Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم ہر انسان کی گردن میں اس کا اعمال نامہ ڈال دیں گے، اور ہم اس کے لیے کھلی ہوئی کتاب نکال دیں گے
ان آیات میں بتایا ہے کہ انسان کا عمل ہی اسے نفع نقصان دے گا جیسے عمل کرے گا قیامت کے دن سامنے آجائیں گے فرشتے جو دنیا میں انسانوں کے اعمال لکھتے ہیں انسان ان اعمال کو کتابی صورت میں دیکھ لے گا۔ اچھے عمل والوں کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور برے اعمال والوں کا اعمال نامہ پشت کے پیچھے سے اور بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، چونکہ ہر ایک کے اعمال کا بدلہ ملے گا اور انکار بھی کوئی فائدہ نہ دے گا اور ہر ایک کے اعمال کا نتیجہ لازمی طور پر سامنے آہی جائے گا اس لیے اسے (اَلْزَمْنٰہُ طٰٓءِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ) سے تعبیر فرمایا۔ جس کا ترجمہ بعض اکابر نے یوں کیا ہے کہ ہم نے ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار بنا دیا ہے عمل کو طائر یعنی پرندہ سے کیوں تعبیر فرمایا ؟ اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اہل عرب جب کسی کام کے لیے جانا چاہتے تھے تو درخت کی ٹہنی ہلا دیتے تھے۔ داہنی طرف کو پرندہ اڑ جاتا تھا تو سمجھتے تھے کہ کام ہوجائے گا اسے فال نیک کہتے تھے اگر پرندہ بائیں طرف کو اڑ جاتا تو کہتے تھے کہ کام نہیں ہوگا اس کو بدفالی کہتے تھے اور اس کی وجہ سے سفر میں جانے سے رک جاتے تھے۔ اپنے کام کے لیے جانے نہ جانے کا مدار انہوں نے پرندہ کے اڑنے کو بنا رکھا تھا اور گویا پرندہ اڑنا ہی باعث عمل تھا اس لیے انسان کے اعمال کو آیت بالا میں طائر سے تعبیر فرمایا۔ پھر فرمایا (وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا) (اور اس کے لیے ہم کتاب نکال دیں گے وہ اس کتاب کو کھلی ہوئی دیکھ لے گا۔ )
Top