Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 103
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
لَا تُدْرِكُهُ : نہیں پاسکتیں اس کو الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ يُدْرِكُ : پاسکتا ہے الْاَبْصَارَ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ اللَّطِيْفُ : بھید جاننے والا الْخَبِيْرُ : خبردار
اسے نگاہیں پا نہیں سکتیں لیکن وہ تمام نگاہوں کو پا رہا ہے ، وہ بڑا ہی باریک بیں اور آگاہ ہے
اس کو نظریں نہیں گھیر سکتیں اور وہ ساری نظروں کو گھیرے ہوئے ہے : 156: یہ نگاہیں اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ الادراک بمعنی الا حاطۃ والتحدید (قرطبی) ادراک کے معنی کسی چیز کو گھیر لینا ، اس کا احاطہ کرلینے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ احاطہ صرف اس چیز ہی کا کیا جاسکتا ہے جو محدود ہو اور کسی خاص سمت میں پائی جاتی ہو اور ذات الٰہ نہ محدود ہے اور نہ کسی خاص جہت میں موجود ہے اس لئے اس کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ ذات الٰہ کے علاوہ دنیا کی ہرچیز خواہ وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اس کا کوئی گوشہ اللہ تعالیٰ کے علم محیط سے باہر نہیں ہو سکتا۔ اس چھوٹی سی آیت میں اللہ تعالیٰ کی دو مخصوص صفتوں کا بیان پوری تفصیل سے آگیا اور کوئی بات اس سلسلہ کی مبہم نہ رہی۔ اول یہ کہ ساری کائنات میں کسی کی نگاہ بلکہ سب کی نگاہیں مل کر بھی اللہ کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ دوسری یہ کہ اس کی نظر ساری کائنات پر محیط ہے دنیا کا کوئی ذرہ اس سے چھپا ہوا نہیں۔ اس صفت میں بھی وہ یکتا ہے۔ ” ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر جہان کے سارے انسان ، جن ، فرشتے اور شیطان جب سے پیدا ہوئے اور جب تک پیدا ہوتے رہیں گے وہ سب کے سب مل کر ایک صف میں کھڑے ہوں تو سب مل کر بھی اس کی ذات کا اپنی نگاہ میں احاطہ نہیں کرسکتے۔ “ (ابن ابی حاتم) جب کہ نگاہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت بخشی ہے کہ وہ دنیا کی ہر چھوٹی اور بڑی چیز کو دیکھ سکتی ہے اور اس ظاہری آنکھ سے نہ نظر آنے والی چیزوں کو دیکھنے کے لئے نہ کوئی آلہ تیار ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ رہتی دنیا تک تیار ہو سکتا ہے۔ فکر کرو کہ آفتاب وماہتاب کتنے بڑے بڑے کڑے ہیں کہ اس ساری زمین اور ساری دنیا کی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے باوجود ہر انسان بلکہ ایک چھوٹے سے چھوٹے جانور کی آنکھ بھی ان کو کر ؤں کو اس طرح دیکھتی ہے کہ نگاہ میں ان کا احاطہ ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نگاہ تو انسانی حواس میں سے ایک حاسہ ہے جس سے صرف محسوس چیزیں دیکھی جاسکتی ہے اور محسوس چیزوں کا علم حاصل ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس تو عقل ووہم کے احاطہ سے بھی بالاتر ہے اس کا علم اس ہاسہ بصر سے ہرگز ہرگز ممکن نہیں۔ ؎ تو دل میں آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا ۔ بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے ہمارے مفسرین نے ” لن ترانی “ پڑھنے کے باوجود ” لن ترانیاں “ کی ہیں اور اس طرح کے قصے بیان کئے ہیں کہ فلاں نے فلاں جگہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور اس بحث کو طول دیتے ہوئے وہ اس مقام پر پہنچے کہ ہمارے نبی اعظم و آخر ﷺ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کو ان آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس سلسلہ میں انہوں نے احادیث بھی نقل کی ہیں اور کہا ہے کہ ابوہریرہ ؓ اور ابن عباس ؓ کا یہی فرمان ہے اور اس نظریہ کے خلاف بھی سیدہ عائشہ ؓ اور بہت سے دوسرے صحابہ کرام ؓ کا نام لیا ہے جو رؤیت باری کے اس دنیا میں قائل نہیں تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کے معراج کا واقعہ ہی جب اس جہان کے متعلق نہیں ہے جس کا تعلق ظاہری آنکھ سے ہے تو پھر اس بحث کا مطلب ہی کیا اور آخرت میں ایک دوسرا نظام ہے جس کے متعلق بحث بالکل بیکار ہے کیونکہ علم آخرت کی باتیں تو اس عالم دنیا میں تمثیل ہی کے لئے بیان کی جاتی ہیں ورنہ ان کی اصل حقیقت تو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے یہ سارا معاملہ ” ایمان بالغیب “ کا ہے۔ اس پر کوئی بحث ممکن ہوتی تو یہ ” ایمان بالغیب “ کیوں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ” گویا کہ دیکھنا “ کبھی دیکھنا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو صرف تفہیم کا ایک طریقہ ہے اور فی الواقعہ دیکھنے کی نفی ہے۔ اس لئے کسی کو ” کانک تراہ “ سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہئے کہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھنا ممکن ہے۔ قرآن کریم کی زیر نظر آیت اس کی واضح اور پختہ دلیل ہے۔
Top