Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم نے ہر انسان کی شامت خود اس کی گردن سے باندھ دی ہے قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکال کر پیش کردیں گے وہ اسے اپنے سامنے کھلا دیکھ لے گا
ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار ہے جو بطور جزغیر منفک کے لازم ہے ۔ 17۔ نزول قرآن کے وقت پیروان مذاہب کا عالم گیر اعتقاد یہ تھا کہ جزا محض اللہ رب العزت کی خوشنودی اور اس کے قہر وغضب کا نتیجہ ہے اعمال کے نتائج کو اس میں داخل نہیں ۔ الوہیت اور شاہیت کا نشانہ تمام مذہبی تصورات کی طرح اس معاملے میں بھی گمراہی فکر کا موجب ہوا تھا لوگ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام واکرام دینے لگتا ہے کبھی بگڑ کر سزائیں دینے لگتا ہے اس لئے خیال کرتے تھے کہ اللہ رب العزت کا بھی ایسا ہی حال ہے وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے کبھی غیظ وغضب میں آجاتا ہے طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھادوں کی رسم اس اعتقاد سے پڑی تھی دیوتاؤں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے لئے قربانیاں کرتے اور انکی نظر التفات حاصل کرنے کے لئے نذریں چڑھاتے ، یہودی بہت سے دیوتاؤں کی جگہ خاندان اسرائلت کا ایک خدا مانتے تھے لیکن پرانے دیوتاؤں کی طرح یہ خدا بھی شاہی اور مطلق العنانی کا خدا تھا وہ کبھی خوش ہو کر انہیں ایسی چہیتی قوم بنا لیتا کبھی جوش انتقام میں آکر بربادی وہلاکت کے حوالے کردیتا عیسائیوں کا اعتقاد تھا کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی پوری نسل مغضوب ہوگئی اور جب تک اللہ میاں نے اپنی صفت ابنیت کو بشکل مسحا قربان نہیں کردیا اس کی نسل گناہ اور مغضوبیت کا کفارہ نہ ہوسکا ۔ لیکن قرآن کریم نے جزا وسزا کا اعتقاد ایک دوسری ہی شکل ونوعیت کا پیش کیا ہے وہ اسے اللہ کا کوئی ایسا فعل قرار نہیں دیتا جو کائنات ہستی کے عام قوانین ونظام سے الگ ہو بلکہ اس کا ایک قدرتی گوشہ قرار دیتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ کائنات ہستی کا عالم گیر قانون یہ ہے ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہرچیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے ممکن نہیں یہاں کوئی شے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات ونتائج کے سلسلہ سے باہر ہو پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے اجسام ومواد میں خواص ونتائج رکھے ہیں اسی طرح اعمال میں بھی خواص ونتائج ہیں اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں اسی طرح روح انسانی کے لئے بھی قدرتی انفعالات ہیں جسمانی موثرات جسم پر موثر ہوتے ہیں مصنوعی موثرات سے روح متاثر ہوتی ہے اعمال کے یہی قدرتی خواص وانتائج ہیں جنہیں جزا وسزا سے تعبیر کیا گیا ہے اچھے عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور یہ ثواب ہے برے عمل کا نتیجہ برائی ہے اور یہ عذاب ہے ، ثواب و عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کیا ہوگی ؟ وحی الہی میں ہماری فہم و استعداد کے مطابق اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کا ہے ، ایک دوزخ کا ، بہشت کے نعائم ان کے لئے ہیں جن کے اعمال بہشتی ہوں گے ، دوزخ کی عقوبتیں ان کے لئے ہیں جن کے اعمال دوزخی ہوں گے ، اس مضمون کو زیر نظر آیت میں اس طرح بیان کیا گیا کہ ہر انسان کی نیک بختی اور بدبختی اور اس کے انجام کی برائی اور بھلائی کے اسباب ووجوہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہیں ۔ اپنے اوصاف ‘ اپنی سیرت وکردار ‘ اپنی قوت تمیز اور قوت فیصلہ وانتخاب کے استعمال سے وہ خود ہی اپنے آپ کو سعادت کا مستحق بھی بناتا ہے اور شقاوت کا مستحق بھی ۔ ن نادان لوگ اپنی قسمت کے شگون باہر سے لیتے پھرتے ہیں اور ہمیشہ خارجی اسباب ہی کو اپنی بدبختی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا پروانہ خیر وشر ان کے اپنے گلے کا ہار ہے وہ اپنے گریبان میں منہ ڈالیں تو دیکھ لیں کہ جب چیز نے ان کو بگاڑ اور تباہی کے راستے پر ڈالا اور آخرت کار خائب و خاسر بنا کر چھوڑا وہ ان کے اپنے ہی برے اوصاف اور برے فیصلے تھے ‘ نہ یہ کہ باہر سے آکر کوئی چیز زبردستی ان پر مسلط ہوگئی تھی۔ ادہام پرستوں میں آج تک یہ وہم چلے آ رہے ہیں کہ کسی کام کو نکلے ‘ راستہ میں بلی وغیرہ کوئی جانور خود سامنے سے گزرا تو یقین کرلیا کہ یہ کام نہیں ہوگا اور راستہ ہی سے واپس لوٹ آئے ، صبح ہی صبح کسی پرندے کی آواز کانوں میں پڑگئی تو سارا دن طرح طرح کے اندیشوں کی نظرہو جاتا ہے ، زیر نظر آیت میں یہ واضح فرما دیا کہ انسان کی فلاح و خسران کا انحصار طوطے ‘ کوے اور بلی ‘ چوہے پر نہیں بلکہ اسے کے ان اعمال پر ہے جن کو وہ اپنے اختیار سے بجا لاتا ہے وہی اسے سرفراز کرتے ہیں اور وہی اس کی ذلت کا سبب بنتے ہیں وہ اپنے اعمال کے نتائج سے دستگاری حاصل نہیں کرسکتا وہ مکافات عمل کے قانون کو نہیں بدل سکتا اور اس کے اعمال کا رشتہ اتنا گہرا اور مضبوط ہے جیسے کوئی چیز گلے میں لٹک رہی ہو اور وہ اس سے جدا بھی نہ وہ سکتی ہو ” الزمنہ طئرہ فی عنقہ “ محاورہ عرب میں شدت لزوم اور کمال ربط کے اظہار کے لئے بولا جاتا ہے جیسے اردو زبان میں ” گلے کا ہار ہونا “ بولا جاتا ہے ۔
Top