Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 271
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ١ؕ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنْ : اور اگر تُبْدُوْا : تم ظاہر کرو مَا : جو فِيْٓ : میں اَنْفُسِكُمْ : تمہارے دل اَوْ : یا تُخْفُوْهُ : تم اسے چھپاؤ يُحَاسِبْكُمْ : تمہارے حساب لے گا بِهِ : اس کا اللّٰهُ : اللہ فَيَغْفِرُ : پھر بخشدے گا لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَيُعَذِّبُ : وہ عذاب دے گا مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے ، سب اللہ کا ہے ۔ تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے گا ۔ پھر اسے اختیار ہے ، جسے چاہے ، معاف کردے اور جسے چاہے ، سزادے ۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ “
قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ خالص قانون سازی کرنے والی آیات کے خاتمہ کلام پر بھی خالص وجدانی اور اخلاقی راہنمائی کرتا ہے ۔ یوں وہ دنیاوی زندگی کے لئے ضابطہ بندی کا تعلق بھی خالق کائنات سے جوڑ دیتا ہے ۔ اور یہ رابطہ ایک مستحکم رابطہ ہوتا ہے۔ جس میں ایک طرف تو اللہ خوفی کا تصور ہوتا ہے اور دوسری جانب مالک ارض وسما کی مغفرت اور رحمت کی امیداواری ہوتی ہے ۔ یہی اخلاقی ضمانت ہے جو اسلامی نظام قانون کو حاصل ہوتی ہے ۔ اور جو اسے دوسرے نظامہائے قانون سے ممتاز اور ممیز کردیتی ہے ۔ اور ایک اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان کے دل میں اسلامی قانون کا بےحد احترام پایا جاتا ہے ۔ یہ اخلاقی گارنٹی اور قانون سازی اسلامی معاشرہ میں متوازی طور پر چلتی ہیں ۔ اسلام ان دونوں کی اخلاقی تربیت کا بھی انتظام کرتا ہے جس کے لئے وہ قانون سازی کرتا ہے ۔ نیز اسلام اس معاشرے کی اخلاقی تربیت بھی کرتا ہے جس کے لئے وہ قانون سازی کرتا ہے ۔ اور یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کی مکمل اور متوازن حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے ۔ کہ ایک طرف افراد ومعاشرہ کی اخلاقی تربیت ہورہی ہوتی ہے ، اور دوسری جانب ان کے لئے حکیمانہ قانون سازی ہورہی ہوتی ہے ۔ اللہ کا خوف اور قانون کا خوف ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ اور انسان کے کے لئے قانون وہی ہوتا ہے جو انسان کے خالق نے اس کے لئے تجویز کیا ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کے مقابلے میں اہل زمین کے قوانین ، اہل دنیا کی ضابطہ بندیاں ، اہل زمین کے نظام کیسے چل سکتے ہیں ۔ انسان کی کوتاہ سوچ ، انسان کا محدود علم ، انسان کی محدود فکر ، اس کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے ۔ انسان کی خواہشات آئے دن بدلتی رہتی ہیں ۔ کبھی وہ انسان کسی بات پر متفق نہیں ہوتے ۔ انسان کی کسی رائے کو قرار وثبات حاصل نہیں ہوتا ۔ اس کی معلومات آئے دن بدلتی رہتی ہیں ۔ ایسے حالات میں انسانیت کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق سے جداہوکر ماری ماری پھر رہی ہے ۔ حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ۔ وہ جانتا ہے کہ اس نے جس چیز کی تخلیق کی ہے اس کی فطرت کیا ہے ۔ اس کی مصلحت کیا ہے ، ہر آن اور ہر جگہ اس کے بدلتے ہوئے مصالح اور ضروریات کیا ہیں ۔ انسانیت جان لے کہ اس کی یہ عظیم بدبختی ہے کہ وہ اللہ کی شریعت اور اللہ کے منہاج زندگی سے روگردانی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ یاد رہے کہ الٰہی نظام زندگی سے فرار اور بغاوت کا آغاز مغرب میں اس وقت شروع ہوا ، جب لوگوں ظالم اور باغی کلیسا کا جؤا اپنی گردن سے اتارنا چہا ۔ مغرب میں لوگوں نے کنیسا کے تصور خدا اور تصور الٰہ کے خلاف بغاوت کی تھی ۔ جس کی طرف کنیسا لوگوں بلاتا تھا۔ اور جس تصور کے مطابق لوگوں کے لئے غور وفکر کرنا اور عقل سے کام لینا حرام تھا ۔ اور کلیسا نے مغرب میں عوام پر بھاری ٹیکس عائد کر رکھے تھے ۔ اور ان پر ایک ظالمانہ استبدادی نظام مسلط کررکھا تھا ، جس سے عوام کے اندر سخت نفرت پیدا ہوگئی تھی ۔ جب لوگوں نے اس جبر و استبداد سے گلوخاصی چاہی تو انہوں نے سوچا کہ جب تک وہ کنیسا کے خلاف اعلان جنگ نہ کریں گے اور اس جبر و استبداد سے گلو خاصی حاصل نہیں کرسکتے ۔ لیکن اس معاملے میں اہل مغرب حد اعتدال پر قائم نہ رہے ، انہوں نے اہل کنیسا سے آزادی حاصل کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خدا اور خدا کے اقتدار اعلیٰ سے بھی اپنے آپ کو آزاد کرلیا۔ اس طرح انہوں نے کرہ ارض پر سے ہر اس دین کو مٹادیا جس کی دعوت یہ ہو کہ لوگ اللہ کے نظام زندگی کے مطابق زندگی بسر کریں ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانیت پر ایک عظیم تباہی نازل ہوئی اور اس پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے۔ رہے ہم جو اسلام کے مدعی ہیں ، تو ہمارے حالات قابل غور ہیں ۔ ہمارا حال یہ ہے ہم نے اسلامی نظام زندگی سے بغاوت حاصل کرلی ہے ۔ اللہ کی شریعت اور اسلامی قانون کو ترک کردیا ہے ۔ اور ہمارے یہ حالات اس حقیقت کے باوجود ہیں کہ ہمارے سیدھے سادھے فطری دین نے ہمیں صرف وہی احکام دئیے ہیں جو ہم سے وہ تمام بوجھ اتارتے ہیں جو عیسائیت نے عائد کئے تھے ۔ وہ تمام بندھن توڑدیئے ہیں جن میں ہم ناجائز طور پر جکڑے ہوئے تھے ۔ اس دین نے ہمارے ساتھ نہایت ہی مشفقانہ رحیمانہ سلوک کیا اور ہمارے لئے راہنمائی ، یسر اور استقامت کا سامان فراہم کیا ۔ اور ایک ایسے راستے پر ہمیں گامزن کیا جو ہر طرف سے ترقی واصلاح کی طرف جاتا ہے ۔ اور جس راستے میں کامیابی ہی کامیابی ہے ۔
Top