Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 272
لَیْسَ عَلَیْكَ هُدٰىهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ کا ذمہ) ھُدٰىھُمْ : ان کی ہدایت وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ خَيْرٍ : مال سے فَلِاَنْفُسِكُمْ : تو اپنے واسطے وَمَا : اور نہ تُنْفِقُوْنَ : خرچ کرو اِلَّا : مگر ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا وَجْهِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو گے مِنْ خَيْرٍ : مال سے يُّوَفَّ : پورا ملے گا اِلَيْكُمْ : تمہیں وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تُظْلَمُوْنَ : نہ زیادتی کی جائے گی تم پر
ان کو ہدایت دینا تمہارے ذمے نہیں ہے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو مال بھی تم خرچ کروگے اس کا نفع تمہیں کو حاصل ہونا ہے اور نہ خرچ کیجیو مگر اللہ کی رضا جوئی ہی کے لیے اور جو مال بھی تم خرچ کروگے وہ تم کو پورا کردیا جائے گا اور تمہارے حق میں ذرا بھی کمی نہ کی جائے گی۔
خبر کے اسلوب میں انشائیہ جملہ : اس آیت میں کوئی خاص لفظ تحقیق طلب نہیں ہے صرف وما تنفقون الایہ کے اسلوب کے باب میں کچھ تردد سا ہے۔ مجھے بار بار خیال ہوتا ہے کہ یہ خبر کے اسلوب میں انشائیہ جملہ ہے۔ عربی زبان میں یہ طریقہ معروف ہے۔ قرآن میں اس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں کہ امر یا نہی کے مضمون کو ان مواقع میں خبریہ اسلوب میں کردیتے ہیں جب مخاطب کو کوئی بات شفقت اور التفاتِ خاص کے ساتھ سمجھانی ہو۔ میں نے ترجمہ میں اس کا لحاظ کیا ہے۔ پچھلوں میں سے بھی بعض لوگوں نے اس کو اختیار کیا ہے۔ لیکن مجھے اس پر پورا پورا جزم نہیں ہے۔ اہل علم اس کو نگاہ میں رکھیں۔ پوری آیت پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس میں بیک وقت نبی ﷺ کو بھی بطریق التفات مخاطب فرمایا ہے اور عام مسلمانوں کو بھی۔ نبی ﷺ کو مخاطب کر کے اس سنت اللہ کییاد دہانی کی گئی ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے اور جس کا ذکر اس سورت میں بھی ایک سے زیادہ مقامات میں ہوا ہے اور قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی مختلف اسلوبوں اور شکلوں میں ہوا ہے۔ وہ سنت اللہ یہ ہے کہ نبی کی ذمہ داری لوگوں کی ہدایت کے معاملے میں صرف یہ ہے کہ وہ ان کو اللہ کی تعلیمات اور ہدایات سے اچھی طرح آگاہ کردے۔ اگر یہ کام اس نے کردیا تو اس کا فرض پورا ہوگیا۔ یہ ذمہ داری اس پر نہیں ہے کہ لوگ ان تعلیمات و ہدایات کو قبول بھی کرلیں۔ ان کو قبول کرنے کی توفیق دینا اللہ کا کام ہے اور وہ یہ توفیق ان کو دیتا ہے جن کو چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس چاہنے کے لیے خود اس کا مقرر کیا ہوا ایک ضابطہ ہے جس کی وضاحت ہم آیت 256-260 کے تحت کرچکے ہیں۔ مقصود اس سنت اللہ کی طرف اشارہ کرنے سے یہ ہے کہ درباب انفاق جو باتیں بتانی تھیں وہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بتا دیں۔ آپ کا فرض ادا ہوگیا۔ اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ ان کو قبول کریں یا رد کریں۔ آپ اس چیز کے لیے پریشان نہ ہوں۔ اگر لوگ ان کی قدر نہ کریں گے تو اس کا خمیازہ خود ہی بھگتیں گے۔ خدا کو دینا اپنے لیے جمع کرنا ہے : مسلمانوں کو خطاب کر کے آخری تنبیہ کے طور پر فرمایا کہ جو مال بھی تم خدا کی راہ میں خرچ کروگے یہ نہ سمجھو کہ یہ کسی دوسرے کو دے رہے ہو بلکہ یہ تم اپنے ہی لیے جمع کر رہے ہو جو تمہیں سات سو گنے تک بڑھ کر ایک دن واپس ملنا ہے۔ بس یہ شرط ہے کہ تمہارا یہ خرچ کرنا اللہ کی خوشنودی کے سوا کسی اور مقصد سے نہ ہو۔ اللہ کی خوشنودی کے سوا کسی اور مقصد سے نہ ہو۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے جو کچھ خرچ کروگے سب تمہارا پورا کردیا جائے گا اس میں ذرا بھی کمی نہ کی جائے گی۔
Top