Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے۔ اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے۔
روح کی کیفیت قول باری ہے (ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی۔ یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں کہو ” یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے۔ “ لوگوں نے کس روح کے متعلق حضور ﷺ سے سوال کیا تھا ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) تھے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ تھا جس کے ستر ہزار چہرے ہیں اور ہر چہرے میں ستر ہزار زبانیں ہیں جن سے وہ اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے جاندار کی روح مراد ہے۔ کلام سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ یہود کے ایک گروہ نے روح کے متعلق سوال کیا تھا۔ جاندار کی روح اس جسم لطیف کا نام ہے جو حیوانی ڈھانچہ رکھتا ہے اور اس کے ہر جز میں زندگی ہوتی ہے۔ تاہم اس کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہر جاندار ایک روح سے البتہ بعض جاندار ایسے ہیں کہ ان میں روح غالب ہوتی ہے اور بعض میں بدن غالب ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق حضور ﷺ نے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس لئے کہ مصلحت اسی میں تھی کہ انہیں ان کی عقل و فہم کی اس دلالت کے حوالے کردیا جائے جو روح کے متعلق ان کے ادراک میں موجود تھی تاکہ انہیں اپنی عقل و فہمسے کام لے کر نتائج اخذ کرنے اور فوائد معلوم کرنے کی مہارت پیدا ہوجائے۔ یہود کی کتاب میں ایک روایت تھی کہ اگر وہ یعنی حضور ﷺ روح کے متعلق سوال کا جواب دے دیں تو پیغمبر نہیں ہوں گے اس لئے اللہ نے ان کے اس سوال کا جواب نہیں دیا تاکہ یہ صورت ان کی کتاب میں مذکورہ بات کے مطابق ہوجائے۔ روح کا اطلاق کئی چیزوں پر ہوتا ہے، قرآن کو روح کہا گیا ہے چناچہ ارشاد ہے صوکذلک اوحینا الیک روحاً من امرنا اور اسی طرح ہم نے آپ کے پاس وحی یعنی اپنا حکم بھیجا) قرآن کو روح کا نام دیا گیا اس میں اسے جاندار کی روح کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کی وجہ سے ایک جاندار زندہ رہتا ہے۔ اسی طرح حضرت جبرئیل امین اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اسی تشبیہ کی بنا پر روح کہا گیا ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ قول باری اقل الروح من امر ربی ) کا مفہوم یہ ہے کہ روح ایک ایسا امر ہے جس کا علم میرے رب کو ہے۔ قول باری ہے (وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے) یعنی تمہیں اس علم سے بہت کم حصہ ملا ہے جو منصوص طریقے سے لوگوں کے لئے بیان کردیا گیا ہے، تمہیں صرف اتنا ہی حصہ دیا گیا ہے جس سے تمہارا کام چل جائے۔ رہ گیا روح کا معاملہ تو اس کا تعلق اس علم سے ہے جسے نصاً بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ مصلحت کی خاطر اسے بیان کے بغیر رہنے دیا گیا ہے۔ آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کوئی سائل کسی مسئلے کے متعلق کوئی سوال پوچھے تو اس مصلحت کی خاطر کہ وہ مسئلہ معلوم کرنے کے لئے اپنی سوچ اور تدبر سے کام لے کر مسئلے کا خود ہی اسخراج کرے، اسے جواب نہ دینا جائز ہے۔ بشرطیکہ سائل میں غور و فکر اور استخراج کی اہلیت موجود ہو۔ لیکن اگر سائل پیش آمدہ کسی مسئلے کا حکم معلوم کرنے کے لئے فتویٰ پوچھے اور وہ صاحب نظر نہ ہو تو اس صورت میں اس کے حکم کا علم رکھنے والے عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں اللہ کے حکم سے اسے آگا ہ کرے۔
Top