Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 260
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰى١ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ١ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا١ؕ وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّ : میرے رب اَرِنِيْ : مجھے دکھا كَيْفَ : کیونکر تُحْيِ : تو زندہ کرتا ہے الْمَوْتٰى : مردہ قَالَ : اس نے کہا اَوَلَمْ : کیا نہیں تُؤْمِنْ : یقین کیا قَالَ : اس نے کہا بَلٰي : کیوں نہیں وَلٰكِنْ : بلکہ لِّيَطْمَئِنَّ : تاکہ اطمینان ہوجائے قَلْبِىْ : میرا دل قَالَ : اس نے کہا فَخُذْ : پس پکڑ لے اَرْبَعَةً : چار مِّنَ : سے الطَّيْرِ : پرندے فَصُرْھُنَّ : پھر ان کو ہلا اِلَيْكَ : اپنے ساتھ ثُمَّ : پھر اجْعَلْ : رکھ دے عَلٰي : پر كُلِّ : ہر جَبَلٍ : پہاڑ مِّنْهُنَّ : ان سے (انکے) جُزْءًا : ٹکڑے ثُمَّ : پھر ادْعُهُنَّ : انہیں بلا يَاْتِيْنَكَ : وہ تیرے پاس آئینگے سَعْيًا : دوڑتے ہوئے وَاعْلَمْ : اور جان لے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور (اے نبی ! اس واقعہ کو بھی یاد کرو کہ) جب ابراہیم نے کہا کہ اے رب مجھے بھی تو دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا (خدا) نے فرمایا کیا تجھے یقین نہیں آتا (ابراہیم (علیہ السلام) نے) کہا کیوں نہیں لیکن اپنے دل کا اطمینان کرنا چاہتا ہوں (خدا نے) فرمایا اچھا چار پرندے لو پھر ان کو ساتھ ہلا لو۔ پھر ان میں سے ہر ایک کا ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے اور جان لو کہ بیشک خدا زبردست ‘ حکمت والا ہے۔
ترکیب : اذ کا عامل محذوف ہے تقدیرہ اذکر پس یہ مفعول بہ ہے نہ مفعول فیہ قال فعل ابراھیم فاعل رب ارنی الخ جملہ مقولہ کیف تحی الموتی جملہ مفعول ہے ارنی کا ای کیفیۃ احیاء الموتی لیطمئن کالام محذوف سے متعلق ہے تقدیرہ و سلتک لیطمئن من الطیر صفۃ ہے اربعۃ کی منہن حال ہے جزء سے سعیا مصدر موضع حال میں اور مفعول مطلق بھی ہوسکتا ہے۔ تفسیر : یہ تیسرا واقعہ ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ملک بابل سے ہجرت کرکے ملک شام میں آنے کے بعد گزرا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہرچند خدا کے فرمانے کی وجہ سے یقین تھا کہ آدمی مر کر گو اس کے اجزاء مخلوط ہوجائیں۔ ہوا میں ہوا اور خاک میں خاک اور پانی میں پانی آگ میں آگ مل جائے مگر اس کو زندہ کرے گا اور اس کے اجزاء کو جمع کرے گا لیکن بمقتضائے بشریت یہ بات گو نہ عجب معلوم ہوتی تھی۔ اس لیے خدا سے سوال کیا کہ مجھ کو دکھا تو کس طرح سے مردوں کو زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا تجھ کو یقین نہیں۔ عرض کیا یقین تو ہے لیکن اطمینان قلبی کے لیے سوال کرتا ہوں کہ اس امر کا مشاہدہ بھی کرلوں تاکہ عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہوجائے۔ خدا نے فرمایا تو چار پرندے لے کر ان کو اپنے پاس رکھ پھر سب کا قیمہ کرکے تھوڑا تھوڑا پہاڑ کے مختلف ٹیلوں پر رکھ دے اور پھر ہر ایک کو بلا۔ تیرے پاس ہر ایک جانور دوڑ کر چلا آوے گا۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مور اور کبوتر اور مرغ اور کوا لیا اور اسی طرح کیا۔ پھر جس کو پکارا اور اس کے اجزاء مجتمع ہو کر زندہ ہوا اور ابراہیم کے پاس دوڑتا ہوا چلا آیا۔ اس امر کے مشاہدہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یقین کامل ہوگیا۔ اگرچہ ان چار پرندوں کے لینے کی وجہ اور ان کے نام کسی صحیح حدیث سے معلوم نہیں ہوتے مگر علماء کے اقوال سے یہ نام جو اوپر گزرے ثابت ہوتے ہیں اور چار پرندوں کے لینے اور ان کے بلانے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بیشتر انسان کے جسم کے لیے چار عنصر ‘ آگ پانی ‘ ہوا ‘ مٹی جزو غالب ہیں اور دنیا میں یہ چار پرند کہ جو ہر ایک دوڑ کر اپنی حیز اصلی کی طرف اڑ جانا چاہتا ہے آپس میں ہلے ملے رہتے ہیں اور ایک روز یہ پھر جدا ہوجاویں گے اور قیامت کو اس قادر مطلق کے حکم سے پھر ملیں گے۔ ہر ایک دوڑتا چلا آوے گا۔ اس امر کے مشاہدہ کے لیے ان کا نمونہ اور ان کے مناسب چار پرند جانور مختلف الطبائع لینے کو کہا اور ان کو بلانے کو فرماتا کہ پہچان رہے اور یہ شبہ نہ ہو کہ یہ اور جانور ہیں ف۔ اول قصہ میں چونکہ حضرت یرمیاہ نے ادب ملحوظ نہ رکھا اور انی یحیٰی ھذہ اللّٰہ بعد موتہا کہا تو خدا نے قرآن میں ان کا نام نہ لیا اور خود انہیں پر امتحان ہوا۔ برخلاف اس کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے رب ارنی کہا اور کیفیت احیائِ موتٰی پوچھی۔ ان کا ذکر آیا۔ دوئم۔ نیچر مفسر نے ان دونوں قصوں کا انکار کیا ہے اور اپنی عادت قدیمہ کے موافق مفسرین پر اعتراض بیہودہ کرکے ایک لغو توجیہ کی ہے کہ کالذی سے مراد کانہ مر علی قریۃ یعنی خواب میں یہ واقعہ گزرا ہے اور اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی خواب کا ہے۔ چونکہ بجز تقلید ملحدین اور کوئی دلیل عقلی یا نقلی اس شخص نے اپنے دعویٰ پر قائم نہیں کی اور توجیہ کو کوئی نحوی یا اہل زبان تسلیم نہیں کرتا اور نیز ان کے کلام میں باہم تعارض بھی ہے۔ اس لیے میں لفظ لفظ جواب دینا مناسب نہیں جانتا۔ بعض عیسائیوں کا یہ اعتراض کہ مردے دنیا میں زندہ نہیں ہوتے خود بائبل کے برخلاف ہے۔ دیکھو کتاب حزقیل میں سینکڑوں مردوں کا زندہ ہونا مذکور ہے۔ اور 2 کتاب تاریخ کے تیرہویں باب 21 درس میں ہے کہ یسع نبی کی قبر میں لوگوں نے ایک مردہ کو ڈال دیا اور جب وہ شخص گرگیا اور الیسع کی ہڈیوں سے لگا تو وہ جی اٹھا اور پائوں پر کھڑا ہوا انتہی دراصل ایسی باتیں ملحد بنایا کرتے ہیں جو کہ سوا محسوسات کے معقولات کے منکر ہیں۔ خدا تعالیٰ اور اس کی قدرت اور اس کے افعال خوارق عادت سب کے منکر ہیں۔ ان کی نظر بہائم کی مانند ہے جو محسوسات سے تجاوز کرکے معقولات تک نہیں پہنچتی اور یہ کہنا کہ یہ قصہ تورات میں کیوں نہیں یا الٹ پلٹ کر وہاں سے نقل کئے گئے ہیں۔ خیال خام ہے اس کا جواب بارہا ہم دے چکے ہیں۔
Top