Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 256
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ : نہیں زبردستی فِي : میں الدِّيْنِ : دین قَدْ تَّبَيَّنَ : بیشک جدا ہوگئی الرُّشْدُ : ہدایت مِنَ : سے الْغَيِّ : گمراہی فَمَنْ : پس جو يَّكْفُرْ : نہ مانے بِالطَّاغُوْتِ : گمراہ کرنے والے کو وَيُؤْمِنْ : اور ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَقَدِ : پس تحقیق اسْتَمْسَكَ : اس نے تھام لیا بِالْعُرْوَةِ : حلقہ کو الْوُثْقٰى : مضبوطی لَا انْفِصَامَ : لوٹنا نہیں لَهَا : اس کو وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
زبردستی نہیں دین کے معاملہ میں503 بیشک جدا ہوچکی ہے ہدایت گمراہی سے اب جو کوئی نہ مانے گمراہ کرنے والوں کو اور یقین لاوے اللہ پر تو اس نے پکڑ لیا حلقہ مضبوط جو ٹوٹنے والا نہیں504 اور اللہ سب کچھ سنتاجانتا ہے
503 یہ آیت جہاد سے متعلق ہے اور اس میں جہاد سے متعلق ایک شبہ کا ازالہ کیا گیا ہے۔ یعنی جہاد کا مقصد یہ نہیں کہ کافروں کو بزور شمشیر مسلمان بنایا جائے بلکہ اس کا مقصد جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے یہ ہے کہ دنیا کو فتنہ فساد سے پاک کیا جائے اور کفار کو مومنوں کو جبرا کافر بنانے سے روکا جائے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے قاتلوا حتی لا تکون فتنۃ ای حتی لا یفتن مومن (مدارک) ایمان کا تعلق چونکہ دل سے ہے اور دل پر جبر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ دل اسی بات کو مانتا ہے جسے وہ اپنے اختیار سے پسند کرتا ہے۔ اس لیے اسلام میں کسی کو جبراً مومن بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیونکہ اس طرح انسان مجبور ہوجائے گا۔ اور اس سے اس کا اختیار چھن جائے گا اور ابتلاء وامتحان کی حکمت فوت ہوجائے گی نیزجبر کا مطلب تو یہ ہوتا ہے۔ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف ایسے فعل پر مجبور کیا جائے۔ جس میں فی نفسہ کوئی بہتری نہ ہو یا اگر ہو تو اس کو نظر نہ آتی ہو۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام سرتاپا خیر ہی خیر ہے۔ نیز اسلام کی راہ اس قدر واضح ہوچکی ہے کہ کفر کی راہ سے اس کا امتیاز بالکل آسان ہے۔ ادنی تامل سے اسلام کی خوبیاں اور کفر کی برائیاں سمجھ میں آسکتی ہیں اور انسان رضا ورغبت سے اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے اس لیے جبرواکراہ کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں اگر کوئی مسلمان عیاذاً باللہ دین اسلام کو چھوڑ کر کفر کی طرف چلا جائے تو وہ چونکہ اسلام کا باغی ہے۔ اس لیے اسے دوبارہ اسلامی آئین قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اگر اس نے دوبارہ اسلام قبول کرلیا تو اسے مسلمانوں کی جماعت میں شامل کرلیا جائے گا ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۔ یہ ماقبل کی علت ہے تعلیل صدر بکلمة التحقیق لزیادة تقریر مضمونہ (روح ص 13 ج 3) 504 حضرت عمر، حسین بن علی، مجاہد اور قتادہ سے منقول ہے کہ طاغوت سے مراد شیطان ہے۔ امام مالک اور امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اللہ کے سوا ہر معبود طاغوت ہے۔ و عن مالک بن انس کل ماعبد من دون اللہ تعالیٰ (روح ص 13 ج 3) والصواب من القول عندی فی الطاغوت انہ کل ذی طغیان علی اللہ نعبد من دونہ اما بقھر منہ لمن عبدہ واما بطاعة ممن عبدہ انسانا کان ذالک المعبود او یشطانا او وثنا او صنما او کائنا ماکان من شیئ (ابن جریر ص 12 ج 3 اور العروة الوثقی سے مراد ایمان اور خالص توحید ہے بالعروة الوثقی قال مجاھد العروة الایمان (قرطبی ص 282 ج 3) یعنی جس نے شیطان کا اتباع ترک کردیا اور ہر غیر اللہ کی عبادت چھوڑ دی اور کفر وشرک سے توبہ کر کے خدائے واحد پر دل وجان سے ایمان لے آیا اس نے ایک ایسی مضبوط اور محکم کڑی کو تھام لیا جو کبھی نہیں ٹوٹے گی۔ یہ مضبوط کڑی ایمان اور اسلام ہے۔ جسے تھام لینے کے بعد دنیا اور آخرت میں خدا کی راہنمائی اور دستگیری حاصل ہوجاتی ہے دل مطمئن ہوجاتا ہے اور تمام کام آسان ہوجاتے ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ نے دو تکوینی قانون بیان فرمائے ہیں۔ پہلا قانون یہ ہے کہ اگر کسی وقت مومنوں کے دلوں میں توحید کے بارے میں کوئی ادنی سا شبہ بھی واقع ہوجائے تو اللہ تعالیٰ فوراً شبہات کے اندھیروں کو نور ہدایت سے دور فرما کر ان کے دلوں کو مطمئن کردیتا ہے اور دوسرا قانون یہ ہے کہ اگر کبھی کسی مشرک کے دل میں دلائل توحید کو دیکھ کر توحید کی طرف میلان سا پیدا ہوجاتا ہے تو جھٹ شیاطین ان کو شبہات کی الجھنوں میں ڈال کر ان کے راہ راستہ پر آنے کے امکان کو ختم کردیتے ہیں۔
Top