Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 110
وَ نُقَلِّبُ اَفْئِدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ نَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۠   ۧ
وَنُقَلِّبُ : اور ہم الٹ دیں گے اَفْئِدَتَهُمْ : ان کے دل وَاَبْصَارَهُمْ : اور ان کی آنکھیں كَمَا : جیسے لَمْ يُؤْمِنُوْا : ایمان نہیں لائے بِهٖٓ : اس پر اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّنَذَرُهُمْ : اور ہم چھوڑ دیں گے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے رہیں
ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (کہ وہ نشانیاں دیکھ کر بھی انکار کرتے جائیں) جس طرح پہلی دفعہ قرآن کریم سے انکار کیا اور ہم انہیں چھوڑ دیں گے کہ اپنی سرکشیوں میں بھٹکتے رہیں
ان کے دل حق طلبی کے قصد کی طرف سے ہٹا دیئے گئے وہ حق کو قبول نہیں کریں گے : 166: ہم نے ہدایت قبول کرنے کے لئے جو قانون بنا رکھا ہے اس سے انہوں نے اعراض کیا جس کا نتیجہ لازمی یہی نکلنا تھا کہ وہ جو قدم اٹھائیں حق اور ہدایت سے دور ہوتے جائیں اور یہی کچھ ہوا یعنی حق کی طلب و تلاش چونکہ ان میں سرے سے ہے ہی نہیں اس لئے یہ لوگ ہزار نشانات دیکھ لیں پھر بھی ہدایت انہیں نصیب نہیں ہوگی اور یہ لوگ یوں ہی بدستور بھٹکتے رہیں گے۔ ان کی آنکھیں حق بینی کی طرف سے اور ان کے دل حق طلبی کی طرف سے ہٹا دیئے گئے اور یہ سب کچھ ہمارے قانون تکوینی کے تحت ہوا اس لئے کہ ان کا دل پہلے روز ہی سے قرآن کریم کی ہدایت پر نہیں جما اور انہوں نے اس کو سننے ، دیکھنے اور سمجھنے سے انکار کیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے ، ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے ، آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے وہ چارپایوں کی طرح ہوگئے بلکہ ان سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔ “ (الاعراف 7 : 179) مطلب بالکل صاف ہے کہ ہم نے تو ان کو پیدا کیا تھا دل ، دماغ ، آنکھیں اور کان دے کر مگر ظالموں نے ان سے کوئی کام نہ لیا ہر سنی ان سنی ، ہر دیکھی ان دیکھی اور ہر سمجھی ان سمجھی کردی اور اپنی غلط کاریوں کے باعث آخر کار وہ جہنم کا ایندھن بن کر رہے۔ ہم نے ان کو چھوڑ دیا کہ وہ اپنی سر کشیوں میں بھٹکتے پھریں : 167: فرمایا یہ ایسے نادان نہیں تھے کہ ان کو حق ناحق معلوم نہ تھا بلکہ یہ لوگ حقیقت سے واقف تھے اور حق کو پہچانتے تھے ان کو چاہئے تھا کہ وہ طرز عمل اختیار کرتے جو انہیں معلوم تھا کہ صحیح ہے تاکہ اس پر عمل کے مطابق علم کی بدولت اللہ تعالیٰ ان کو انسانیت کے بلند مراتب کی طرف ترقی عطا فرماتا لیکن وہ لوگ دنیا کے فائدوں ، لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑے۔ خواہشات نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے انہوں نے ان کے آگے سپر ڈال دی۔ دنیا کی حرص وطمع سے بالاتر ہونے کی بجائے وہ اس حرص وطمع سے ایسے مغلوب ہوئے کہ ہر بھلائی اور ہر اخلاقی ترقی کو وہ طلاق دے بیٹھے۔ ان تمام حدود کو توڑ کر نکل بھاگے جن کی نگہداشت کا تقاضا خود ان کا علم کرتا تھا اس طرح جب وہ محض اپنی اخلاقی کمزوریوں کی بناء پر جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑ کر بھاگے تو شیطان جو ان کے اندر ہی گھات لگائے بیٹھا تھا ان کے پیچھے لگ گیا اور وہ برابر انکو ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف لے جاتا رہا یہاں تک کہ اس ظالم نے انکو ان لوگوں کے زمرے میں پہنچا کر دم لیا جو پہلے ہی اس کے حرام میں پھنس کر پوری طرح متاع عقل و ہوش گم کرچکے تھے۔ اس طرح اب وہ ان وادیوں میں گم ہوگئے جن میں پہنچ کر کسی کی واپسی مشکل ہی نہیں ہوتی بلکہ ناممکن ہوجاتی ہے اس لئے اب وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ وہاں سے ان کے نکالنے کی کوئی سبیل کی جائے ان کو ان کے حال پر چھوڑدینا اور اپنا وقت ضائع نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ ہمارے قانون کا یہی تقاضا تھا اور قانون کے خلاف ہم نہیں کرتے۔
Top