو کیسے نہ ہوتا کیونکہ آپ کی قدرت کاملہ کے مظاہر ہر لحظہ ہر آن مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں اور غور وفکر کرنے والے کے لئے جس کام کا مشاہدہ نہ ہو خواہ وہ کتنا ہی یقینی ہو اس میں اس کے خیالات منتشر رہتے ہیں کہ یہ کیسے اور کس طرح ہوگا ؟ یہ ذہنی انتشار سکون قلب اور اطمینان میں خلل انداز ہوتا ہے اس لئے یہ مشاہدہ کی درخواست کی گئی کہ احیاء موتی کی مختلف صورتوں اور کیفیتوں میں ذہنی انتشار واقع نہ ہو کر قلب کو سکون و اطمینان حاصل ہوجائے۔
حق تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول فرما کر ان کے مشاہدہ کی بھی ایک ایسی عجیب صورت تجویز فرمائی جس میں منکرین کے تمام شبہات وخدشات کے ازالہ کا بھی مشاہدہ ہوجائے وہ صورت یہ تھی کہ آپ کو حکم دیا گیا کہ چار پرندے جانور اپنے پاس جمع کرلیں پھر ان کو پاس رکھ کر ہلالیں کہ وہ ایسے ہل جائیں کہ آپ کے بلانے سے آجایا کریں اور ان کی پوری طرح شناخت بھی ہوجائے یہ شبہ نہ رہے کہ شاید کوئی دوسرا پرندہ آگیا ہو پھر ان چاروں کو ذبح کرکے اور ہڈیوں اور پروں سمیت ان کا خوب قیمہ سا کرکے اس کے کئی حصے کردیں اور پھر اپنی تجویز سے مختلف پہاڑوں پر اس قیمہ کا ایک ایک حصہ رکھ دیں پھر ان کو بلائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے زندہ ہو کر دوڑے دوڑے آپ کے پاس آجائیں گے۔
تفسیر روح المعانی میں بسند ابن المنذر حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ایسا ہی کیا پھر ان کو پکارا تو فوراً ہڈی سے ہڈی پر سے پر خون سے خون گوشت سے گوشت مل ملا کر سب اپنی اپنی اصلی ہیئت میں زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آگئے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم قیامت کے روز اسی طرح سب اجزاء واجساد کو جمع کرکے ایک دم سے ان میں جان ڈالدوں گا۔
قرآن کے الفاظ میں يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا آیا ہے کہ یہ پرندے دوڑتے ہوئے آئیں گے، جس سے معلوم ہوا کہ اڑ کر نہیں آئیں گے کیونکہ آسمان میں اڑ کر آنے میں نظروں سے اوجھل ہو کر بدل جانے کا شبہ ہوسکتا ہے زمین پر چل کر آنے میں یہ بالکل سامنے رہیں گے، اس واقعہ میں حق تعالیٰ نے قیامت کے بعد حیات بعد الموت کا ایسا نمونہ حضرت خلیل اللہ کو دکھلا دیا جس نے مشرکین اور منکرین کے سارے شبہات کا ازالہ مشاہدہ سے کرادیا۔
حیات بعد الموت اور عالم آخرت کی زندگی پر سب سے بڑا اشکال منکرین کو یہی ہوتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد مٹی ہوجاتا ہے پھر یہ مٹی کہیں ہوا کے ساتھ اڑ جاتی ہے کہیں پانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے کہیں درختوں اور کھیتوں کی شکل میں برآمد ہوتی ہے، پھر کہیں ذرہ ذرہ دنیا کے اطراف بعیدہ میں پھیل جاتا ہے ان منتشر ذروں اور اجزاء انسانی کو جمع کردینا اور پھر ان میں روح ڈال دینا سطحی نظر والے انسان کی اس لئے سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ سب کو اپنی قدرت و اپنی حیثیت پر قیاس کرتا ہے وہ اپنے سے مافوق اور ناقابل قیاس قدرت میں غور نہیں کرتا، حالانکہ اگر وہ ذرا سا اپنے ہی وجود میں غور کرلے تو اسے نظر آئے گا کہ آج بھی اس کا وجود ساری دنیا میں بکھرے ہوئے اجزاء وذرات کا مجموعہ ہے انسان کی آفرینش جن ماں اور باپ کے ذریعے ہوتی ہے اور جن غذاؤں سے ان کا خون اور جسم بنتا ہے وہ خود جہان کے مختلف گوشوں سے سمٹے ہوئے ذرات