Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 14
اِقْرَاْ كِتٰبَكَ١ؕ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ
اِقْرَاْ : پڑھ لے كِتٰبَكَ : اپنی کتاب (نامہ اعمال) كَفٰى : کافی ہے بِنَفْسِكَ : تو خود الْيَوْمَ : آج عَلَيْكَ : اپنے اوپر حَسِيْبًا : حساب لینے والا
وہ اس کتاب کو کھلی ہوئی دیکھ لے گا آج تو اپنا حساب کرنے کے لیے کافی ہے،
انسان سے کہا جائے گا (اِقْرَاْ کِتٰبَکَ ) (تو اپنی کتاب پڑھ لے) (کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا) (آج تو ہی اپنا حساب جانچنے کے لیے کافی ہے) انسان کی ہوشمندی یہی ہے کہ اپنی جان کے لیے فکر مند ہو اور اپنا حساب کرتا رہے یوم آخرت میں حساب کرنے کے بعد اپنے حق میں نتیجہ اچھا نہ نکلا تو اس وقت حساب کرنے سے فائدہ نہ ہوگا اسی دنیا میں حساب کرتے رہیں تو نفس کو برائیوں سے بچا کرلے جانا آسان ہوگا نفس کا محاسبہ کرتے رہیں اور اسے تنبیہ کرتے رہیں کہ دیکھ گناہ کرے گا تو عذاب بھگتے گا اسی کو فرمایا حاسبوا قبل ان تحاسبوا کہ حساب کیے جانے سے پہلے اپنا حساب کرلو، جو شخص یہاں اپنا حساب کرتا رہا اس کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا وہ وہاں کامیاب ہوگا اور خوشی کے ساتھ یوں کہے گا (ھآاؤُمُ اقْرَءُ وْاکِتَابِیَہْ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اِنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہٗ ) (آجاؤ میری کتاب پڑھ لو بلاشبہ مجھے یقین تھا کہ میرا حساب سامنے آنے والا ہے) اور جس کے بائیں ہاتھ میں کتاب دی گئی وہ اس بات کو پسند کرے گا کہ اس کا اعمال نامہ دیا ہی نہ جاتا۔ (یَالَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتَابِیَہٗ وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہٗ ) (ہائے کاش مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ )
Top