Tafheem-ul-Quran (En) - Al-Baqara : 267
وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ١ؕ اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَا١ۚ بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا
بلاشبہ یہ لوگ اس بستی پر گزرے ہیں جس پر بری بارش برسائی گئی کیا یہ اسے نہیں دیکھتے رہے، بلکہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ موت کے بعد اٹھنے کی امید ہی نہیں رکھتے،
(اَفَلَمْ یَکُوْنُوْا یَرَوْنَہَا) (کیا یہ لوگ ان بستیوں کو دیکھتے نہیں رہے) (بَلْ کَانُوْا لاَ یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا) یعنی یہ لوگ ان بستیوں پر گزرتے ہیں لیکن ان کا عبرت نہ پکڑنا بےعلمی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مر کر جی اٹھنے کی امید ہی نہیں رکھتے یعنی آخرت کے منکر ہیں اور ہلاک شدہ بستیوں کو یوں ہی امور اتفاقیہ پر محمول کرتے ہیں اور اپنے کفر کو دنیا یا آخرت میں موجب سزا نہیں سمجھتے۔ جن لوگوں کو کفر کی وجہ سے ہلاک کیا گیا ہے ان میں اصحاب الرس کا ذکر بھی فرمایا الرس عربی میں کنویں کو کہتے ہیں یہ کنویں والے لوگ کون تھے کس علاقہ میں تھے ان کی طرف کس نبی کی بعثت ہوئی تھی ؟ اس بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی صاحب روح المعانی نے ان کے بارے میں متعدد اقوال لکھے ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگ یمامہ کی ایک بستی میں رہتے تھے جو قوم ثمود کے بقایا تھے اور ایک قول یہ ہے کہ شہر انطا کیہ (شام) میں ایک کنواں تھا یہ لوگ اس کنویں کے آس پاس رہتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) اصحاب الایکہ اور اصحاب الرس دونوں قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے یہ لوگ بتوں کی پرستش کرتے تھے ان کے بہت سارے کنویں تھے اور کثیر تعداد میں مویشی تھے انہیں اسلام کی دعوت دی تو سر کشی میں آگے بڑھتے چلے گئے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کو برابر ایذاء پہنچاتے رہے حتیٰ کہ ایک دن ایک کنویں کے چاروں طرف جمع تھے جو صرف کھودا ہی گیا تھا پکا نہیں بنایا گیا اس کنویں کی آس پاس کی زمین انہیں لے کر گرتی چلی گئی اور یہ لوگ اسی سے ہلاک ہوگئے ایک قول یہ ہے کہ اصحاب الرس سے اصحاب الاخدود مراد ہیں (جن کا سورة بروج میں ذکر ہے اور الرس سے اخدود یعنی خندق مراد ہے)
Top