Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 114
اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ
اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا اَبْتَغِيْ : میں ڈھونڈوں حَكَمًا : کوئی منصف وَّهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : جو۔ جس اَنْزَلَ : نازل کی اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف الْكِتٰبَ : کتاب مُفَصَّلًا : مفصل (واضح) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جنہیں اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے انہیں دی الْكِتٰبَ : کتاب يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں اَنَّهٗ : کہ یہ مُنَزَّلٌ : اتاری گئی ہے مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تم نہ ہونا مِنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
کیا میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا منصف ڈھونڈوں ؟ حالانکہ وہی ہے جس نے تم پر { الکتب } نازل کردی جو کھول کھول کر بیان کرنے والی ہے اور دیکھو جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی کے ساتھ نازل ہوا ہے ، پس ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو شک کرنے والے ہیں
کیا میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا منصف تلاش کروں ؟ 172: غور کرو کہ مقدمہ کیا ہے ؟ نبی اعظم و آخر ﷺ نبوت و رسالت کے مدعی ہیں اور معاندین و مخالفین اس کے منکر۔ اب اس کا فیصلہ کہاں ہوگا اور کون کریگا ؟ ظاہر ہے کہ یہ مقدسہ اس احکم الحاکمین کے اجلاس میں فصیل ہو سکتا ہے اور وہاں سے یہ فیصلہ محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں ہوچکا وہ اس طرح کہ اس دعویٰ پر جو دلیل دی گئی وہ قرآن کریم ہے اس نے تمام اقوام عالم کو چیلنج کیا کہ اگر اس کے کلام الٰہی ہونے میں کسی کو شبہ ہے تو اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت خواہ وہ تین ہی آیتوں پر مشتمل ہو بنا کرلے آؤ اور جس جس کو تم چاہتے ہو اللہ کے سوا اس میں شریک بھی کرلو اور پھر یہ دعویٰ شائع کردیا گیا لیکن اس کے جواب میں تمام عرب و عجم عاجز رہا اور وہ لوگ جو نبی اعظم و آخر ﷺ اور اسلام کو پست کرنے کے لئے اپنی جان ، مال ، اولاد اور آبرو سب کچھ قربان کر رہے تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہ نکلا کہ قرآن کریم کے مقابلہ کے لئے ایک دو آیات بنا کر پیش کردیتا یہ کھلا ہوا معجزہ کیا قبول حق کے لئے کافی نہ تھا کہ ایک امی جس نے کہیں کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی اس کے پیش کئے کلام کے مقابلہ سے سارا عرب بلکہ پورا جہاں عاجز ہوجائے اور یہی احکم الحاکمین کی عدالت سے اس مقدمہ کا واضح فیصلہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اللہ کے رسول اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ تم کیا چاہتے ہو کہ اس فیصلہ الٰہی کے آجانے کے بعد میں کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں ؟ سو اچھی طرح سن لو کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں ! یہ فیصلہ ہوجانے کے بعد قیامت تک یہ فیصلہ پڑھا جاتا رہے گا اور قیامت تک اس کا یہ چیلنج بھی اپنی جگہ بدستور قائم رہے گا اگر اب بھی تم کو شوق ہے تو بڑی خوشی سے آؤ اور ہمارے دعویٰ کو غلط ثابت کر دو اور پھر سن لو کہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ” اگر تمہیں اس امر پر شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے یہ ہماری ہے یا نہیں ؟ تو اس کی مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلالو ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر دکھاؤ ۔ “ یہ چیلنج ان کو کئی بار دیا گیا ، مکہ میں اس کا اعلان کرایا گیا اور اس کو دہرایا گیا۔ “ (یونس 10 : 38) (ہود 11 : 13) (بنی اسرائیل 17 : 88) (الطور 52 : 33 ‘ 34) آج اگر اس الٰہی فیصلہ کے پیش نظر ہمارے علمائے کرام اور مناظرین اسلام بھی عقل و فکر سے کام لیتے تو اپنے فیصلوں کو جہلا سے کرانے کی بجائے کسی اسلامی عدالت کی طرف رجوع کرتے جو کم از کم ایسے فیصلے سننے کی مجاز ہوتی تو کسی حد تک ہمارے اختلافی مسائل کا کوئی حل ہمارے سامنے آجاتا لیکن یہاں جو صورت حال ہے وہ اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ اس کا نام لیتے بھی شرم آتی ہے کہ مسئلہ شرک و توحید کا ، مسئلہ بشر و رسول کا ، مسئلہ غیب اور حاضر و ناظر کا ، مسئلہ فاتحہ خلف الامام اور آمین بالجر کا ، مسئلہ سنت اللہ ، کلمۃ اللہ اور عدل الٰہی کا لیکن فیصلہ کرنے والے وہ لوگ جن کو قرآن کریم کی زبان میں ” شیاطین “ کے نام سے یاد کیا گیا اور ان کو ” مترفین “ کہا گیا ” متکبرین “ اور جاہدین “ کے ناموں سے موسوم کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ یہی لوگ ان کے پشتیباں ہیں جو بیٹروں اور مرغوں کی طرح ان کو لڑا کر شغل دیکھنے والے اور ان میں انعام تقسیم کرنے والے ہیں۔ قرآن کریم کی مخصوص صفات کا ذکر جو سچائی کے ساتھ نازل کیا گیا : 173: آیت کے اس حصہ میں قرآن کریم کی چند خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے جو خود قرآن کریم کے حق اور کلام الٰہی ہونے کا ثبوت ہیں۔ اول یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔ دوم یہ کہ وہ ایک کتاب کامل اور معجز ہے کہ سارا جہان اس کے مقابلہ سے عاجز ہے۔ سوم یہ کہ تمام اہم اور اصولی مضامین اس میں بہت مفصل اور واضح طور پر بیان کردیئے گئے ہیں۔ چہارم یہ کہ قرآن کریم سے پہلے اہل کتاب یہود ونصاری بھی یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا ہوا کلام ہے اور یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں میں کچھ بھی سچائی اور حق گوئی کی صفت تھی انہوں نے اس کو ظاہر بھی کردیا اور جو لوگ معاند تھے وہ باوجود یقین کے اس کا اظہار نہ کرتے تھے ورنہ ان کے دلوں میں اس بات کا یقین موجود تھا جس کی بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے آغاز نزول ہی سے عربوں کو اپنی سحر طرازی سے مسحور کرلیا تھا اس سے وہ لوگ بھی مسحور ہوگئے جن کے سینے کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا تھا اور وہ اس کی آغوش میں آگئے اور وہ بھی جن کی آنکھوں پر اس نے پردہ ڈال دیا اور وہ نور قرآن سے مستفید نہ ہوسکے۔ اگر ان چند حضرات سے صرف نظر کرلیا جائے جو آغاز اسلام میں براہ راست حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے مثلاً آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبری ؓ ، آپ ﷺ کے مخلص دوست حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت علی ؓ ، آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید ؓ اور اسی طرح کے بعض دیگر حضرات تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ آغاز اسلام میں جو لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے اس کا واحد محرک صرف قرآن کریم تھا۔ ان دونوں نہ تو نبی کریم ﷺ کو وہ ذرائع ووسائل حاصل تھے جو آگے چل کر نصیب ہوئے اور نہ اسلام کو وہ قوت و شوکت ملی تھی جو اس کا مقدر بننے والی تھی۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے اسلام لانے اور ولید بن مغیرہ کی اسلام سے روگردانی اختیار کرنے کے اوقات ایمان و انحراف کے کثیر واقعات میں سے دو عجیب نمونے ہیں۔ یہ دونوں واقعات اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہیں کہ قرآن کریم نے آغاز کا رہی سے اپنے جادو سے عربوں کو مسحور کرلیا تھا۔ ان دونوں واقعات سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ قرآن کریم کی سحر طرازی کا اعتراف اہل ایمان اور کفار سبھی کو تھا۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے ایمان لانے کا قصہ معروف و مشہور ہے لیکن ولید بن مغیرہ کے متعلق کچھ عرض کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ اس کی وضاحت ہوجائے۔ ولید بن مغیرہ نے قرآن کریم کا کچھ حصہ سنا اور بظاہر اس میں کچھ رقت بھی پیدا ہوئی۔ یہ دیکھ کر قریش کہنے لگے ولید دین سے پھر گیا یعنی مسلمان ہوگیا۔ اسی طرح قریش اپنے مذہب سے پھرجائیں گے۔ چناچہ قریش نے ولید کی عزت نفس اور اس کے غرور حسب ومال کو ابھارنے کے لئے ابو جہل کو اس کے پاس بھیجا تاکہ وہ قرآن کریم سے نفرت و حقارت کا اظہار کرے اور قریش بھی اس سے آگاہ ہوجائیں۔ ولید کہنے لگا میں ” قرآن کریم کے بارے میں کیا کہوں ؟ بخدا تم میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جو شعرا ، ترانہ ، قصائد حتی کہ جنون کے اشعار کے بارے میں بھی مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو۔ محمد (a) جو قرآن سناتا ہے وہ ان میں سے کسی کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتا۔ خدا کی قسم جو کلام اس پر نازل ہوا اس میں شیرینی پائی جاتی ہے۔ اس میں تروتازگی اور شادابی کے آثار ہویدا ہیں۔ جو چیز بھی اس کے مقابل آتی ہے اس کو ریزہ ریزہ کر ڈالتا ہے اور وہ غالب ہے مغلوب نہیں۔ “ ابوجہل نے کہا ” جب تک آپ قرآن کریم کی مذمت نہیں کریں گے آپ کی قوم آپ سے راضی نہیں ہوگی۔ “ ولید نے کہا ” پھر مجھے سوچنے کا موقعہ دیجئے “ پھر وہ سوچ بچار کے بعد بولا یہ تو جادو ہے جو نقل کیا جارہا ہے تم دیکھتے نہیں کہ قرآن ہر شخص کو اس کے احباب و اعزہ سے الگ کردیتا ہے۔ چناچہ قرآن کریم نے اس ضمن میں یہ ارشاد فرمایا کہ : ” اس نے توقف کیا اور (اپنے دل میں) ایک بات طے کرلی۔ پھر وہ غارت ہو کیسی (بری) بات (اس نے) تجویز کی۔ پھر وہ غارت ہو کیسی (بری) بات (اس نے) تجویز کی۔ پھر (اس نے لوگوں کی طرف) دیکھا۔ پھر تیو ری چڑھائی اور ترش رو ہوا۔ پھر پیٹھ پھیری اور غرور کا اظہار کیا۔ پھر بولا کہ یہ کچھ نہیں بس وہی جادو ہے جو (مدت سے) چلا آتا ہے۔ “ (المدثر 18 تا 24) یہ اس شخص کا قول ہے جو اسلام سے روگردانی اختیار کرتا ہے ، محمد رسول اللہ ﷺ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو اپنی تحقیر خیال کرتا ہے۔ حسب و نسب ، دولت و ثروت اور اولاد واحفاد کو اپنے لئے سرمایہ افتخار سمجھتا ہے یہ ایسے شخص کا قول نہیں جو ایمان لاچکا ہو اور قرآن کریم کی غالب آجانے والی اثر آفرینی کو اپنے ایمان کی علت قرار دیتا ہو۔ یہ زبردست دلیل ہے اس بات کی کہ قرآن کریم نے عربوں کو مسحور کردیا تھا۔ ان لوگوں میں نہ جاؤ جو شک کرنے والے اور وہم کے مارے ہوئے ہیں : 174: آیت کے اس حصہ میں بظاہر خطاب تو بنی اعظم و آخر ﷺ ہی سے ہے لیکن اس بات کی کتنی بار تشریح پیچھے گزرچکی کہ آپ ﷺ کو مخاطب کرنے میں حکمت کیا ہے ؟ شک و شبہ میں مبتلا اور وہم کے مارے ہوؤں کو جو کوئی مخاطب ہو کر بات کرتا ہے تو وہ مبہوت ہو کر اس کے گلے پڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسی صورت میں وہ حق و ناحق میں امتیاز ہی نہیں کرسکتے اور اس کے مقابلے میں ایک عقل مند اور غور وفکر کرنے والے کو جب مخاطب کریں گے تو خطاب کتنا بھی سخت ہوا وہ بات کو سوچنے پر مجبور ہوگا کیونکہ جس طرح وہم و گمان میں مبتلا اپنی عادت ثانیہ سے مجبور ہے بالکل اسی طرح ایک عقل مند بھی اپنی عادت سے مجبور ہے جس طرح پہلا ایسی صورت میں کچھ سوچ نہیں سکتا اسی طرح دوسرا بغیر سوچے نہیں رہ سکتا۔ اگر ان لوگوں کو مخاطب کیا جاتا جو پہلے شک کرنے والے اور وہم و گمان میں مبتلا ہیں جو جزبز ہو کر انکار کردیتے اور بڑبڑانے لگتے اور جب ان کو براہ راست مخاطب نہیں کیا گیا تو اب وہ یکایک اس سے انکار بھی نہیں کرسکتے اس لئے کہ ان کو کچھ کہا ہی نہیں گیا۔ اس لئے اس حکمت کے تحت آپ ﷺ کو مخاطب کر کے وہ بات کہی گئی جو دوسروں تک پہنچانا مقصود تھی ورنہ حاشا کلا کہ کبھی آپ ﷺ کو کسی طرح کا کوئی شک گزرا ہو اور پھر خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی بھی ہے کہ ” نہ کبھی میں نے شک کیا اور نہ کبھی ایسا سوال کیا۔ “ (ابن کثیر)
Top