Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 272
لَیْسَ عَلَیْكَ هُدٰىهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ کا ذمہ) ھُدٰىھُمْ : ان کی ہدایت وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ خَيْرٍ : مال سے فَلِاَنْفُسِكُمْ : تو اپنے واسطے وَمَا : اور نہ تُنْفِقُوْنَ : خرچ کرو اِلَّا : مگر ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا وَجْهِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو گے مِنْ خَيْرٍ : مال سے يُّوَفَّ : پورا ملے گا اِلَيْكُمْ : تمہیں وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تُظْلَمُوْنَ : نہ زیادتی کی جائے گی تم پر
لوگوں کو ہدایت دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے ۔ اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو ، وہ تمہارے اپنے لئے بھلائی ہے ۔ آخر تم اسی لئے خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو ۔ تو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کروگے ، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیاجائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی ۔ “
ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ حکم فرماتے تھے کہ صرف اہل اسلام پر صدقہ کیا جائے ۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ” لوگوں کو ہدایت دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ................“ تو آپ نے حکم دیا کہ جس دین کے پیروکار بھی تم سے سوال کریں انہیں صدقہ دیا کرو۔ دل اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ اللہ کی مخلوق میں سے یہ بات کسی کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ کسی کو ہدایت دے یا گمراہ کردے ۔ اگرچہ وہ خود رسول ﷺ خود ہوں۔ ہدایت دینا یا گمراہ کرنا اللہ وحدہ کی ذات کا کام ہے ۔ اس لئے کہ وہ دلوں کا خالق ہے ۔ دلوں پر صرف اللہ کی حکمرانی ہے ۔ صرف اللہ ہی دلوں کو موڑسکتا ہے ۔ وہی ہے جو دلوں کو حکم دے سکتا ہے ۔ رسول کا کام صرف یہ ہے کہ وہ پیغام اچھی طرح پہنچادے ۔ رہی ہدایت تو یہ صرف اللہ کا کام ہے ۔ وہ جسے چاہے ہدایت نصیب کردے کیونکہ وہی ہدایت دینے کا مستحق ہے ۔ ہدایت دینا صرف اللہ کا استحقاق ہے ۔ انسان سے اس استحقاق کو لے لینا ، محض اس لئے ہے کہ ایک مومن طلب ہدایت کے لئے صرف اللہ کی طرف رجوع کرے اور وہ صرف اللہ ہی سے دلائل اخذ کرے ۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس استحقاق کو صرف خاصہ خدا قرار دینے کے بعد اب ایک داعی کے لئے یہ جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ گمراہ لوگوں کے ساتھ نفرت کرے یا ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے دلی تنگی محسوس کرے ۔ اس لئے کہ وہ انہیں مسلسل دعوت دیتا رہے گا ۔ ان کے ساتھ رحیمانہ برتاؤ کرے گا اور اس بات کا انتظار کرے گا کہ کب اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ راہ راست پر آجائیں ؟ کب انہیں توفیق بخشتا ہے کہ وہ اس سمت قدم اٹھائیں اور اپنے اللہ کو پہچانیں۔ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ............... ” لوگوں کو ہدایت دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ ہدایت تو اللہ ہی ہے جسے چاہتا ہے بخشتا ہے ۔ “ لہٰذا تم انہیں کھلے دل کے ساتھ دعوت دو اور ان کے لئے سینہ کھول دو ۔ ان پر اپنی رحمت اور حسن عمل کا فیضان کرو ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرتے رہو اور ان کے لئے مددگار ثابت بنو جہاں تک وہ تمہاری امداد کے محتاج ہوں ۔ انہیں حکم دیتے رہو کہ وہ اللہ کی طرف لوٹ آئیں اور اس امداد کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے ۔ یہاں آکر ہم ان بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں جن کے آفاق وسیع اور روشن ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے دل و دماغ کو ان بلندیوں تک پہنچادیتے ہیں اور ان پر ان کے دلوں کو مستحکم کردیتے ہیں ۔ اسلام نہ صرف یہ کہ مذہبی آزادیوں کا اصول متعین کرتا ہے ، نہ صرف یہ کہ وہ دینی امور میں جبر وتشدد کا ہی قلع قمع کرتا ہے بلکہ وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر مذہنی رواداری کی ایسی فضا قائم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہدایات پر مبنی ہے اور وہ یہ اصول طے کرتا ہے کہ بلا امتیاز مذہب و عقیدہ ، معاشی تعاون اور معاشی امداد کے دروازے تمام لوگوں پر کھلے ہیں ۔ بشرطیکہ وہ امت مسلمہ کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہوں۔ وہ یہ یقین دلاتا ہے کہ ایسے حالات میں غیر مسلموں پر خرچ کرنے والوں کا اجر بھی عنداللہ محفوظ ہے ، بشرطیکہ یہ انفاق فی سبیل اللہ محض رضائے الٰہی کے لئے ہو۔ انسانیت کی یہ ایک ایسی سربلندی ہے جس سے ایک جست میں وہ ایک مقام بلند تک پہنچ جاتی ہے اور یہ مقام بلند اسے صرف اسلام کے طفیل ہی نصیب ہوسکتا ہے اور صرف وہی لوگ اس مقام بلند کی حقیقت پاسکتے ہیں ۔ جو صحیح معنوں میں مسلمان ہوں۔ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلأنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لا تُظْلَمُونَ ” اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لئے بھلائی ہے ۔ آخر تم اسی لئے خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کروگے ، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا ۔ اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی شان کی جو جھلک دکھائی ہے ، وہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اہل ایمان جب خرچ کرتے ہیں تو وہ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ............... ” تم اسی لئے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ “ ایک مومن کی صفت بس یہی ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ وہ یہ ہے کہ صرف وہ رضائے الٰہی کے لئے خرچ کرتا ہے ۔ وہ خواہشات نفسانیہ یا کسی غرضب اور مطلب براری کے لئے نہیں خرچ کرتا۔ وہ یوں انفاق فی سبیل اللہ نہیں کرتا کہ انفاق کرے اور پھر کان لگا کر بیٹھ جائے اور سنے کہ لوگ کیا کہتے ہیں ۔ وہ اس لئے خرچ نہیں کرتا کہ وہ اپنے انفاق کے ذریعہ لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوجائے ۔ ان پر اپنی برتری ثابت کرے اور ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑ ثابت کرے ۔ وہ اس لئے نہیں خرچ کرتے کہ ان سے صاحبان اقتدار لوگ راضی ہوں یا وہ انہیں اس کا کوئی بدلہ دیں ۔ وہ تو صرف رضائے الٰہی کی لئے خرچ کرتے ہیں ۔ خالص اللہ کے لئے ۔ اس لئے دل مومن اس مطمئن ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صدقہ کو ضرور قبول فرمائیں گے ۔ نیز اسے پورا اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت دے گا ۔ اسے یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ اللہ نہ صرف یہ کہ اسے پورا پورا اجر دے گا بلکہ اس پر مزید انعام بھی ہوگا ۔ اسے پورا اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ کی مخلوق پر احسان اور انفاق کے نتیجے میں اللہ کی جانب سے وہ احسان اور بھلائی کا مستحق ہے ۔ چناچہ اسی دادوہش کی وجہ سے اس کا تزکیہ نفس ہوتا ہے ۔ اس کے اخلاق پاکیزہ ہوتے ہیں ۔ اور اس کی شخصیت بلند ہوجاتی ہے ۔ جب تک وہ اس جہاں میں زندہ ہوتا ہے رہی جزائے آخرت تو وہ بہرحال اعلیٰ و افضل ہوتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ خیرات وصدقات کے مصارف میں سے خصوصاً ایک مصرف کا ذکر فرماتے ہیں ۔ مومنین میں سے ایک گروہ کی تصویر پیش کی جاتی ہے جو صاف و شفاف ہے ۔ شریفانہ اور باوقار ہے ۔ اس تصویر کو دیکھ کر انسانی شعور میں طلاطم برپا ہوتا ہے ۔ اس تصویر کو دیکھ کر دل مومن حرکت میں آتا ہے اور نفس انسانی ایسی شخصیات کا ادراک کرلیتا ہے جو کسی جانب سے ، کسی قسم کی امداد حاصل کرنے کو پسند نہیں کرتیں ۔ اس لئے ان کی عزت نفس کو کسی طرح بھی ٹھیس نہ لگے ۔ اور وہ طلب حاجت نہیں کرتیں ۔ مبادا کہ انہیں حقیر سمجھ لیا جائے ۔ اس لئے وہ دست سوال دراز کرنے پر آمادہ نہیں ہوپاتیں ۔ اور نہ وہ اس سلسلے میں اظہار مطلب کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
Top