Jawahir-ul-Quran - Al-An'aam : 78
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَ : اس نے دیکھا الشَّمْسَ : سورج بَازِغَةً : جگمگاتا ہوا قَالَ : بولے هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب هٰذَآ : یہ اَكْبَرُ : سب سے بڑا فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَتْ : وہ غائب ہوگیا قَالَ : کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
پھر جب دیکھا سورج جھلکتا ہوا84 بولا یہ ہے رب میرا سب سے بڑا ہے پھر جب غائب ہوگیا بولا اے میری قوم میں بیزار ہوں ان سے جن کو تم شریک کرتے ہو
84 جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ سورج نکل آیا ہے تو فرمایا یہ ان سب سے بڑا ہے کیا میرا رب ہے ؟ لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو فرمایا اب میری حجت تم پر قائم ہوچکی اور تم نے دیکھ لیا کہ تمہارے معبود کس قدر ناپائیدار ہیں اسلیے میں اعلان کرتا ہوں کہ میں ان تمام معبودان باطلہ سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ الخ میں تو اس سے پہلے باطل معبودوں سے منہ موڑ کر اپنا چہرہ اس منزہ صفات کی طرف پھیر چکا تھا جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور میں نے کبھی مشرکین کا عقیدہ قبول نہیں کیا۔ فائدہ : مرزا غلام احمد قادیانی کذاب نے ابتداء میں اپنی بعض کتابوں میں لکھا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہیں جو شخص وفات مسیح کا قائل ہو وہ مشرک ہے لیکن بعد میں جب اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا تو وہ خود وفات مسیح کا قائل ہوگیا تو اس پر اعتراض کیا گیا کہ پہلے تو مشرکانہ عقیدے پر تھا اور نبی نبوت سے پہلے بھی شرک سے پاک ہوتے ہیں تو اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مذکورہ واقعہ سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ نبیوں سے قبل نبوت شرک جیسا گناہ بھی سرزد ہوسکتا ہے (العیاذ باللہ) حالانکہ یہ صریح کفر ہے۔ قادیانی نے ان آیتوں میں دیدہ دانستہ تحریف کی ہے اور دعوی کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس واقعہ کے بعد اللہ کی توحید کا علم ہوا جو سراسر غلط ہے۔ وہ اس واقعہ سے قبل بھی موحد ہی تھے۔ شرک تو اکبر الکبائر ہے اور اللہ کے نبی قبل نبوت صغیرہ گناہوں سے بھی پاک ہوتے ہیں۔ لَئِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبِّیْ ۔ صیغہ ماضی منفی اور اسی طرح اِنِّیْ وَجَّھْتُ ماضی کا صیغہ ہے اور پھر آگے چل کر فرمایا وَحَاجَّہٗ قَوْمُہٗ قَالَ اَتُحَاجُّوْنِّیْ فِیْ اللہِ ۔ یہاں بھی وَ قَدْھَدَان ماضی کا صیغہ ہے پھر اس کے بعد ارشاد فرمایا وَتِلْکَ حُجَّتُنَا اٰتَیْنَا ھَا اِبْرَاھِیمَ عَلیٰ قَوْمِہٖ یہ تمام قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس واقعہ سے قبل بھی توحید پر ہی تھے اور یہ طرز استدلال نہیں اللہ کی طرف سے ان کی قوم پر بطور حجت عطا ہوا۔ بعض لوگ کہتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بارہ سال تک غار میں رہے اس کے بعد انہیں غار سے نکالا گیا یہ بےبنیاد ہے
Top