Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 27
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ١ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا
اِنَّ : بیشک الْمُبَذِّرِيْنَ : فضول خرچ (جمع) كَانُوْٓا : ہیں اِخْوَانَ : بھائی (جمع) الشَّيٰطِيْنِ : شیطان وَكَانَ : اور ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِرَبِّهٖ : اپنے رب کا كَفُوْرًا : ناشکرا
بیشک اڑانے والے بھائی ہیں شیطانوں کے اور شیطان ہے اپنے رب کا ناشکرا
تبذیر یعنی فضول خرچی کی ممانعت
فضول خرچی کے معنی کو قرآن حکیم نے دو لفظوں سے تعبیر فرمایا ہے ایک تبذیز اور دوسرے اسراف تبذیر کی ممانعت تو اسی آیت مذکورہ میں واضح ہے اسراف کی ممانعت آیت وَلَا تُسْرِفُوْا سے ثابت ہے بعض حضرات نے فرمایا کہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں کسی معصیت میں یا بےموقع بےمحل خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں اور جہاں خرچ کرنے کا جائز موقع تو ہو مگر ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے اس کو اسراف کہتے ہیں اس لئے تبذیر بہ نسبت اسراف کے اشد ہے مبذرین کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔
امام تفسیر حضرت مجاہد نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنا سارا مال حق کے لئے خرچ کردے تو وہ تبذیر نہیں اور اور اگر باطل کے لئے ایک مد (آدھ سیر) بھی خرچ کرے تو وہ تبذیر ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ غیر حق میں بےموقع خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے (مظہری) امام مالک نے فرمایا کہ تبذیر یہ ہے کہ انسان مال کو حاصل تو حق کے مطابق کرے مگر خلاف حق خرچ کر ڈالے اور اس کا نام اسراف بھی ہے اور یہ حرام ہے (قرطبی)
امام قرطبی نے فرمایا کہ حرام و ناجائز کام میں تو ایک درہم خرچ کرنا بھی تبذیر ہے اور جائز و مباح خواہشات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا جس سے آئندہ محتاج فقیر ہوجانے کا خطرہ ہوجائے یہ بھی تبذیر میں داخل ہے ہاں اگر کوئی شخص اصل راس المال کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے منافع کو اپنی جائز خواہشات میں وسعت کے ساتھ خرچ کرتا ہے تو وہ تبذیر میں داخل نہیں (قرطبی ج 10 ص 248)
Top