Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 271
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَ١ۚ وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
اِنْ : اگر تُبْدُوا : ظاہر (علانیہ) دو الصَّدَقٰتِ : خیرات فَنِعِمَّا : تو اچھی بات هِىَ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُخْفُوْھَا : تم اس کو چھپاؤ وَتُؤْتُوْھَا : اور وہ پہنچاؤ الْفُقَرَآءَ : تنگدست (جمع) فَھُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَيُكَفِّرُ : اور دور کرے گا عَنْكُمْ : تم سے مِّنْ : سے، کچھ سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے گناہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہو خَبِيْرٌ : باخبر
اگر تم خیرات ظاہر دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہل حاجت کو تو وہ خوب تر ہے اور (اس طرح کا دینا) تمہارے گناہوں کو بھی دور کردے گا۔ اور خدا کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ : یعنی اگر تم لوگوں کے سامنے خیرات دو بشرطیکہ دکھاوٹ کے لیے نہ ہو تو یہ عمل اچھا ہے۔ ابن کثیر، ورش اور حفص نے اس آیت میں اور سورة النساء میں نِعِمَّا کو نون اور عین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ قالون اور ابوبکر اور ابو عمر نے نون کا تو کسرہ پڑھا ہے مگر عین کی حرکت کا اخفاء کیا ہے اور سکون عین بھی جائز ہے۔ باقی قاریوں نے نون کا فتحہ اور عین کا کسرہ پڑھا ہے یہ سب لغات صحیح ہیں۔ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ : اور اگر اہل احتیاج کو تم چھپا کر دو تو یہ فعل سب کے سامنے دینے سے بہتر اور افضل ہے۔ حضرت ابو امامہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : چھپا کر خیرات کرنا رب کے غضب (کی آگ) کو بجھا دیتا ہے اور عزیزوں سے اچھا سلوک کرنا عمر بڑھا دیتا ہے۔ (رواہ الطبرانی بسند حسن) حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس روز اللہ کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا اس روز سات ( قسم کے) آدمیوں کو اللہ اپنے سایہ میں لے لے گا : (1) خلیفۂ عادل ( یا منصف حاکم) (2) وہ جوان جس کی اٹھان اللہ کی عبادت میں ہوئی ہو۔ (3) وہ شخص جس کا دل مسجد سے نکلنے کے بعد بھی واپس آنے تک مسجد میں ہی لگا رہے۔ (4) وہ دو آدمی جو اللہ کی خوشنودی کیلئے باہم محبت کرتے ہیں، باہم اکٹھے ہوتے ہیں تب لوجہ اللہ اور الگ الگ چلے جاتے ہیں تب اسی غرض سے۔ (5) وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کی یاد کرتا ہے اور روتا ہے۔ (6) وہ شخص جس کو کوئی بڑے حسب و نسب والی خوبصورت عورت اپنی طرف گناہ کیلئے بلاتی ہے اور وہ کہتا ہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (7) وہ شخص جو اللہ کی راہ میں کچھ دیتا ہے اور اتنا چھپا کردیتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہیں ہوتا کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا۔ (بخاری ومسلم) حضرت ابن مسعود ؓ کی مرفوع روایت ہے فرمایا : تین آدمی ہیں جو اللہ کو پیارے ہیں ایک وہ جو رات سے اٹھ کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو دائیں ہاتھ سے راہ خدا میں کچھ دیتا ہے اور بائیں ہاتھ سے بھی چھپا کردیتا ہے۔ تیسرا وہ جو کسی جہادی دستہ میں ہو ساتھی شکست کھا کر بھاگ گئے ہوں مگر وہ دشمن کے مقابل ثابت قدم رہے۔ (ترمذی) حضرت ابوذر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : تین آدمی ہیں جن سے اللہ محبت کرتا ہے اور تین آدمی ہیں جن سے اس کو نفرت ہے۔ جن سے اللہ کو پیار ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس ایک آدمی بغیر کسی استحقاق قرابت کے محض اللہ واسطے کچھ مانگنے آیا لیکن کسی نے کچھ نہ دیا صرف ایک آدمی لوگوں کی نظر سے بچ کر ہٹ گیا اور جا کر سائل کو اتنا چھپا کر کچھ دیا کہ اللہ کے اور لینے والے کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہوا۔ دوسرا یہ کہ ایک جماعت رات بھر ( دشمن سے لڑنے کے لیے) سفر کرتی رہی جب (آخر رات کو) ایسا وقت آیا کہ لوگوں کو ہر مساوی المرتبہ چیز سے نیند زیادہ محبوب ہوگئی اور سب نے سونے کے لیے اپنے سر رکھ دیئے تو ایک آدمی کھڑا ہو کر مجھ سے دعا کرنے اور میری آیات کی تلاوت کرنے لگا۔ تیسرا وہ شخص جو کسی جہادی دستہ میں تھا مقابلہ کے وقت (ساتھی) شکست کھا کر بھاگ نکلے مگر یہ شخص دشمن کے مقابل اس وقت تک ثابت قدم رہا کہ شہید ہوجائے یا اللہ فتح عنایت کردے۔ جن تین لوگوں سے اللہ تعالیٰ کو نفرت ہے وہ یہ ہیں۔ زانی بوڑھا۔ اترانے والا فقیر اور ظالم غنی ( ان تینوں کے پاس اپنے گناہ کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ بڑھاپے میں جوش جوانی نہیں ہوتا کہ زنا پر مجبور ہو۔ فقیر کے پاس دولت نہیں ہوتی کہ فکر اور غرور کرنے کا سامان ہو۔ مالدار اپنے گذارے کے لیے کسی کی حق تلفی پر مجبور نہیں ہوتا کیونکہ خود مالدار ہوتا ہے۔ (رواہ الترمذی والنسائی) وَيُكَفِّرُ : یہ قراءت حفص اور ابن عامر کی ہے ابن کثیر ابو عمرو اور ابوبکر نینُکَفِّرُ پڑھا ہے بہر حال یہ جملہ فعلیہ ہے اور ما قبل پر معطوف نہیں۔ یہ جملہ اسمیہ ہے مبتدا محذوف ہے یعنی نَحْنُ نُکَفِّرُ یا اَﷲُ یُکَفِّرُ نافع حمزہ اور کسائی نے نُکَفِّرُ پڑھا ہے کیونکہ اس کا عطف مدخول فاء پر ہے اور مدخول فاء مقام جزاء میں ہے اس لیے جزم ہونا چاہئے۔ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ : ہم تمہارے گناہ ساقط کردیں گے مِن زائد ہے یا یہ کہ ہم تمہارے کچھ گناہ معاف کردیں گے اس وقت مِنْ تبعیضیہ ہوگا یعنی صغیرہ گناہ معاف کردیں گے۔ رسول اللہ نے فرمایا : چھپا کر خیرات کرنا گناہ ( کی آگ) کو بجھا دیتا ہے۔ (رواہ الطبرانی فی الصغیر من حدیث ابی سعید الخدری) وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ : اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے یہ چھپا کردینے کی ترغیب ہے۔ ( کہ تمہاری پوشیدہ خیرات ضائع نہ ہوگی۔ )
Top