Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 271
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَ١ۚ وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
اِنْ : اگر تُبْدُوا : ظاہر (علانیہ) دو الصَّدَقٰتِ : خیرات فَنِعِمَّا : تو اچھی بات هِىَ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُخْفُوْھَا : تم اس کو چھپاؤ وَتُؤْتُوْھَا : اور وہ پہنچاؤ الْفُقَرَآءَ : تنگدست (جمع) فَھُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَيُكَفِّرُ : اور دور کرے گا عَنْكُمْ : تم سے مِّنْ : سے، کچھ سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے گناہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہو خَبِيْرٌ : باخبر
اگر تم خیرات ظاہر دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہل حاجت کو تو وہ خوب تر ہے اور (اسطرح) کا دینا) تمہارے گناہوں کو بھی دور کردے گا اور خدا کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے
خفیہ طور پر صدقہ افضل ہے : اَنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ھِیَ (الآیۃ) اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا ا افضل ہے، سوائے اس صورت کے کہ جس میں اعلانیہ خرچ کرنے میں لوگوں کو ترغیب کا پہلو ہو یا تہمت سے بچنا مقصود ہو، تاہم مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے خفیہ طور پر صدقہ کرنا ہی بہتر ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : جن لوگوں کو روز قیامت عرش الہیٰ کا سایہ نصیب ہوگا ان میں وہ شخص بھی ہوگا جس نے اپنے دائیں ہاتھ سے ایسے خفیہ طریقہ سے صدقہ کیا ہوگا کہ اسکے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ؟ (اس تعبیر سے مراد مبالغہ فی الخفاء ہے) نفلی صدقات کو چھپا کر اور جو صدقہ فرض ہو مثلاً زکوٰۃ وغیرہ اس کو علانیہ دینا افضل ہے۔ لَیْسَ علَیْکَ ھُدٰھُمْ یہ جملہ معترضہ ہے یعنی آپ پر یہ واجب نہیں کہ آپ ان کو ہدایت یافتہ کردیں صرف رہنمائی کرنا اور راہ ہدایت دکھانا آپ کا فرض منصبی ہے۔ شان نزول : عبد ابن حمید اور نسائی وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ابتداء میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتہ داروں اور عام غیر مسلم حاجتمندوں کی مدد کرنے میں تامل کرتے تھے، اور اس کو ناپسند کرتے تھے، ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں کی مدد کرنا ہی انفاق فی سبیل اللہ ہے، اس آیت سے ان کی یہ غلط فہمی دور ہوگئی۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ کی والدہ اپنے کفر کے زمانہ میں اپنی بیٹی حضرت اسماء کی خدمت میں مدد کی خواہاں ہو کر مدینہ آئیں تو حضرت اسماء نے اپنی والدہ کی مدد اس وقت تک نہیں کہ جب تک کہ آپ ﷺ سے اجازت نہ لے لی۔ مسئلہ : یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ صدقہ سے مراد نفلی صدقہ ہے جس کا انسانیت کی بنیاد پر ذمی کافر کو بھی دینا جائز ہے، البتہ صدقہ واجبہ مسلمان کے علاوہ کسی کو دینا جائز نہیں ہے۔ مسئلہ : کافر ذمی یعنی غیر حربی کو صرف زکوٰۃ و عشر دینا جائز نہیں البتہ دیگر صدقات واجبہ و نافلہ دینا جائز ہے، اور اس آیت میں زکوٰۃ داخل نہیں ہے۔ (معارف القرآن)
Top