Ashraf-ul-Hawashi - Al-An'aam : 78
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَ : اس نے دیکھا الشَّمْسَ : سورج بَازِغَةً : جگمگاتا ہوا قَالَ : بولے هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب هٰذَآ : یہ اَكْبَرُ : سب سے بڑا فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَتْ : وہ غائب ہوگیا قَالَ : کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
پھر جب سورج کو جھلکتا ہوا دیکھا (بہت چمکتا ہوا) کہنے لگا یہ میرا مالک ہے یہ سب سے بڑا ہے پھر جب وہ (بھی) ڈوب گیا تو کہنے لگا بھائیو (میری قوم کے لوگو) میں تو ان چیزوں سے بیزار ہوں (الگ ہوں) جن کو تم (خدا کے ساتھ) شریک مانتے ہو10
10 اب اصل بات کھولی اور اپنا عقیدہ واضح کیا پہلی تمام باتیں صرف اس لیے تھیں کہ یہ جاہل لوگ اصل حقیقت کے قاتل ہوں اور اپنے عقیدہ کی غلطی پر غور کریں۔ (وحیدی) اکثر علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کے بعد ان کو ایک غار (سرب) میں ڈال گیا تھا تاکہ بادشاہ قتل نہ کردے اور یہ کوکب قمر اور شمس کا ْقصہ وہیں پیش آیا اور حضرت ابراہیم نے تدریجا اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور توحید کی معرفت حاصل کی مگر صحیح یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی یہ ساری گفتگو قوم کے ساتھ مناظرہ کے دوران میں ہے جیسا کہ آخر میں یاقوانی بری مما نشر کون اس پر فددلالت کرتا
Top