Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور آپ سے (ماہیتِ ) روح 1 ؎ سے سوال کرتے ہیں (سو) کہہ دو روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تم کو علم جو دیا گیا ہے تو بہت ہی تھوڑا ہے
1 ؎ روح کو ایک گروہ عقلاء صرف یہی کہتا ہے کہ وہ خون کی لطیف بھاپ ہے جس کے زور سے ذی روح کی کل چل رہی ہے جب وہ نہیں تو سب کام بگڑ جاتا ہے اس ذی روح کے مرنے بعد پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا چناچہ یورپ کے دہری اور مادی لوگ اسی کے قائل ہیں جس لیے وہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد ان پر نہ کوئی ثواب ہے نہ عذاب ہے کیونکہ وہ باقی تو رہی نہیں گر یہ خیال محض مغالطہ ہے جس کی غلطی کا اب یورپ کے حکماء پر بھی انکشاف ہو چلا ہے کیونکہ ایک جماعت حکماء قائل ہوگئی ہے کہ مرنے کے بعد روح ایک نورانی پیکر میں جو جسم اول سے مناسبت رکھتا ہے قائم رہتی ہے ہم کو پہلی باتیں سب یاد رہتی ہیں وہ رنج راحت بھی پاتی ہیں۔ حکمائِ یونان کا بھی یہی خیال ہے کہ اکثر اہل ادیان بھی اس کے قائل ہیں جزئیات احوال روح میں البتہ بڑا اختلاف ہے۔ ہنود کا ایک گروہ اس کو قدیم ذاتی کہتا ہے اسی طرح اس کے بقاء کی جانب بھی کلام ہے ‘ بعض ابدی ذاتی کہتے ہیں آریہ وغیرہ ‘ بعض زمانہ دراز تک بقا مانتے ہیں ہنود یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک بدن کو چھوڑ کر جزاء و سزا بھگتنے کے لیے دوسرے جسم میں آتی ہے اور اس عالم عنصری کے میدان میں ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے۔ ان کے نزدیک گویا یہی عالم قدس ہے اسلام نے قرآن و احادیث میں روح کے متعلق دوسرے عالم میں ثواب و عذاب کی بہت تصریح فرمائی اور اصل حالات سے آگاہ کیا ہے۔
Top