Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے
روح کے بارے میں یہودیوں کا سوال اور رسول اکرم ﷺ کا جواب حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھیتوں کے درمیان سے گزر رہا تھا اس وقت آپ کھجور کی ٹہنی پر ٹیک لگا کر تشریف لے جا رہے تھے وہاں سے یہودیوں کا گزر ہوا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان سے روح کے بارے میں دریافت کرو۔ پھر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ دریافت کریں یا نہ کریں۔ ممکن ہے کہ ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو۔ پھر کہنے لگے اچھا دریافت کرلو۔ چناچہ انہوں نے آپ ﷺ سے روح کے بارے میں دریافت کیا آپ ٹھہر گئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں اپنی جگہ کھڑا ہوگیا۔ اس وقت جب وحی نازل ہوچکی تو آپ نے آیت پڑھ کر سنائی جو اوپر مذکور ہے۔ (صحیح بخاری ص 44 ص 686) سنن ترمذی میں حضرت ابن عباس ؓ کا بیان یوں نقل کیا کہ قریش نے یہودیوں سے کہا کہ ہمیں کوئی بات بتادو جو ہم ان سے پوچھیں (جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں) یہودیوں نے کہا کہ روح کے بارے میں دریافت کرو۔ لہٰذا انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں سوال کرلیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (وَ یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ دونوں روایتوں سے معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں نے اور ان کے سمجھانے سے مکہ معظمہ میں قریش نے آنحضرت ﷺ سے روح کے بارے میں سوال کیا تھا کہ روح کیا چیز ہے جس سے انسان کی زندگی برقرار رہتی ہے اور جس کے نکل جانے سے انسان پر موت طاری ہوجاتی ہے۔ قال القرطبی وذھب اکثر اھل التاویل الی انھم سالوہ عن الروح الذی یکون بہ حیاۃ الجسد وقال اھل النظر منھم انما سالوہ عن کیفیۃ الروح و مسل کہ فی بدن الانسان وکیفیۃ امتزاجہ بالجسم اتصال الحیاۃ بہ وھذا الشیء لا یعلمہ الا اللّٰہ عزوجل۔ آیات کریمہ اور احادیث شریفہ میں روح انسانی کے بارے میں بہت سی باتیں مذکور ہیں عالم ارواح میں روحوں کا مجتمع ہونا وہاں تعارف ہونا (کما رواہ البخاری) حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا تیار ہوجانے کے بعد اس میں روح پھونکا جانا (فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ ) پھر بطن مادر میں ہر انسان میں روح پھونکا جانا (کما رواہ الشیخان) اور اسی روح کے ذریعہ زندہ رہنا پھر موت کے وقت اس روح کا نکل جانا حضرت ملک الموت کا روح کو قبض کرنا پھر ان کے ہاتھ سے لیکر فرشتوں کا آسمان کی طرف جانا پھر قبر میں روح کا لوٹایا جانا اور سوال و جواب ہونا اور دنیا سے جانے والی روح کا پہلے سے برزخ میں پہنچی ہوئی روحوں کے پاس جمع ہونا (مشکوٰۃ المصابیح ص 141 تا 143) اور قبر میں آرام یا عذاب میں رہنا پھر صور پھونکے جانے پر روحوں کا جسموں میں داخل ہونا یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں اہل ایمان جانتے ہیں اور مانتے ہیں، یہودیوں نے اور مشرکین نے روح کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کے حکم سے ہے اس کی حقیقت ظاہر نہیں فرمائی اور یہ بتادیا کہ یہ بھی اللہ کی ایک مخلوق ہے، اس سے فلاسفہ کے اس خیال کی تردید ہوگئی جو روح کو قدیم کہتے ہیں، چونکہ احکام شرعیہ میں سے بندوں سے متعلق کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو روح کی حقیقت جاننے پر موقوف ہو اس لیے اس کی حقیقت جاننے کے درپے ہونے کی شرعاً کوئی ضرورت بھی نہیں۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ روح کی حقیقت اس لیے نہیں بتائی گئی کہ انسان کو یہ پتہ چل جائے کہ وہ تو اپنی ذات کی حقیقت جاننے سے بھی عاجز ہے خالق کائنات تبارک و تعالیٰ کی پوری معرفت سے بطریق اولیٰ عاجز ہوگا۔ علامہ بغوی نے معالم التنزیل میں روح کے بارے میں مختلف اقوال لکھے ہیں۔ پھر اخیر میں لکھا ہے۔ واولی الاقاویل ان یوکل علمہ الی اللّٰہ عزوجل وھو قول اھل السنۃ (سب سے بہتر بات یہ ہے کہ اس کا علم اللہ کے ہی سپرد کیا جائے اہل سنت کا یہی قول ہے) (وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا) (اور تمہیں صرف تھوڑا سا علم دیا گیا ہے) یہ خطاب سارے انسانوں کو ہے جن کے عموم میں سوال کرنے والے یعنی یہود بھی آگئے۔ (در منثور ص 200 ج 4) میں حضرت ابن جریج سے (وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا) کے بارے میں نقل کیا ہے کہ محمد والناس اجمعین یعنی اے محمد آپ اور آپ کے علاوہ جو لوگ ہیں سب کو تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا علم تو بہت زیادہ ہے اور ساری مخلوق سے زیادہ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں تھوڑا سا ہی ہے۔ تفسیر در منثور میں یہ بھی ہے کہ جب یہودیوں نے آیت شریفہ کا یہ حصہ (وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا) سنا تو کہنے لگے کہ ہم تو تورات پڑھے ہوئے ہیں اس میں ہر چیز کا بیان ہے، آپ نے فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں قلیل ہی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے سورة لقمان کی آیت (وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلاَمٌ) (آخر تک) نازل فرمائی۔
Top