Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 70
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق كَرَّمْنَا : ہم نے عزت بخشی بَنِيْٓ اٰدَمَ : اولاد آدم وَحَمَلْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں سواری دی فِي الْبَرِّ : خشی میں وَالْبَحْرِ : اور دریا وَرَزَقْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَفَضَّلْنٰهُمْ : اور ہم نے اہنیں فضیلت دی عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : بہت سی مِّمَّنْ خَلَقْنَا : اس سے جو ہم نے پیدا کیا (اپنی مخلوق) تَفْضِيْلًا : بڑائی دیکر
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
تفسیر 70۔” ولقد کرمنا بنی آدم “ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ انگلیوں سے کھانا بھی عزت بخشی ہے اور انسان کے علاوہ جو چیزیں ہیں وہ زمین سے اپنے منہ کے ذریعہ کھاتے ہیں ۔ ان سے روایت ہے کہ ان کے نزدیک اس سے مراد عقل ہے۔ ولقد کرمنا بنی آدم کی مختلف تفاسیر ضحاک نے کہا کہ اس سے مراد گویائی ہے۔ عطاء کا قول ہے کہ قد کا اعتدال ، مزاج میں اعتدال اور دواب وہ ہیں جن پر سوار ہوتے ہیں ۔ بعض نے کہا کہ اس عزت سے مراد حسن صورت ہے اور بعض نے کہا کہ مردوں کو عزت بخشی ، داڑھی کے بالوں کے ساتھ اور عورتوں کی زلفوں کے ساتھ ۔ بعض نے کہا کہ ” کرمنا “ سے مراد تمام اشیاء ہیں جو انسانوں کے لیے مسخر کردیئے ہیں اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد خیر امت ہے جس کو ” اخرجت للناس “ لوگوں کی بھلائی اور تبلیغ کے لیے حکم دیا گیا ۔ ” وحملنا ھم فی البر والبحر “ خشکی میں سوار ہونے کے لیے چوپائے عطا کئے اور سمندر میں کشتیاں بنائیں ۔ ” ورزقناھم من الطیبات “ کھانے پینے کی لذیز اشیاء اور مقاتل کا بیان ہے کہ اس سے مراد مکھن ، پنیر ، چھوہارے اور میٹھی اشیاء ۔ ان اشیاء کے علاوہ دوسری چیزوں کا رزق جو اس سے کوئی مخفی نہیں۔ انسان اگر نیک ہے تو فرشتوں سے بھی افضل ہے ” و فضلنا ھم علی کثیر من خلقنا تفضیلاً “ ظاہر آیت یہی ہے کہ ان کو فضلیت دی ہے۔ بعض اشیاء میں نہ کہ تمام چیزوں میں اور بعض نے کہا ہ ان کو تمام مخلوق پر فضلیت دی مگر ملائکہ پر ان کو فضلیت نہیں دی ۔ کلبی نے کہا سوائے چند فرشتوں کے باقی فرشتوں سے بھی انسان کو برسری حاصل ہے۔ جبرئیل ، میکائیل ، اسرافیل (علیہم السلام) اور ملک الموت کے علاوہ سب پر انسان کو فضلیت دی گئی ہے۔ انسان فرشتوں سے افضل ہیں یا فرشتے انسان سے افضل ہیں اس کے متعلق آئمہ کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسان تمام مخلوقات سے افضل ہے یہاں تک کہ تما م ملائکہ سے بھی افضل ہے اور بعض اکثر کو کل کا قائم مقام قرار دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔” ھل انبئکم علی من تنزل الشیاطین “ سے لے کر ” واکثرھم کاذبون “ اس سے مراد تمام کے تمام ہیں۔ حضرت جابر ؓ کی مرفوع روایت نقل کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اور ان کی ذریت کو پیدا کردیا تو فرشتوں نے عرض کیا، اے رب تو نے ان کو پیدا کردیا ، وہ کھائیں گے ، پئیں گے ، عورتوں سے قربت کریں گے اور سواریوں پر سوار ہوں گے۔ پس ان کے لیے تو دنیا کر دے اور ہمارے لیے آخرت خاص کر دے۔ اللہ نے فرمایا جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس کے اندر اپنی روح کا کچھ حصہ پھونکا ، اس کو میں اس مخلوق کی طرح نہیں کروں گا جس کو پیدا کرنے کے لیے میں نے کن کہا اور وہ ہوگئی ۔ بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے عوام المومنین افضل ہے عوام الملائکہ سے اور خواص المومنین افضل ہیں ۔ خواص الملائکہ سے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :” ان الذین امنوا وعملو الصالحات اولئک ھم خیر البریۃ “ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے وہ سب مخلوق سے بہتر ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مؤمن اللہ کے نزدیک ان ملائکہ سے بھی جو اس کے پاس ہیں ، زیادہ عزت والا ہے۔
Top