Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہر انسان کو، ہم نے اسے اس کا نصیب اس کی گردن میں لازم کردیا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے، جسے وہ کھولی ہوئی پائے گا۔
وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ۔۔ : ”طَاءِرٌ“ کا لفظی معنی اڑنے والا ہے۔ مراد کسی بھی چیز کا وہ جز ہے جو انسان کے حصے میں آئے، گویا وہ اڑ کر اس کے پاس آتا ہے۔ شگون لینے یا قرعہ ڈالنے کی صورت میں اس کے حق میں نکلنے والا نتیجہ خواہ اچھا ہو یا برا۔ انسان کے حصے میں آنے والی چیز یا اس کا عمل جو اس نے کرنا ہے اور اس کا رزق جو اسے ملنا ہے، سب پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل وتمیز دے کر یہ اختیار دیا ہے کہ وہ سیدھے راستے پر چلے یا غلط راستے پر، نیک عمل کرے یا بد، پھر بھی اس نے جو کچھ کرنا ہے، خواہ اس کے اختیار میں ہے، جیسے نیکی یا بدی اور خواہ اس کے اختیار میں نہیں ہے، جیسے اس کی عمر، اسے پیش آنے والے اچھے یا برے حوادث، سب اللہ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم ہے اور وہ ہر انسان نے کرنا ہی کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اندازہ (تقدیر) غلط نہیں ہوسکتے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ہر انسان کے نصیب اور حصے میں جو کچھ آنے والا ہے وہ ہم نے اس کی گردن کے ساتھ لازم کردیا ہے، جیسے گردن میں پڑا ہوا طوق یا ہار۔ جو چیز کسی کو لازم کردی جائے اور وہ اس سے جدا نہ ہو سکے اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ”أَلْزَمْتُہُ فِيْ عُنُقِہِ“ کہ میں نے اسے اس کی گردن میں چپکا دیا ہے۔ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ۔۔ : آیت کا پہلا حصہ تقدیر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ حصہ انسان کے ان اعمال سے متعلق ہے جو اس نے دنیا میں کیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے تحریر کرنے کے لیے فرشتے مقرر فرما رکھے ہیں۔ دیکھیے سورة قٓ (16 تا 18) اور انفطار (10 تا 12) ان کی تیار کردہ کتاب اعمال قیامت کے دن ہر انسان کے سامنے آجائے گی، ایسی صورت میں کہ خودبخود کھلی ہوگی، آدمی خواہ پڑھا ہوا ہے یا ان پڑھ، ہر ایک کو حکم ہوگا کہ اپنے اعمال کی کتاب پڑھ لے اور ہر شخص اسے پڑھ لے گا، گویا اس کی زندگی کی مکمل تصویر اس کے سامنے آجائے گی، جسے وہ پہلے بھی بہانہ سازیوں کے باوجود خوب جانتا ہوگا۔ (دیکھیے قیامہ : 13 تا 15) اس کتاب اعمال میں اس کا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل درج ہونے سے رہ نہیں جائے گا۔ دیکھیے سورة کہف (49)۔rnۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا : اس کی ترکیب یہ کی جاتی ہے ”كَفٰى“ فعل، باء زائدہ، ”نَفْسِکَ“ فاعل، ”حَسِيْبًا“ تمیز اور ”عَلَيْكَ“ اس کے متعلق ہے۔ یہ ترکیب درست ہے، مگر اس میں کمی صرف یہ ہے کہ باء کو محض زائدہ کہہ دیا گیا ہے، حالانکہ قرآن مجید میں ایک حرف بھی بےمقصد و زائد نہیں، چناچہ شنقیطی، طنطاوی اور کئی مفسرین نے صراحت فرمائی ہے کہ یہ ”کَفیٰ“ کی تاکید کے لیے ہے، یعنی آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔ یہی بات ”وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا“ (بنی اسرائیل : 65) میں بھی ملحوظ رکھیں۔ نفس کے بطور محاسب کافی ہونے میں وہ صورت بھی شامل ہے کہ جب انسان اس کتاب اعمال کو جھٹلا دے گا، پھر اللہ کے حکم سے زبان پر مہر لگ جائے گی اور خود انسان کے جسم کا ہر حصہ اپنے اعمال کی شہادت دے گا۔ اب خود اپنے جسم سے زیادہ کافی محاسب کون ہوسکتا ہے۔ دیکھیے سورة یس (65) ، حم السجدہ (19 تا 23) اور سورة مجادلہ (18)۔
Top