Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 17
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا وَّ النَّوْمَ سُبَاتًا وَّ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ جَعَلَ : جس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لیے الَّيْلَ : رات لِبَاسًا : پردہ وَّالنَّوْمَ : اور نیند سُبَاتًا : راحت وَّجَعَلَ : اور بنایا النَّهَارَ : دن نُشُوْرًا : اٹھنے کا وقت
اور جس دن (خدا) ان کو اور ان کو جن ہیں یہ خدا کے سوا پوجتے ہیں جمع کرے گا تو فرمائے گا کیا تم میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہوگئے تھے ؟
17۔ 19:۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ‘ سب کچھ اس کو معلوم ہے لیکن میدان محشر کی تمام مخلوقات کے روبرو مشرک لوگوں کو شرمندہ کرنے کے لیے ملائکہ ‘ حضرت عزیر ( علیہ السلام) ‘ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور بتوں سے غرض سوائے خدا کے جس کسی کو مشرک لوگوں نے دنیا میں اپنا معبود ٹھہرا رکھا ہے ‘ ان سب سے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا تم نے ان مشرک لوگوں کو شرک کا طریقہ سکھایا تھا ‘ وہ سب اس سے انکار کریں گے اور اپنی بیزاری جتلا دیں گے ‘ یہ قیامت کا حال مشرکوں کو دنیا میں اس لیے جتلایا ہے کہ مشرک اپنی غلطی کو سمجھ جاویں اور جان لیویں کہ خدا کے سوا جس کو انہوں نے اپنا معبود ٹھہرایا ہے وہ معبود کچھ کام نہیں آویں گے بلکہ مصیبت کے وقت صاف جواب دیں گے ‘ پھر جو چیز مصیبت کے وقت ہی کام نہ آوے اور کچھ نفع ونقصان اس کے اختیار میں نہ ہو ‘ اس کو معبود بننے کا کیا حق حاصل ہے ‘ اولاد آدم میں سے جن اچھے لوگوں کی مورتوں کو یہ مشرک پوجتے ہیں وہ اچھے لوگ قیامت کے دن ان مشرکوں سے جو بیزاری ظاہر کریں گے ‘ اس کا ذکر سورة یونس میں گزر چکا ہے اور فرشتوں کی بیزاری کا حال سورة سبا میں آوے گا ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان منکر قیامت بت پرستوں اور ان جھوٹے معبودوں سب کو اکٹھا کرے گا اور ان جھوٹے معبودوں سے پوچھے گا کہ کیا تم نے اپنی مورتوں کی پوجا کے لیے ان بت پرستوں سے کہا تھا ‘ یا یہ بت پرست خود ہی بت پرستی میں لگ گئے تو سب مورتوں کی اصل صورتیں ان مشرکوں کے شرک سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کر کے یہ کہیں گے کہ یا اللہ تجھ کو خوب معلوم ہے کہ ہم تو خالص دل سے تجھ کو سچا معبود جانتے ہیں ‘ پھر ہم سے یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم ان مشرکوں سے اپنی مورتوں کو پوجا کو کہتے ‘ پھر کہیں گے یا اللہ تیرے علم غیب میں یہ لوگ قابل ہلاکت ٹھہر چکے تھے ‘ اس لیے دنیا میں تو نے ان کو خوشحالی اور تندرستی جو دی اس کے نشہ میں یہ تیری یاد سے غافل رہے ‘ اب اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو قائل کرنے کے لیے فرماوے گا ‘ سوائے اللہ کا جن کی تم پوجا کرتے تھے وہ تو تم کو جھٹلا چکے ‘ اب تم شرک کی سزا کے عذاب کو نہ خود ٹال سکتے ہو ‘ نہ کوئی دوسرا تمہاری مدد کرسکتا ہے ‘ شرک کی برائی جتانے کے لیے آگے مسلمانوں کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ اسلام کے بعد تم میں سے اگر کوئی شرک میں گرفتار ہوجاوے گا تو قیامت کے دن اس کو بھی وہی عذاب بھگتنا پڑے گا جو منکر اسلام مشرکوں کے لیے تیار کیا گیا ہے ‘ حسن بصری کے قول کے موافق آخری آیت کی تفسیر وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے رسول کی جان پہچان کے کچھ لوگوں کو حوض کوثر پر سے دوزخ میں جھونک دینے کے لیے فرشتے گھسیٹ کر جب لے جانے لگیں گے تو اللہ کے رسول فرماویں گے یہ لوگ میرے صحابہ ؓ میں ہیں ‘ فرشتے جواب دیں گے کہ یہ لوگ اسلام سے پھرگئے تھے ‘ اس حدیث کو آخری آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ آخری آیت میں مختصر طور پر جیسے لوگوں کا ذکر قرآن کی معجزہ کی شان سے تھا ‘ قیامت کے دن ایسے لوگوں کا جو انجام ہوگا اس کا حال حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اس حدیث سے حسن بصری کے قول کو پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ آیت کی جو تفسیر حسن بصری کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ آیت کو جو تفسیر حسن بصری کے قول کے موافق بیان کی گئی وہی مطلب اس کا ہے۔ (1 ؎ الترغیب والترہیب ص 422 ج 4 (ع۔ ح)
Top