ہوتے ہیں پھر پیدائش کے بعد انسان جس غذا کے ذریعے نشوونما پاتا ہے جس سے اس کا خون اور گوشت پوست بنتا ہے اس میں غور کرے تو اس کی غذاؤں میں ایک ایک چیز ایسی ہے جو تمام دنیا کے مختلف ذرات سے بنی ہوئی ہے دودھ پیتا ہے تو وہ کسی گائے، بھینس یا بکری کے اجزاء ہیں اور ان جانوروں میں یہ اجزاء اس گھاس دانے سے پیدا ہوئے جو انہوں نے کھائے ہیں یہ گھاس دانے معلوم نہیں کس کس خطہ زمین میں سے آئے ہیں اور ساری دنیا میں پھرنے والی ہواؤں نے کہاں کہاں کے ذرات کو ان کی تربیت میں شامل کردیا ہے اسی طرح دنیا کا دانہ دانہ اور پھل اور ترکاریاں اور انسان کی تمام غذائیں اور دوائیں جو اس کے بدن کا جزو بنتی ہیں وہ کس کس گوشہ عالم سے کس کس طرح حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور نظام محکم نے ایک انسان کے بدن میں جمع فرما دیئے اگر غافل اور کوتاہ نظر انسان دنیا کو چھوڑ کر اپنے ہی تن بدن کی تحقیق (ریسرچ) کرنے بیٹھ جائے تو اس کو یہ نظر آئے گا کہ اس کا وجود خود ایسے بیشمار اجزاء سے مرکب ہے جو کوئی مشرق کا ہے کوئی مغرب کا کوئی جنوبی دنیا کا کوئی شمالی حصہ کا، آج بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اجزاء قدرت کے نظام محکم نے اس کے بدن میں جمع فرمادئیے ہیں اور مرنے کے بعد یہ اجزاء پھر اسی طرح منتشر ہوجائیں گے تو اب دوسری مرتبہ پھر ان کا جمع فرمادینا اس کی قدرت کاملہ کے لئے کیا دشوار ہے جس نے پہلی مرتبہ اس کے وجود میں ان منتشر ذرات کو جمع فرما دیا تھا۔
واقعہ مذکورہ پر چند سوالات مع جوابات
آیت متذکرہ بالا کے مضمون میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
اولیہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کو یہ سوال ہی کیوں پیدا ہوا جبکہ وہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر ایمان لانے میں اس وقت کی ساری دنیا سے زیادہ یقین پر تھے ؟
اس کا جواب اس تقریر کے ضمن میں آچکا ہے جو اوپر کی گئی ہے کہ درحقیقت حضرت ابراہیم ؑ کا سوال کسی شک وشبہ کی بناء پر تھا ہی نہیں بلکہ سوال کا منشاء صرف یہ تھا کہ حق تعالیٰ قیامت میں مردوں کو زندہ کریں گے ان کی قدرت کاملہ سے یہ کسی طرح بھی مستبعد یا حیرت انگیز نہیں بلکہ یقینی ہے لیکن مردہ کو زندہ کرنے کا کام انسان کی طاقت سے باہر ہے اس نے کبھی کسی مردہ کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھا نہیں اور مردہ کو زندہ کرنے کی کیفیات اور صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں انسان کی فطرت ہے کہ جو چیز اس کے مشاہدہ میں نہ ہو اس کی کیفیات کی کھوج لگانے کی فکر میں رہا کرتا ہے اس میں اس کا خیال مختلف راہوں پر چلتا ہے، جس میں ذہنی انتشار کی تکلیف بھی برداشت کرتا ہے اس ذہنی انتشار کو رفع کرکے قلب کو سکون مل جانے ہی کا نام اطمینان ہے اسی کے لئے حضرت خلیل اللہ نے یہ درخواست پیش فرمائی تھی۔
اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ایمان اور اطمینان میں کیا فرق ہے ایمان اس اختیاری یقین کا نام ہے جو انسان کو رسول کے اعتماد پر کسی غیب کی بات کے متعلق حاصل ہوجائے اور اطمینان سکون قلب کا نام ہے بعض اوقات نظروں سے غائب کسی چیز پر یقین کامل تو ہوتا ہے مگر قلب کو سکون اس لئے نہیں ہوتا کہ اس کی کیفیات کا علم نہیں ہوتا یہ سکون صرف مشاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حضرت خلیل اللہ کو بھی حیات بعد الموت پر تو کامل ایمان و یقین تھا سوال صرف کیفیت احیاء کے متعلق تھا۔
