Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 12
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ١ؕ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں لِّمَنْ : کس کے لیے مَّا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین قُلْ : کہ دیں لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے كَتَبَ : لکھی ہے عَلٰي نَفْسِهِ : اپنے (نفس) آپ پر الرَّحْمَةَ : رحمت لَيَجْمَعَنَّكُمْ : تمہیں ضرور جمع کرے گا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں اَلَّذِيْنَ : جو لوگ خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ فَهُمْ : تو وہی لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائیں گے
اے پیغمبر اسلام ! ان سے پوچھو آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کے لیے ہے ، کہو اللہ کے لیے اس نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ رحمت فرمائے وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا اس میں کوئی شک نہیں ، جو لوگ اپنے آپ کو تباہ کرچکے ہیں وہ کبھی یقین کرنے والے نہیں
مخالفین سے سوال کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اس کا اصل مالک کون ہے ؟ : 19: ” اے پیغمبر اسلام ! ان سے پوچھو آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کے لئے ہے ۔ ” بس حسن ترجمہ کے لئے یہ کہہ دیا کہ ” کس کے لئے ہے ؟ “ اصل میں سوال یہ ہے کہ ” کس کا ہے ؟ “ یعنی اس کا مالک کون ہے ؟ یہ سوال مشرکین مکہ سے کیا گیا جن کا شرک آج کل کے مشرکوں سے بہت ہلکا تھا ۔ ممکن ہے کہ ان سے پوچھا جائے تو یہ کسی اور ہی کا نام لے لیں کیونکہ مانگا اس سے جاتا ہے جو ایک چیز کا مالک و مختار ہو اور آج کا مشرک تو برملا اور پکار پکار کہتا ہے کہ۔ اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے ۔ جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمد (علیہ السلام) سے اور آج ہی کے مشرک ہیں کہ ان کو غیر اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین ہے اور اللہ سے کچھ بھی ہونے کا ان کو یقین نہیں۔ اسی لئے علامہ اقبال ؓ نے ان کو مخاطب کر کے کہہ دیا کہ بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے ناامیدبتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟ عرض کیا جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان مکہ والوں سے پوچھتے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ چونکہ یہ سوال ان سے بار بار کیا جا چکا تھا جیسے سورة المومنون میں فرمایا ” ان سے کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے ؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔ “ (المومنون 23 : 84) ” ان سے کہو ، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہرچیز پر اقتدار کس کا ہے ؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ؟ وہ فوراً بول اٹھیں گے کہ اللہ “ (المومنون 23 : 88) اور یہی مختلف مقامات پر ان سے دہرایا گیا جیسے : قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ (الانعام 6 : 63) قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ (یونس 10 : 31) قُلْ مَنْ یَّكْلَؤُكُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ (الانبیاء 21 : 42) قُلْ مَنْۢ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ (مومنون 23 : 88) قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ؕ (سباء 34 : 24) اس لئے زیر نظر آیت تھوڑے سے وقفہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود جواب دے دیا کیونکہ وہ یہی جواب اس سے پہلے دے چکے تھے اور یہ طریقہ جواب سارے انسانوں کی زبان میں معروف ہے کہ جس جگہ ایک ہی جواب دیا جاسکے وہاں خود ہی جواب دے دیا جاتا ہے اور اس طرح کلام میں ایک خاص زور پیدا ہوجاتا ہے اور اہل زبان سے یہ امر مخفی نہیں۔ مخالفین کا جواب ہوگا ” اللہ کے لئے “ فرما دیجئے بس وہی تم سب کو جمع کرنے والا بھی ہے : 20: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ یہ بات قاعدہ کی ہے کہ جب سوال کا جواب صرف اور صرف ایک ہی ہو اور جس سے سوال کیا جا رہا ہے اس کو بھی اس سے انکار نہ ہو تو سائل خود ہی جواب دے دیتا ہے چونکہ اس سوال کے جواب میں اس وقت کے مشرکین کو بھی اختلاف نہ تھا اس لئے نبی اعظم وآخر ﷺ کی زبان مبارک سے جواب دلادیا گیا۔ پھر اس جواب پر یہ سوال بھی فطری تھا کہ ایسے نابکار لوگوں کو زندہ کیوں رہنے دیا جاتا اور انہیں فوراً نیست و نابود کیوں نہیں کردیا جاتا ؟ اس لئے خود ہی اس کی وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مجبوری یا کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اپنے فضل و کرم سے رحمت کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہے اور جس چیز کو اس نے خود ہی لازم کیا ہو اور جس وقت اس کو مہلت دینا اپنے قانون میں طے کردیا ہو وہ خواہ کتنی ہی نافرمانیاں کریں اس کے ساتھ شریک ٹھہرائیں یہاں تک کہ اس کی ہستی ہی کا انکار کردیں اس کی رحمت کا وسیع دامن اس وقت تک ان پر سایہ فگن رہتا ہے اور انکی زندگی کی جو میعاد مقرر کردی گئی ہے اس وقت تک انہیں زندہ رہنے کے وسائل بہم پہنچائے جاتے ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ وہ صرف مومنوں اور نیک لوگوں ہی کا رب نہیں بلکہ دنیا کے سارے فاسقوں ، ظالموں اور کافروں کا رب بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا بنایا ہوا سورج ، چاند ، ستارے ، بارش اور ہوا وغیرہ سب کے لئے ایک ہی حیات آفرین تاثر رکھتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ انہی چیزوں کو دیکھو ان فاسقوں ، ظالموں اور کافروں میں سے ایمان لانے والے ایمان بھی لاتے رہتے ہیں اور انہی مردوں سے زندہ کے لئے اس نے ہدایت کا نظام چلا رکھا ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف ہادی ان مردوں کو زندگی کی دعوت دیتے رہے اور جن کے مقدر میں اللہ نے حیات رکھی تھی وہ زندہ بھی ہوتے رہے ، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اس جگہ بھی ان ساری قوم کے لوگوں کو ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ وہ اپنی سابقہ بداعمالیوں کی وجہ سے مایوس نہ ہوجائیں اگر اب بھی وہ سچے دل سے توبہ کرلیں تو دامن الٰہی ان کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے آج بھی تیار ہے اور اس کا متعین وقت آجانے تک تیار ہی رہے گا۔ اس لئے کہ اس کی رحمت کے تقاضوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر سب انسانوں کو خواہ وہ نیک ہوں یا بد ایک مقرر دن میں وہ سب کو جمع کرنے والا بھی ہے اور کوئی نہیں جو اکڑ کر اترا کر اس جگہ حاضر ہونے سے انکار کر دے۔ نہ ماننے والوں کو ہزار دلیلیں دی جائیں لیکن وہ ماننے والے نہیں : 21: خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ” جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈالا “ خسارہ صرف جان ومال اور کاروبار ہی کے نقصان کو نہیں کہا جاتا بلکہ اصل خسارہ اس قیمتی استعداد کو ضائع کرنا ہے جو حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے ۔ کفار چونکہ سب کچھ جاننے بوجھنے کے باوجود حق کو قبول کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں اس لئے ان کی وہ استعداد ضائع ہوجاتی ہے اور اس کے بعد ان سے کم ہی توقع ہوتی ہے کہ وہ ایمان جیسی دولت کو زندگی میں کما سکیں اور اس جگہ اس خسارہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ” کہ اللہ کی رحمت عام ہے اس لئے تم میں سے ہر ایک جنت میں جائے گا سوائے اس شخص کے جو اللہ سے ایسا بھاگے جیسے وحشی اونٹ اپنے گھر والوں سے بھاگتا ہے۔ “ (طبرانی و حاکم) یاد رہے کہ دنیا کا خسارہ بھی کوئی اچھی اور خوبی کی بات نہیں لیکن آخرت کا خسارہ دنیا کے مقابلہ میں بہت ہی زیادہ ہے جس طرح دنیا کی زندگی عارضی ہے ، دنیا کا خسارہ بھی بلاشبہ عارضی ہے لیکن آخرت جس طرح ابدالاباد ہے بالکل اسی طرح اس کا خسارہ بھی ابدالاباد ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جس قدر انسان دنیوی زندگی کے خساروں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اس کے مقابلہ میں آخرت کے خساروں سے بچنے کی کم ہی کوشش کرتا ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس کا جواب اپنے دل سے طلب کریں وہی زیادہ مفید ہوگا۔
Top