Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 78
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَ : اس نے دیکھا الشَّمْسَ : سورج بَازِغَةً : جگمگاتا ہوا قَالَ : بولے هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب هٰذَآ : یہ اَكْبَرُ : سب سے بڑا فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَتْ : وہ غائب ہوگیا قَالَ : کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
پھر جب سورج چمکتا ہوا طلوع ہوا تو ابراہیم نے کہا کیا یہ میرا پروردگار ہے ؟ کہ یہ سب سے بڑا ہے ؟ لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو اس نے کہا اے میری قوم ! تم جو کچھ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو میں اس سے بیزار ہوں
ایک روز سورج کی پرستش کرنے والوں کو آپ نے مخاطب کرلیا اور پوچھا کہ کیا یہ میرا رب ہے ؟ : 124: آپ کا یہ وعظ تو ساری قوم کے خلاف روزانہ جاری تھا۔ جہاں موقعہ ملا اور لوگوں کا اجتماع دیکھا تبلیغ شروع کردی اور جو سامنے آیا اس کی تفہیم کی کوشش کی۔ ستارہ کی پرستش کرنے والوں کو مخاطب کرچکے تھے اور اسی طرح چاند کی پرستش کرنے والوں کو بھی مسکت جواب سنا چکے تھے کہ ایک روز آفتاب عالمتاب کا رخ روشن سامنے آیا سورج نکل آیا اور وہ اپنی پوری آب و تاب سے چمکنے لگا اور اس طرح ابھی سورج روشن ہی تھا کہ آپ کا وعظ وبیان شروع ہوگیا اور حسب سابق کائنات کی ہرچیز کو توحید الٰہی کی دلیل ثابت کرتے کرتے سورج کی پرستش کرنے والوں کو مخاطب فرمایا لیا اور فرمایا کہ بتاؤ کیا یہ میرا رب ہو سکتا ہے ؟ یہ تو بہت بڑا ہی ہے اور اس سے بڑا کوئی ستارہ ہمارے سامنے نہیں ہے ؟ بلکہ جب تک یہ روشن ہے کوئی ستارہ دکھائی نہیں دے سکتا اور یہ ایسا عالم تاب ہے کہ اپنے چہرے پر نظر بھی ٹکنے نہیں دیتا۔ لیکن انجام کار وقت مقررہ پر اس نے بی عراق کی زمین سے سرکنا شروع کردیا اور شب دیجور کے نشانات آہستہ آہستہ سامنے آنے لگے اور آخر کار وہ نظروں سے غائب ہوگیا۔ پھر کیا تھا کہ آپ نے چیخ چیخ کر ان کو کہنا شروع کیا کہ اس بڑے سیارے کی پرستش کرنے والوں کہا سو گئے ہو ذرا اسی رب کو روک لو اگر وہ تمہارا رب ہے اور تم اس کی پرستش کرتے ہو تو دیکھو وہ کس کے حکم کا پابند ہے کہ یہاں اپنی مرضی سے نہیں روک سکتا ہے ؟ اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سماوی معبودان باطل کے خلاف بھی زور و شعور سے دلائل بیان فرمائے اور ان کو بےحقیقت اور بےبنیاد اور اس احکم الحاکمین کے حکم کے پابند بیان کیا اور اس طرح ان کو لاجواب کردیا اور ان سے پوچھا کہ ان کے عقیدہ کے مطابق اگر ان کو اکب کو ربوبیت اور معبود یت حاصل ہے تو اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم سے بھی زیادہ ان میں تغیرات نمایاں ہیں اور یہ جلد جلد ان کے اثرات سے متاثر ہوتے ہیں اور اگر معبود ہیں تو ان میں غروب ہونا کیوں ہے ؟ جس طرح چمکتے نظر آتے ہیں اس طرح چمکتے کیوں نہ رہے ؟ چھوٹے ستاروں کی روشنی کو ماہتاب نے کیوں ماند کردیا اور ماہتاب کے رخ روشن کو آفتاب کے نور سے اپنا رخ صرف اس ایک خدا کی جانب کرلیا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے اور ان ستاروں ، چاند اور سورج کا بھی خالق ہے اور اس طرح تمہارا اور میرا بھی خالق ہے میں ” حنیف “ ہوں اور ” مشرک “ نہیں ہوں۔ گذشتہ آیات میں تین بار لفظ ” ہٰذَا رَبِّیْ 1ۚ “ آیا ہے ہم نے اس سے مراد ” ہٰذَا رَبِّیْ 1ۚ“ استفہام انکار مراد لیا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ قرآن کریم نے اس واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے یہ بات بڑی وضاحت سے بیان فرما دی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو ” مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ “ کہہ کر ہم نے نگاہ ابراہیم پر ہرچیز منکشف کردی تھی۔ جس کا بالکل صاف مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر ربوبیت الٰہی ہر طرح روشن ہوچکی تھی اس لئے آپ نے مخاطبین کی زبان سے یہ جملہ بولا اور نسبت اپنی طرف کی تاکہ بات کی تفہیم بھی ہوجائے اور جھگڑا بھی نہ بڑھے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد قرآن کریم ہے کہ ابن شرکائیٰ ” میرے شریک کہاں ہیں ؟ “ وہ کون اندھا ہوگا جو اس جملہ کا یہ مطلب سمجھے گا کہ اللہ نے اپنے شریکوں کا خود اقرار کیا ہے اس لئے تو ان کو طلب کیا ہے حالانکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ” جو تم نے میرے شریک ٹھہرائے ہیں اب ان کو بلاؤ وہ کہاں ہیں ؟ “ اور استفہام انکاری اور استفہام اقراری کی مثالیں قرآن کریم میں کثرت سے موجود ہیں۔ ” یہ خیال کرنا کہ اس وقت حضرت ابراہیم ﷺ کو عرفان توحید حاصل نہ تھا اس لئے وہ ایک ٹمٹماتے ہوئے تارے کو اپنا رب سمجھنے لگے سخت غلطی ہے۔ پیغمبر کا دامن نبوت سے پہلے بھی کفر و شرک سے پاک ہوتا ہے۔ چاند کے متعلق بھی آپ نے یہی فرمایا تھا کہ اھذا ربی ؟ اور جب وہ ڈوب گیا تو آپ فرماتے ہیں ” لئن لم یھدنی ربی “ اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو جس گمراہی میں میری ساری قوم گرفتار تھی میں بھی اس سے نہ بچ سکتا۔ ان الفاظ سے اس امر کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے کہ آپ کا دل ” ربی “ میرا رب کے یقین سے منور اور روشن تھا ورنہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ابھی تک حقیقی رب کا تصور ابراہیم (علیہ السلام) کے ذہن میں نہ تھا اور چاند کو آپ نے رب مان لیا تھا تو جب اس کے ڈوب جانے سے اس کی خدائی کا طلسم بھی ٹوٹ گیا تو آپ کو حیرت کا اظہار کرنا چاہئے تھا کہ تم جسے خدا سمجھ رہے تھے وہ تو فانی تھا۔ اب کسے خدا مانا جائے ؟ آپ نے اظہار حیرت نہیں کیا بلکہ چاند کے غروب ہونے پر آپ نے اپنی قوم کے باطل عقیدہ کو غلط ثابت کرنے کے بعد فوراً فرمایا : ” لَىِٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ “ یعنی وہ رب نہیں جسے تم نے سمجھ رکھا ہے بلکہ حقیقی رب تو وہ ہے جو میرا پروردگار ہے جو مجھے ہر باطل سے بچا کر راہ حق پر چلا رہا ہے۔ “ کسی نبی و رسول کے ذمہ شرک خواہ وہ ایک منٹ ہی کے لئے کیوں نہ ہو تسلیم کرنا بذاتہ گمراہی ہے یہ بات بالکل صاف تھی لیکن سمجھنے میں کوتاہی ہوئی اور ایک کی کوتاہی دوسروں کے لئے دلیل ہوگی۔ الحمد للہ کہ اس سے صحابہ وتابعین کا دامن پاک ہے۔
Top