دوسرا سوالیہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ کا سوال زندہ کرنے کی کیفیت سے متعلق تھا اصل حیات بعد الموت میں کوئی شک وشبہ نہ تھا تو پھر ارشاد ربانی اَوَلَمْ تُؤ ْمِنْ یعنی کیا آپ کو یقین نہیں فرمانے کا کوئی موقع نہیں رہتا ؟
جواب یہ ہے کہ جو سوال حضرت ابراہیم ؑ نے پیش فرمایا کہ اصل واقعہ میں کوئی شک نہیں لیکن اس سوال کا ایک مفہوم تو یہی ہے کہ زندہ کرنے کی کیفیت دریافت کرنا منظور ہے۔
انہی الفاظ سوال کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہوسکتا ہے جو اصل قدرت میں شبہ یا انکار سے پیدا ہوا کرتا ہے جیسے آپ کسی بوجھ کے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ فلاں آدمی اس کو نہیں اٹھا سکتا اور آپ اس کا عاجز ہونا ظاہر کرنے کے لئے کہیں کہ دیکھیں تم کیسے اس بوجھ کو اٹھا تے ہو چونکہ حضرت ابراہیم ؑ کے سوال کا یہ غلط مفہوم بھی کوئی لے سکتا تھا اس لئے حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو اس غلط بات سے بری ثابت کرنے کے لئے ہی یہ ارشاد فرمایا اَوَلَمْ تُؤ ْمِنْ تاکہ حضرت ابراہیم ؑ اس کے جواب میں بلیٰ فرما کر افتراء پردازوں کی زد سے نکل جائیں۔
تیسرا سوالیہ ہے کہ اس سوال ابراہیمی سے کم ازکم اتنا تو معلوم ہوا کہ ان کو حیات بعد الموت پر اطمینان حاصل نہ تھا حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر عالم غیب سے پردہ اٹھا دیا جائے تو میرے یقین و اطمینان میں کوئی زیادتی نہ ہوگی کیونکہ مجھے ایمان بالغیب ہی سے اطمینان کامل حاصل ہے تو جب بعض امتیوں کو درجہ اطمینان حاصل ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کے خلیل کو اطمینان کا درجہ حاصل نہ ہو ؟
اس کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اطمینان کے بھی بہت سے درجات ہیں ایک وہ اطمینان ہے جو اولیاء اللہ اور صدیقین کو حاصل ہوتا ہے اور ایک اس سے اعلیٰ مقام اطمینان ہے جو عام انبیاء کو حاصل ہوتا ہے اور ایک اس سے بھی مافوق ہے جو خاص خاص کو بصورت مشاہدہ عطا فرمایا جاتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جو درجہ اطمینان کا حاصل تھا وہ بلاشبہ حضرت ابراہیم ؑ کو حاصل تھا بلکہ اس سے اعلیٰ درجہ اطمینان کا حاصل جو مقام نبوت کے ساتھ خاص ہے اس اطمینان میں حضرت ابراہیم ؑ اور سب امتیوں سے فائق تھے، پھر جس کو وہ طلب فرما رہے ہیں وہ سب سے اعلیٰ مقام اطمینان ہے جو خاص خاص انبیاء (علیہم السلام) کو عطا فرمایا جاتا ہے جیسے سرور کائنات سید الانبیاء ﷺ کو جنت و دوزخ کا مشاہدہ کرا کر اطمینان خاص بخشا گیا۔
الغرض اس سوال کی وجہ سے یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کو اطمینان حاصل نہ تھا یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اطمینان کامل جو مشاہدہ سے حاصل ہوا کرتا ہے وہ نہ تھا اسی کے لئے یہ درخواست فرمائی تھی۔
آیت کے آخر میں اَنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ یعنی اللہ تعالیٰ زبردست ہیں اور حکمت والے ہیں، زبردست ہونے میں قدرت کاملہ کا بیان فرمایا اور حکمت والا کہہ کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ بمقتضائے حکمت ہر ایک کو حیات بعد الموت کا مشاہدہ نہیں کرایا جاتا ورنہ حق جل شانہ کے لئے کوئی دشوار نہیں کہ ہر انسان کو مشاہدہ کرادیں مگر پھر ایمان بالغیب کی جو فضیلت ہے وہ قائم نہیں رہ سکتی۔
Top