Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 271
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَ١ۚ وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
اِنْ : اگر تُبْدُوا : ظاہر (علانیہ) دو الصَّدَقٰتِ : خیرات فَنِعِمَّا : تو اچھی بات هِىَ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُخْفُوْھَا : تم اس کو چھپاؤ وَتُؤْتُوْھَا : اور وہ پہنچاؤ الْفُقَرَآءَ : تنگدست (جمع) فَھُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَيُكَفِّرُ : اور دور کرے گا عَنْكُمْ : تم سے مِّنْ : سے، کچھ سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے گناہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہو خَبِيْرٌ : باخبر
اگر تم صدقات کو ظاہر کردو جب بھی اچھی بات ہے اور اگر انہیں چھپاؤ اور فقیروں کو دو جب تو یہ تمہارے حق میں اور بہتر ہے،1051 ۔ اور اللہ تم سے تمہارے کچھ گناہ بھی دور کردے گا،1052 ۔ اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔1053 ۔
1051 ۔ نیکی کی طرح صدقات و خیرات کے بھی مخفی ادا کرنے کی حقیقت تو ظاہرہی ہے لیکن زندگی میں ایسے مواقع بھی برابر پیش آتے رہتے ہیں جہاں نیکی کا اعلان و اظہار بھی ضروری ہوجاتا ہے ایک شخص ہے کہ بھوک پیاس سے نڈھال یا بیماری میں مبتلا سڑک پر پڑا تڑپ رہا ہے ہم قریب سے گزر رہے ہیں اور بالکل ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اسے کھلا کر یا دوا دے کر کہنا چاہیے کہ از سر نوزندہ اٹھا کھڑا کریں لیکن اس اندیشہ سے کہ کہیں ہماری اس خدمت کا شمار ریاء ونمائش میں نہ ہوجائے اس کے پاس سے کتراتے اور خاموش گزرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ تقوی نہیں، عین معصیت اور انتہائی وہم پرستی ہوئی۔ یہاں ضرورت فی الفور مددرسانی کی تھی خواہ اس کے لیے اعلان بہ بانگ دہل ہی کرنا پڑے۔ نہ یہ کہ شبہ ریاء وشائبہ نمائش سے بچنے کے لیے تلاش پہلے گوشہ تنہائی کی شروع ہوجائے، جن مذہبی طبقوں نے نیکی کے اہتمام یا خفاء میں تاکید حد سے زیادہ کی ہے اور خدمت خلق کو مخفی رکھنے کے ساتھ محدود ومقید کریدا ہے، ان کی تعلیم یقیناً ناقص، ناتمام، یکطرفہ ہے اور انہوں نے زندگی میں شب وروز اس قسم کے پیش آنے والے بہ کثرت واقعات کو نظر انداز ہی کردیا ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ صحیح مسلک یہ ہے کہ عمل خیر کے اعلان واخفاء میں اختیار ہے اور ساتھ ہی افضیلت اخفاء کی ہے، جب اعلان میں کوئی خاص مصلحت نہ ہو، (آیت) ” ان تبدواوان تخفوا “ یعنی حسب ضرورت ومصلحت دین اعلان واخفاء جو بھی مناسب ہو۔ (آیت) ” تؤتوھا الفقرآ یعنی فقیروں کے حوالے کرو اہتمام اخفاء کے ساتھ۔ ھو۔ یعنی وہی اہتمام اخفاء۔ 1052 ۔ (ان نیکیوں کی برکت سے) قرآن مجید نے ازالہ سیئات کی جہاں اور صورتیں رکھی ہیں وہاں ایک صورت یہ بھی کہ نیکیاں بدیوں کا کفارہ ہوتی رہتی ہیں اور حسنات سیئات کو محو کرتی رہتی ہیں،۔ یہ چیز محض عقیدہ کی نہیں، مشاہدہ و تجربہ کی بھی ہے کہ خلق کی نظر سے چھپا کر طاعت اور نیکیوں کی عادت اگر ڈال لی جائے تو ایک عرصہ کی مشق کے بعد نفس کی اصلاح خود بخود ایک بڑی حد تک ہوجاتی ہے اور جو کچھ خرابیاں پھر بھی باقی رہ جائیں ان سے درگزر کے لیے خدائے رحمن ورحیم کا لطف وکرم کافی ہے جو خوبیوں کو خرابیوں کا اور بھلائیوں کو برائیوں کا عوض بناتا رہتا ہے۔ یہاں پہنچ کرمسیحیوں کے اس بنیادی عقیدہ کو ایک بار پھر یاد کرلیاجائے کہ گنہ گاروں کی نجات اور گناہوں کے دھلنے کی کوئی صورت بجز اس کے نہیں کہ ” خداوند خدا کا اکلوتا بیٹا “ انسان کے قالب میں دنیا میں آئے اور اپنی جان کو صلیب پردے کر سب کی طرف سے کفارہ ادا کرے ، 1053 ۔ (اور اس لیے وہ ثمر بھی اعمال واحوال کے مطابق دے گا) گناہوں سے باز رکھنے میں خدائے علیم وخبیر کے علم کل ونظر محیط کا استحضار اکسیر کا حکم رکھتا ہے اور اس لیے قرآن مجید نے اسے ہر ایسے موقع پر بار بار دہرایا ہے۔
Top